• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا حکومت سکیورٹی رسک بنتی جا رہی ہے؟۔۔آصف محمود

کیا حکومت سکیورٹی رسک بنتی جا رہی ہے؟۔۔آصف محمود

تحریک انصاف کے دو سالہ اقتدار کا حاصل ایک ہی سوا ل ہے: کیا یہ حکومت سکیورٹی رسک بنتی جا رہی ہے؟ عمران خان کی خیر خواہی سے لے کر ان سے حسن ظن تک اور ان کی سادگی اور سچائی سے لے کر ان کے بھولپن تک ، جتنی تاویلات کی جا سکتی تھیں کر کے دیکھ لیں ۔اس سوال کے آسیب سے مگر جان نہیں چھڑا سکا ۔آپ کی نیت اب بھی خالص ہو گی اور آپ کا جذبہ سچا ہو گا لیکن حکومت محض نیک نیتی اور سچے جذبوں کا نام نہیں ، یہ کارکردگی کا نام بھی ہے۔کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ اپنے مطلع سے مقطع تک وہ اسی سوال کی شان نزول بن چکی ہے جواوپر اٹھایا گیا ہے۔ دنیا عمران خان کو تحریک انصاف کی نظر سے نہیں کہ ان کے ہر قابل اعتراض ارشاد گرامی پر یہ سوچ کر صدقے واری جائے کہ ہمارا کپتان سادہ بہت ہے اور اسے سیاست کی چالاکیاں نہیں آتیں اس لیے یہ بات اس کے منہ سے یوں ادا ہو گئی۔دنیا کسی بھی حکمران کی بات کو پوری معنویت سے لیتی ہے۔ کسی کو اس باب میں کوئی شک ہو تو وزیر ہوا بازی کے ایک غیر محتاط بیان پر دنیا کا رد عمل دیکھ کر غلط فہمی دور کر لے۔باکستان میں ان کی بات کو کوئی سنجیدگی سے لے یا نہ لے لیکن دنیا کے لیے وہ ریاست پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی تھے اور ان کے ایک بیان نے پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ عمران خان صاحب کا دعوی ہے کہ سفارت کاری کی دنیا میں ان کے حکومت کی کارکردگی غیر معمولی ہے ، اس لیے سفارت کاری ہی سے آغاز کر لیتے ہیں۔سفارت کاری کی دنیا میں ہمارے کمالات کا حاصل یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ ایران تشریف لے گئے تو تسلیم کر آئے کہ ہم ماضی میں ایران میں مداخلت کرتے رہے۔ امریکہ گئے تو ارشاد فرما آئے کہ ہماری افواج اور آئی ایس آئی نے القاعدہ کی تربیت کی۔ ان ارشادات کا واحد مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ میری تشریف آوری سے پہلے یہاں سب غلط تھا اور اب چونکہ میں آ گیا ہوں میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے اور صاحب اسامہ بن لادن کی شہادت کے مضامین باندھ رہے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن شہید تھے یا نہیں ، نہ ہی اس کے لیے کسی کو جناب وزیر اعظم کے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے۔نہ ہی یہ اس دن کا موضوع تھا۔سوال صرف یہ ہے کہ سفارت کاری کی دنیا سے جڑا وزیر اعظم کا بیان پاپولزم ، سادگی یا افتاد طبع کا عکاس ہونا چاہیے یا اپنے مسائل ، پالیسی اور ترجیحات کا عکاس ہونا چاہیے؟اڑتا تیر بغل میں لے لینا کوئی ایسا کام نہیں ، سفارت کاری کی دنیا میں جس کی تحسین کی جا سکے۔ کشمیر میں بھارت نے جو قدم اٹھایا ، یہ کسی سانحے سے کم نہیں تھا۔ ہماری خارجہ پالیسی کا کمال یہ تھا کہ اس سانحے کے ہنگام چین ، ملائیشیا اور ترکی کے علاوہ کوئی ہمارے ساتھ نہ تھا۔ہم تنہا کھڑے تھے۔ عرب دنیا بھی ہمارے ساتھ نہیں تھی۔ جھنجھلاہٹ کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم کی ناقص پالیسی پر سوال اٹھا تو آگے سے ارشاد ہوا : اور کیا کروں ، حملہ کر دوں؟ وزیر خارجہ کی زبان یوں پھسلی کہ عالمی میڈیا کے سامنے مقبوضہ کشمیر کی بجائے ’’ انڈین سٹیٹ آف جموں اینڈ کشمیر‘‘ کہہ دیا۔روایت ہے کہ زبان پھسل گئی۔ اتنے نازک موقع پر بھی اگر وزیر خارجہ کی زبان پھسل جائے اور وہ اس کی تصحیح تک کرنے کا تکلف نہ کرے تو پھر اس کی جگہ وزارت خارجہ نہیں، وزارت اوقاف ہونی چاہیے۔عربی کا مقولہ ہے: لکل فن رجال۔ایک تقریر ہم نے کر لی تھی اور ایک جمعے کو ہم کھڑے ہو گئے تھے۔کشمیر جیسے اہم مسئلے پر ہماری سفارت کاری کی کہانی بس یہی ہے۔ معیشت بھی کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے رکھی ہے۔روپے کے ساتھ جس بے رحمی سے معاملہ کیا وہ تولمحہ فکریہ ہے ہی لیکن جو اس کا جواز پیش کیا گیا وہ بھی ڈرا دینے والا ہے۔ کہا گیا ن لیگ نے روپے کو مصنوعی طور پر سہارا دے رکھا تھا ہم روپے کو کھلی مارکیٹ میں اس کے اصل مقام پر لائے ہیں۔ کاغذ کی کرنسی میں مصنوعی کیا ہوتا ہے اور حقیقی کیا ہوتا ہے؟ گڈ ول پر سب کچھ کھڑا ہوتا ہے اور کسی نے مصنوعی طریقے سے ہی سہی اسے سنبھالا ہوا تھا تو اس میں خرابی کیا تھی؟ روپیہ رسوا ہوتا رہا اور جدید معیشت کے معمار جناب اسد عمر اسے اپنی زلف کا حسن قرار دیتے رہے۔اس دوران وزیر اعظم جہاں بھی گئے سارا زور اسی پر رہا کہ پاکستان تو ایک کرپٹ ملک ہے بس اب میں آ گیا ہوں میں نے اس کو ٹھیک کر دینا ہے۔ ٹھیک تو انہوں نے کیا کرنا تھا پاکستان کی کرپشن کے جھنڈے انہوں نے دنیا بھر میں گاڑ دیے اور اب آصف زرداری کے وزیر خزانہ کی مدد سے دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہو جائے ، کہیں تیل نکل آئے یا مارگلہ کے جنگل کی شاخیں ہیرے کی ہو جائیں۔ یہ معلوم انسانی تاریخ کی واحد حکومت ہے جس کا سربراہ اپنی عظمت اور انفرادیت ثابت کرنے کے شوق میں جہاں بھی گیا پاکستان پر فرد جرم عائد کر کے لوٹا۔ زعم یہ تھا کہ اس ملک میں میرے آنے سے پہلے سب کچھ غلط تھا۔ ہم کرپٹ تھے ، ہم ایران میں مداخلت کرتے تھے ، ہم نے القاعدہ کو تربیت دی لیکن اب میری شکل میں نجات دہندہ آ گیا تو پہلی دفعہ سب کچھ ٹھیک ہونے جا رہا ہے۔ صاحب کا شخصی امیج تو پتا نہیں بہتر ہوا یا نہیں کہ ریاست کے دشمنوں کے ہاتھ ایک ایسی فرد جرم لگ گئی جو خود وزیر اعظم نے مرتب فرمائی تھی۔معاملہ پائلٹس اور ایوی ایشن کا ہو تو نتائج فوری آ جاتے ہیں ، معاملہ امور خارجہ کا ہو تو اثرات سامنے آنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔معلوم نہیں ان غیر محتاط بیانات کا آسیب کب تک ہمارا پیچھا کرے؟ سوال اب نیتوں کا نہیں سوال کارکردگی اور طرز عمل کا ہے۔سوال یہ نہیں آپ کتنے اچھے ہیں سوال یہ ہے آپ کے اس طرز حکومت نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply