میں ہوں جہاں گرد / فرخ سہیل گوئندی/تبصرہ؛طاہر علی بندیشہ

ہسپانوی سیاح ابو عبد اللہ محمد الادریسی القرطبی الحسنی السبتی اور عثمانی سیاح اولیا چلیبی کی سیاحت کو نشانِ راہ مانتے ہوئے ایک پُرشعور سیاح کی راہ نَوَردی کی سرگزشت، قصے  اُن سفروں اور زمانوں کے جو اب صرف کتابوں میں ملیں گے ۔ کہنے کو تو ان سفروں کو صرف ابھی اڑتیس سال کا عرصہ ہی گزرا ہے لیکن زمانہ چال قیامت کی چل گیا ، پلوں کے نیچے سے بیش بہا پانی گزر گیا۔
وہ جگہیں ، مقامات ، حالات و قرائن ، حال احوال اب کسی اور ہی زمانے کی بازگشت سنائی دیتے ہیں ۔ ایسی راہ نوردیوں کی تو بس خواہش ہی کی جا سکتی ہے۔ وقت کا پہیہ اُلٹا کب گھوما ہے ؟!
آنکھوں دیکھے اور قدموں ماپے ہوئے رستوں اور شہروں کے واقعات،خواب و خیال ہوئے زمانوں میں ایسے رستوں پر کیا گیا سفر جو اَب صرف کتابوں میں ہی شاید ملیں۔ مجھے اُن زمانوں کے ایسے سفرنامے اِس لیے بھی کچھ زیادہ بھاتے ہیں کہ  نہ گوگل میپ تھا اور نہ ہی فیسبک پر لوکیش کا اسٹیٹس ڈالنے کا ہُڑکا ، رابطہ فقط خط کی صورت تھا ، حقیقی معنوں میں اس شعر کی عملی تفسیر ؎
چل بُلّھیا اوتھے چلیے جِتھے سارے اَنّھے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے، نہ  کوئی سانوں منّے

وہ زمانے بھلے ، لوگ بختاور ، ملکوں ملکوں گھومنے کا کلچر ، ہپیوں کے غول ، سیاحوں کے یارانے ، ایسے ماحول میں سفر کا موقع نصیب ہونا بھی یقیناً خوش نصیب ہونے کے انعاموں میں سے ایک انعام ہی ہوتا تھا۔

فرخ سہیل گوئندی صاحب نے یہ سفر ۱۹۸۳ء کے سن میں براستہ ایران سوئے ترکی و بلغاریہ کیا تھا جب دنیا ابھی گلوبل ویلیج میں تبدیل نہ ہوئی تھی اور اُن بھلے وقتوں میں ابھی گرین پاسپورٹ کی کچھ ساکھ باقی تھی۔

“ اپنے قیام کے دوسرے روز ، آوارہ گردی کے جنون میں ، مَیں نے عرب مسافر خانے کے نوجوان منیجر سے ایک یادگار سودے بازی کی ۔ ایران میں ان دنوں ’’شعلے‘‘ فلم اور اس کا گانا ’’محبوبہ حبوبہ‘ عروج پر تھا۔ میرے پاس یہ گانا ایک کیسٹ میں موجود تھا۔ کسی ایرانی کے لیے میکسی ڈرگ کی طرح نایاب اور قیمتی تحفہ تھا۔ ہوٹل کے اس نوجوان ایرانی منیجر کی میری کیسٹوں پر نظر تھی اور میری نظر اس کی سائیکل پر جو مسافر خانے کی ڈیوڑھی میں کھڑی تھی ۔سودا ہوا کہ وہ میری کیسٹیں لے کر ان کو کاپی کر لے گا اور اس کے عوض وہ مجھے اگلے تین دن اپنی بائیسکل عطا کیے رکھے گا۔سائیکل ، ٹرین کے بعد اس جہاں گرد کی پسندیدہ سواری ہے ۔ بس اب عرب مسافر خانے کی بائیسکل تھی ، میں آوارہ گرداورمشہد کی گلیاں ۔

“ میں ہوں جہاں گرد “ گوکہ   21-2020 میں لکھا گیا ہے، لیکن چونکہ سفرنامہ نگار اُس وقت بیس بائیس سال کا نوجوان تھا تو اسی کی مناسبت سے، کتاب کے بیان میں واقعات کو پیش کرنے کا جوش و جذبہ بین السطور اُسی دور کی جھلک دکھلاتا ہے ۔ گویا کہ اسے لکھتے ہوئے فرخ صاحب بعینہٖ اُسی دور میں چلے گئے ہیں بالخصوص جب وہ بلغاریہ میں داخل ہونے کا قصہ بیان کرتے ہیں تو سطروں میں سے جو ہیجان و جوش اور حیرت و مسرّت جھلکنے لگتی ہے انہیں پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ زندگی کو پچاس دہائیوں سے زائد دیکھنے والے کی تحریر ہے۔

جو لوگ صرف ٹھپہ  لگوانے کی خاطر نہیں بلکہ حقیقتاً ترکی کی سیاحت پر جانا چاہتے ہیں ان کے لیے یہی ایک کتاب کافی و شافی ہو گی۔ ارضِ روم سے لے کر استنبول تک اور استنبول کے اندر قدیم و جدید محلے گلیاں ، محل و عمارتیں سب کا مفصّل تذکرہ ہے ۔ یہ سفرنامے کے ساتھ ساتھ پڑھی ہوئی تاریخ کو آنکھوں دیکھنے اور کانوں سننے کا سفر تھا جس میں قاری کو بھی شریک کر لیا گیا ہے۔بندہ ترقی پسند ہو ، پڑھنے لکھنے کا شوقین بھی ہو تو حسّاس ہونا ناگزیر ٹھہرتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسا ترقی پسند حسّاس ذہن اپنے وطن کی پسماندگی اور ہم وطنوں کی باتوں پر کُڑھے نہ ۔

اِس سفرنامے میں قاری کو چٹخارے دار باتیں نہیں ملیں گی ، شراب شباب اور کباب کے رنگین قصے بھی عنقا ہونگے ، یہ ایک سیدھا سادہ سا سفرنامہ ہے جس میں اُس وقت کے ایران ( تازہ تازہ انقلاب ) ترکی اور بلغاریہ کا رہن سہن ، سیاسی حالات اور لوگوں کی معاشرتی حالت اور اِن ملکوں کی قدیم تاریخ کے تناظر میں عصری سیاسی و معاشرتی تاریخ موجود ہے ۔ ایرانی عوام اپنے انقلاب کے بارے میں کیا سوچ رہے تھے ، ترکی اپنے بابا مصطفی کمال پاشا کے لیے کیا جذبات رکھتے تھے  ، سیاسی بیانیہ ، بلغاریہ میں کمیونسٹ حکومت کے زیرِ  سایہ لوگ کیسے زندگی کر رہے ، یہ سب حال احوال سادہ زبان میں قاری کو بیان کیا گیا ہے ۔ یہ صرف ایک سفرنامہ نہیں ہے بلکہ معاشرتی ، سیاسی اور تاریخی تحقیق نامہ بھی ہے۔ ایران ، ترکی اور بلغاریہ کے بارے میں دقیق اور وقیع معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ “میں ہوں جہاں گرد “میں جو جہاں گرد ہے وہ ایک نوجوان لاہوری ، سوشلسٹ اور ترقی پسند نظریات کا حامل ہے جو تاریخ پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ، لاہوری ہونے کے ناطے کھانوں اور کھابوں پر بھی مساوی نظر رکھتا ہے۔ بالخصوص بلغاریہ کے اندر کی باتیں تو ایک جہانِ  حیرت ہے جو قاری پر واء  ہوتا ہے اور بے اختیار بندہ سوچتا ہے “ ہیں اِنج وی ہُندا سی “۔ بلغاریہ کی باتیں تو پڑھ کر بندہ دنگ رہ جاتا ہے ۔ کیسی شاندار کمیونسٹ زندگی تھی ۔ حقیقی یوٹوپیا۔

“ سکرٹ اور شرٹ پہنے ریل گارڈ خاتون ہمارے سفرنامہ نگاروں کے بیان کے مطابق حسینہ تھی ، بس ایک فرق تھا کہ وہ ان سے زیادہ حسین تھی جن کا ذکر ہمارے سفرناموں میں ہوتا ہے کیونکہ یہ بلغاری حسن تھا ۔ اگر ہمارے یہ سفرنامہ نگار اسے دیکھ لیتے تو اسے حسینہ نہیں بلکہ “ سرخ جنت کی حور “ لکھتے ۔

بھلے وقتوں کے بھلے قصے جیسے کہ ایران میں ایک بڑا دلچسپ قصہ :
بھلے زمانے دیاں بھَلیاں گلّاں
“ اپنے قیام کے دوسرے روز ، آوارہ گردی کے جنون میں ، مَیں نے عرب مسافر خانے کے نوجوان منیجر سے ایک یادگار سودے بازی کی ۔ ایران میں ان دنوں ’’شعلے‘‘ فلم اور اس کا گانا ’’محبوبہ حبوبہ‘ عروج پر تھا۔ میرے پاس یہ گانا ایک کیسٹ میں موجود تھا۔ کسی ایرانی کے لیے میکسی ڈرگ کی طرح نایاب اور قیمتی تحفہ تھا۔ ہوٹل کے اس نوجوان ایرانی منیجر کی میری کیسٹوں پر نظر تھی اور میری نظر اس کی سائیکل پر جو مسافر خانے کی ڈیوڑھی میں کھڑی تھی ۔سودا ہوا کہ وہ میری کیسٹیں لے کر ان کو کاپی کر لے گا اور اس کے عوض وہ مجھے اگلے تین دن اپنی بائیسکل عطا کیے رکھے گا۔سائیکل ، ٹرین کے بعد اس جہاں گرد کی پسندیدہ سواری ہے ۔ بس اب عرب مسافر خانے کی بائیسکل تھی ، میں آوارہ گرداورمشہد کی گلیاں ۔
پھر گلی گلی پھرا میرآواره۔۔”

ترکی میں شیدا ہوٹل ، ہپی کیفے اور سری پائے اور لسّی کی دریافتیں  ۔ترکی میں جنرل کنعان ایورن کا ظالم ترین مارشل لاء کا آنکھوں دیکھا حال ۔

سفرنامے میں جا بجا بڑے دلچسپ اور فِکر انگیز جملے ہیں مثلاً محمود غزنوی کی بابت ، مساجد پر پرچم لہرانے کی نسبت ، سیکولر مزاج ،“ تاریخ کے سفر میں جبر کی کہانیاں بھی ملتی ہیں جیسے کہ قدیم عمارتوں میں جھانکیں تو جہاں کبھی گرجے تھے وہ اب مساجد ہیں اور کبھی جہاں مساجد تھیں وہاں اب گرجے ہیں “ ترکی ٹوپی کے بارے میں دلچسپ حقیقت کہ آخر زمانہ میں اس پر پابندی لگا دی گئی تھی کہ یہ جہالت کی علامت سمجھی جانے لگی تھی ، بالجملہ یہ کتاب بالخصوص ترکی کے بارے میں ہمیں تفصیل سے ایک وِیو ( view ) دیتی ہے ۔ مجھے اگر ترکی جانا ہو گا تو میرے نوٹس اور کھوج کے لیے یہی کتاب مُمدّ و معاون ہو گی۔

یہ سفرنامہ دوسرے سفرناموں سے بڑا مختلف اور ممتاز ہے ۔یہ افسانوی انداز سے پاک ہے ، سراسر تاریخی و زمینی حقائق سے مملوء ہے۔ ترکی کے لیے تو باقاعدہ یہ ایک ٹورسٹ گائیڈ کا کام بھی کرتا ہے۔ گوئندی صاحب نے بتایا ہے ٹریولر اور سیاح میں بڑا بنیادی فرق ہوتا ہے ۔ ٹریولر چھٹیاں گزارنے کے لیے سفر کرتا ہے جبکہ سیاح تاریخ کھنگالنے کے لیے سفر کرتا ہے۔

اس سفرنامے کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اسے اردو کی مقامی روایت سے نہیں بلکہ عالمی روایت سے جوڑا گیا ہے ۔ مصنف تیاری کر کے گیا ہوا تھا اور قاری کو وہاں کے پب، کلب اور رقص گاہیں اور شاپنگ مالز میں نہیں گھماتا بلکہ تاریخ کی راہوں پہ قاری کی انگلی پکڑے اُسے تاریخی واقعات و مکانات سے روُشناس کرواتے ہوئے ساتھ ساتھ سیاسی و علمی و ادبی معاملات سے واقف کرواتا ہے۔

ضخیم کتاب ہونے کی وجہ سے اگر کوئی موضوع تلاش کرنا مشکل تھا تو کتاب کے آخر پر بڑی تفصیل سے اشاریہ دیا گیا ہے جو بڑا مددگار ثابت ہوتا ہے۔

نقد :
چٹکی لینا تو اردو ادب کا مزاج رہا ہے جسے اہل علم “ چلی جائے چھیڑ خوباں سے اسد “ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایسے ہی مصنف اپنی زندہ دلی اور شوخ طبعیت کا ثبوت دیتے ہوئے گاہے گاہے چٹکی لیتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ ایک باب کی ہیڈنگ ہی “ حسینہ آ ہی گئی “ رکھتے ہیں ۔

مصنف کافی مقامات پر نام لیے بغیر اُردو کے دوسرے سفرنامہ نگاروں پر حسینوں کے نام سے پھبتیاں کَستے ہوئے جاتے ہیں مگر کیا طرفہ تماشہ ہے پھر خود بھی حسیناؤں سے ٹکراؤ کے مواقع پاتے ہیں ، کہیں ایران میں انقلاب مخالف خیال عورتوں کا گروہ ، تو کہیں ترکی میں کبھی کوئی تُرکن انقلابی تو کہیں ترکی میں ایرانی انقلابن اُن کی شائق ہے بلکہ ایک جگہ تو ایک ترک بورژوا فیملی کی لڑکی نے تو اپنے بھائی کے ذریعے پہلی ملاقات میں شادی کی دعوت بھی دے ڈالی ۔

ہمیں اس واقعے کی صحت پر چنداں اعتراض نہیں ہے بلکہ ہم ایسے حادثات و ممکنات کے قائل ہیں مگر یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ انہیں جو ملیں وہ حقیقی بھی تھیں اور وہ اصلی والی حسین بھی تھیں جبکہ دوسرے سفرنامہ نگاروں کو گویا کہ ملی نہیں بلکہ وہ چھوڑتے رہے ہیں اگر ملیں بھی تو حسین نہیں تھیں البتہ انہوں نے اپنی طرف سے حسین بتائی تھیں۔ مصنف کی جا بجا تنقید سے کچھ ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ بطورِ نمونہ ایک جملہ :

“ سکرٹ اور شرٹ پہنے ریل گارڈ خاتون ہمارے سفرنامہ نگاروں کے بیان کے مطابق حسینہ تھی ، بس ایک فرق تھا کہ وہ ان سے زیادہ حسین تھی جن کا ذکر ہمارے سفرناموں میں ہوتا ہے کیونکہ یہ بلغاری حسن تھا ۔ اگر ہمارے یہ سفرنامہ نگار اسے دیکھ لیتے تو اسے حسینہ نہیں بلکہ “ سرخ جنت کی حور “ لکھتے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کتاب کی ضخامت زیادہ تھی اُس کے حساب سے جلد بندی میں شاید کوئی جدید طریقہ استعمال نہیں  کیا گیا لہذا آخر تک پہنچتے پہنچتے کتاب کی جلد اُکھڑ کر علیحدہ ہو گئی۔
کتاب میں تصویریں دی گئی ہیں مگر تصویروں کے بارے میں توضیحی سطریں کتاب کے آخر میں نمبر شمار دے کر دی گئی ہیں، تصویر دیکھنے پھر آخر پر جا کر اُس نمبر کی تشریحی سطر پڑھنے کی مشق تصویریں دیکھنے کے  عمل کو غیر دلچسپ اور اکتاہٹ آمیز بنا دیتی ہے، اگر وہیں تصویر کے نیچے ہی وضاحتی سطر لکھ دی جاتی تو زیادہ سہولت رہتی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply