بنیاد(2،آخری حصّہ)۔۔محمد وقاص رشید

اچھا مولانا میرا ایک دوست ہے فیکٹری میں،ثاقب نے فیصلہ کُن وار کیا ۔ فیملی پلاننگ کے بڑا خلاف تھا،مجھ سے بہت بحث ہوئی اسکی یہی آپ والی باتیں کرتا تھا،میں نے اس سے کہا یار اسلام تو ہے ہی حقوق و فرائض کا دین، اب کیا خدا ہمیں حکم دے سکتا ہے کہ اپنی آمدن سے زیادہ بچے پیدا کرو؟  انہیں بنیادی ضروریات کے لیے ترساؤ؟  پھر انہیں کھلانے کی عمر میں ان سے کھانے لگ جاؤ؟ کیا منصف و عادل خدا ایسا کر سکتا ہے کہ اپنے  کنبے کو اپنی آمدن کے مطابق رکھنے والوں کے بچوں کو تو روز دودھ کا گلاس پلائے، انہیں اچھا کھانا کھلائے، اپنی پسند کے پیزے اور برگر بھی دلوائے، موسمی کپڑے کھلونے اور جوتے بھی دلوائے۔۔ اپنا الگ بستر بھی ہو،  نیند بھی پوری کروائے، سکول میں تعلیم بھی اچھی دلوائے اور ماں باپ کی انفرادی توجہ بھی دلوائے لیکن اسکے براہِ راست اور غیر مشروط رازق ہونے کے فہم پر اپنی آمدن سے زیادہ بچے پیدا کر لینے والوں کو ان سب سے محروم رکھے۔ کیا ایک بیمار ، سٹنٹڈ گروتھ کا شکار نسل،بیمار مائیں خدا کی منشا ہو سکتی ہیں ۔؟

وہ مجھے کہتا تھا اپنی پروفیسری نہ جھاڑ، بڑا آیا فیسبکی دانشور،نو سالوں میں چار بچوں کے بعد ایک دن کہنے لگا اب بیگم نے کہا ہے بس ہو گئی۔  اس بے چاری کی صحت نہیں ٹھیک۔۔  میں بھی چھٹی جاتا ہوں تو رات سو بھی نہیں سکتا ٹھیک سے۔  ایک کمرہ ہے،دو بچے تو ہوتے ہی اپنی پھپھو اور دادو کے پاس ہیں۔ بڑا بچہ بہت ضدی اور چڑچڑا ہو گیا ہے، میں پلانٹ پر ہوتا ہوں، پڑھائی بھی ٹھیک سے نہیں ہو رہی، بڑا پریشان ہوں۔۔  میں نے کہا،بھائی مجھے صرف یہ بتا دو چار بچوں کے بعد اب فیملی پلاننگ حلال کیسے ہو جائے گی ۔ ؟

اس پر مولوی صاحب کہنے لگے نہیں نہیں اسلام عورت کی صحت پر اجازت دیتاہے۔ اگر عورت کی زندگی موت کا مسئلہ ہو تو اسقاطِ حمل بھی جائز ہے۔ ثاقب نے فورا ً کہا یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔  وہی میڈیکل سائنس جب ہمیں فیملی پلاننگ کا مشورہ اور نصیحت کرتی ہے تو آپکا اسلام اسے رد کر دیتا ہے اور وہی میڈیکل سائنس جب اپنی نصیحت پر عمل نہ کرنے کی صورت میں عورت کی موت کے خدشے کا اظہار کرتی ہے تو آپکا اسلام مان لیتا ہے۔  کیا یہ سہیل وڑائچ صاحب والا کھلا تضاد نہیں ؟ ۔ دوسرا اسکا تو مطلب یہ ہوا کہ عورت کو مرنے کی نوبت تک لے جاؤ اور وہاں سے عقل کا استعمال کرو  اور باقی جو مسائل اس نے بتائے ان پر معاذاللہ اسلام راضی ہوتا ہے اور خدانخواستہ یہ چاہتا ہے کہ ہر گھر میں یہ مسائل لازمی ہوں۔

مولوی صاحب کو راستہ مل گیا اور وہ جان بوجھ کر میڈیکل سائنس والے سوال سے دامن بچاتے ہوئے کہنے لگے دیکھیے ثاقب صاحب آپ اچھے آدمی ہیں لیکن ہمیں احتیاط کرنی چاہیے کہ کہیں کوئی توہین آمیز لفظ ادا کر کے ہم دائرہ اسلام سے نکل نہ جائیں ۔

ثاقب نے کہا مولوی صاحب انتہائی مودبانہ اور عاجزانہ عرض ہے کہ عزت و توہین دونوں شعوری عمل ہیں اور ان امام ابو حنیفہ کی تعلیمات کے مطابق فیصلہ سازی کے لئے نیت و ترجیح کا پرکھا جانا بنیادی شرط ہے۔  جیسا کہ میں اسلام کی عزت افزائی کے لیے افلا یتدبرون پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک غلط تفہیم کے نتیجے میں ایک گھمبیر سماجی مسئلے کو کم ازکم اپنے دائرے میں ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔یہ توہین کیسے ہو سکتی ہے؟

اگر خدا بخش کے بچے سکھی ہونگے،یہ میرا بچپن کا کلاس فیلو دوست ہے میرا بھائی ہے اگر اسکے گھر میں یہ مسائل اسلام کی درست تفہیم سے حل ہوں اور آپ ممبر رسول ص سے اسکو مثال بناتے ہوئے لوگوں کو آج کی گفتگو کی روشنی میں خدا کے گھر کی پلاننگ کے ساتھ اپنے گھر کی پلاننگ کا وعظ فرمائیں تو یقین کریں یہ خدا کی منشا ضرور ہو گی۔عالی جاہ!

مولوی صاحب نے کہا:چلیں دیکھیں گے، ابھی رات بہت ہو گئی، صبح تہجد کے لیے بھی اٹھنا ہے۔ جی ضرور ثاقب نے آگے سے میز ایک طرف ہٹائی اور کہا آپ کی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ مولوی صاحب اور خدا بخش بھائی۔۔۔۔ اللہ حافظ!

یہ کہہ کر جب ثاقب اندر آیا تو طاہرہ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کہنے لگی خدا آپ کی کاوش قبول کرے۔”لکم دینکم ولیدین”

اس ملاقات کو چند دن بیت گئے تو ایک دن سعیدہ ،طاہرہ کے ہاں آئی اور بڑے ہی تاسف سے کہنے لگی آپکا اور ثاقب بھائی کا شکریہ۔۔لیکن غریب کے بختوں کی سیاہی اتنی آسانی سے نہیں چھٹتی۔ ہم جہاں بہت سارے اور پنجروں میں بند ہیں وہاں یہ خدا کے دین کے یہ ٹھیکیدار بھی ہمارے ذہنوں کو جکڑ کر اپنی محصول چنگیاں لیتے ہیں۔۔ خدا بخش نے مجھے ساری روداد سنائی تھی مولوی صاحب اور ثاقب بھائی کی بحث کی۔ خدا بخش کہتا ہے کہ اسکا دل باہر نکلنے سے پہلے بدل گیا تھا ۔ثاقب بھائی کے دلائل بہت ہی مضبوط تھے  لیکن خدا کا شکر ہے ثاقب بھائی کے گھر سے نکلتے ہی مولوی صاحب نے کہا یہ لبرل اور سیکولر طبقہ ہے۔یہ نہ اسلام کو سمجھتے ہیں نہ اسکے خلاف سازشوں کو  بلکہ اسکا حصہ بنے ہوئے ہیں یہ لوگ۔ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ میں لے کر آتا ہے اور خدا ہی سب کا رازق ہے۔ میں اسکی باتوں کے جواب اس لیے نہیں دے رہا تھا کہ اسکا اتنا علم نہیں ہے کہ سمجھ سکے، بس تم اپنا ایمان مضبوط رکھو،یہ کہہ کر سعیدہ ،طاہرہ کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔ آپی میں امید سے ہوں۔۔۔طاہرہ نے اسے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ اپنے آپ کو ہلکان مت کرو۔۔۔۔ خدا خیر کرے گا!

پھر اسکے کچھ عرصے بعد ثاقب نے کمپنی تبدیل کی اور نئی نوکری کے سلسلے میں طاہرہ اور بچوں کو بھی ساتھ رکھنے کا فیصلہ کر لیا،جس دن انہوں نے وہاں سے جانا تھا اس دن سعیدہ بھی طاہرہ سے ملنے آئی۔ اور بہت روئی۔۔۔ کہنے لگی طاہرہ باجی آپ کا بڑا سہارا تھا، طاہرہ نے اسے تسلی دی، کہا کہ  میں تم سے رابطے میں رہوں گی  اور پھر وہ لوگ چکوال سے واہ کینٹ چلے گئے۔

ایک سال یونہی بیت گیا درمیان میں ایک آدھ دفعہ ثاقب کا چکر لگا چکوال۔۔ سعیدہ بھی طاہرہ سے بات کر لیتی تھی کبھی کبھار۔سعیدہ کے ہاں بیٹا ہوا تھا۔ایک دن خدا بخش کے فون سے اسکے بڑے بیٹے عدنان نے اسے فون کیا اور روہانسی آواز میں کہنے لگا۔۔۔ انکل آپ تو جاتے ہوئے مجھے نصیحت کر گئے تھے کہ میں  محنت سے پڑھوں، نیلم بھی پڑھنا چاہتی ہے لیکن ابو اسکو سکول سے اٹھا چکے اور مجھے اٹھانے کے لیے امی سے لڑ رہے ہیں، انکل پلیز کچھ کریں، آپکو خدا کا واسطہ۔۔۔ثاقب نے کہا آپ پریشان نہ ہوں عدنان بیٹے۔ آپ پڑھیں گے بھی اور اپنی خواہش کے مطابق ڈاکٹر بھی بنیں گے۔۔۔۔ہم اس ویک اینڈ پر چکر لگاتے ہیں انشااللہ!

ہفتے کی شام چکوال میں خدا بخش کے گھر پہنچ کر طاہرہ نے اسکے بچوں کے لیے خریدی ہوئی چیزیں انہیں دیں تو بہت خوش ہوئے ۔انکی آنکھوں میں چھپی حسرتیں محرومیوں کے دیے بن کر ٹمٹما رہی تھیں۔ بجھے ہوئے مدقوق چہرے ، کمزور جسم ،پیلی پیلی رنگتیں ۔۔ نہ جانے انکا مجرم کون تھا،ملائیت کے ہاتھوں میں کھیلتی جہالت ، اپنے بنیادی فرائض سے لا بلد یہ ریاست یا روایات کے نام پر سماج کو اندر ہی اندر کھا جانے والا ناسور ۔ جو بھی تھا لیکن علم و عقل کو پیدا کر کے اسکی بنیاد پر انسان کو اپنے نائب کا درجہ دینے والا خدا نہیں ہو سکتا۔۔  کبھی نہیں!

ثاقب نے خدا بخش سے کہا۔  ہم تم سے کچھ بات کرنے آئے ہیں۔  عدنان کو سکول سے کیوں اٹھانا چاہتے ہو؟ ۔ خدا بخش نے کہا، یہ کچھ کام وام سیکھ جائے تو چلو میری کمر تھوڑی سیدھی ہو جائے گی ۔ میں کہاں اسے ڈاکٹر بنا سکتا ہوں ثاقب بھائی۔ ۔۔

ثاقب نے کہا۔۔ اب کہاں ہیں وہ مولوی صاحب۔۔  کدھر ہے انکی وہ مذہبی تفہیم۔  چلو آؤ ان سے پوچھتے ہیں کہ اب انکا خدا ایک انتہائی با صلاحیت بچے اور ملک کے مستقبل کے ایک ڈاکٹر کے ہاتھ سے سٹیتھو سکوپ اور تھرمامیٹر لے کر چابی پانہ کیوں پکڑانا چاہتا ہے ۔ کیوں خدا بخش کیوں ؟۔

خدا بخش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔ کہنے لگا تو پھر کیسے پڑھاؤں۔  کیا کروں ثاقب بھائی  ؟کام ہے نہیں، اوپر سے مہنگائی اتنی ہے کہ دال روٹی پوری کروں یا انکی سکول کی فیسیں۔  ؟ ایک اور بھی راستہ ہے مولوی صاحب کہتے ہیں مدرسے میں کروا دو۔ ۔ ثاقب کا دل کیا خدا بخش کو ایک جڑ دے کہ جس ملائیت کے نرغے میں یہاں تک خود پہنچا۔  اب اپنی اولاد کو اسی کنویں میں دھکیلنا چاہتا ہے۔  ثاقب نے کہا یعنی تمہارے اس مولوی کا اسلام یہ کہتا ہے کہ ایک انتہائی ذہین اور محنتی بچے کو سکول سے اسکی مرضی کے خلاف روتا دھوتا اٹھا کر مدرسے کے نام پر اسکا ذہنی و جسمانی غلام بنا دو تو یہ خدا کو رازق ماننے پر ایمان ہے ورنہ آپ منکر ہیں لبرل ہیں سیکولر ہیں انکی نظر میں ۔میں نے تمہیں مولوی صاحب کو اسکے بعد ایک میسج بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ خدا بخش جیسا عام پاکستانی 15 سے 20 ہزار روپے کماتا ہے۔  ان بیس ہزار روپوں میں 2 بچوں کے ساتھ گزارہ بہتر ہو سکتا ہے یا 6بچوں کے ساتھ۔  ایک ایمانی بجٹ بنا دیں نہ آپ کیونکہ آپ ہر تقریر میں اسلام کے معاشی نظام کا ذکر فرماتے ہیں ۔ تو کیا اسلام کا معاشی نظام زیادہ بچے پیدا کر کے انہیں دوسروں کی امداد ،بھیک اور زکوٰۃ پر پالنا ہے ؟ ۔تو پھر کیا کروں ثاقب بھائی ؟

ثاقب اور نیلم دونوں کی پڑھائی ہماری ایک تنظیم کرے گی ۔جسکا نام ہے “میں بھی پاکستان ہوں ” ہم دوستوں اور ہم خیال لوگوں نے مل کر یہ تنظیم بنا رکھی ہے۔۔۔ جس کے دو سو ممبر ہیں اور ہر ممبر صرف 500روپے دیتا ہے  میں نے ان لوگوں سے بات کر لی ہے، سب دوست راضی ہیں کہ ہم ان دونوں کو پڑھائیں گے انشااللہ ۔۔ لیکن کاش اے کاش کہ تم وقت پر ہوش کے ناخن لیتے ۔تمہاری خدا کے دین کی غلط تفہیم کا خمیازہ تمہارے ان معصوم بچوں کو نہ ادا کرنا پڑتا ،اب تم اپنے خدا سے وعدہ کرو کہ باقی بچوں کی دیکھ بھال صحیح طریقے سے کرو گے۔ خدا بخش نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ انشااللہ انہیں پڑھاؤں لکھاؤں گا ۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔ ۔ خدا آپ کے ان دوستوں کو مالا مال کر دے۔  بڑی مہربانی جناب۔ ۔ بہت بہت شکریہ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا بخش ثاقب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے لگا تو اس نے اسکے ہاتھ تھام کر گلے سے لگا لیا۔  خدا بخش نے سعیدہ سے بھی کہا مجھے معاف کر دو میں نے تمہاری بات بھی نہیں مانی۔ ثاقب نے جونہی ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھولا ۔ نیلم اور عدنان دونوں بہن بھائی ثاقب اور طاہرہ سے لپٹ گئے۔۔۔  ثاقب اور طاہرہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مطمئن ہو گئے کہ انہوں نے انکی ساری باتیں سن لی ہیں۔۔” ساری باتیں” ۔اسکا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ ابھی سے خدا کے بارے میں غلط فہمی پالنے سے بچ جائیں گے۔۔ یہ خاندانی منصوبہ بندی کیا ہر طرح کی انسانی منصوبہ بندی کی بنیاد ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply