پاں بجا دی/یوحنا جان

جب سے اس پاں کا چرچا پاکستان اور اس کی عوام میں مقبولیت پکڑتا جا رہا ہے ویسے ہی اس کے تاثرات نوجوان نسل میں اور خاص کر اس ملک کے محب وطنوں میں انوکھے رنگ اور ظلم کی داستان رقم کرنے میں مگن ہے۔

 

 

 

 

 

ہر سال کی طرح اس سال بھی آزادی کا مہینا آیا جو آباؤاجداد کی قربانیوں اور ان کے لہو کی یاد دلاتا مگر کہاں یاد کرنے والوں کے خون کی جگہ روح افزا شربت کے رنگ نے لے لی ہے ۔

جو سال 2023ء کو پاں نے اپنی لپیٹ میں دے دیا ہے۔ جب صبح سویرے گلیوں میں اس پاں کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا حتیٰ کہ رات گئے تک اس پاں نے ہر ایک ماں کے لخت جگر کے سینے میں مُلک کی پاں ( بینڈ ) بجانے کا عزم کر رکھا تھا۔

14 اگست کے دن تمام لوگوں نے اس پاں کی خُوب پاں بجائی اور شیطان نے  بھی ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتا  شادمان ملا کہ واقعی اس کی محنت پاکستان کی سرزمین میں خُوب رنگ لا رہی ہے ۔ ان بجانے والوں کو یہ کہاں پتا کہ اصل میں یہ ان کی زندگی کی پاں بجا دی گئی ہے۔ لفظوں کی گرج ، آوازوں کی تڑپ اور ہاتھوں میں بینڈ بجانے کا باجا، قائد کے پاکستان اور اقبال کے خُواب وشاہیں کی پاں بجانے میں مگن ۔ جب اس بات پر بغور نظر کروں تو چھوٹے سے لے کر بڑے تک جس کو بھی دیکھا ایک دوسرے کی بینڈ بجانے میں اوّل دستہ ملا۔ تو پھر اس قوم سے ترقی کی اُمید ، محب وطن کی آس، اور اقبال کے شاہینوں کی بجائے گرگِس جاتی ہونے کا عمدہ نمونہ ملتا ہے۔ جو حرام ان کے منہ کو لگ چکا ہے اس کی تاثیر ان کی رگوں میں روح افز اور جام شیریں کے شربت کی طرح سما چکی ہے۔ جہاں بھی نگاہ کی یہ عوام لائنوں میں نظر آئی۔ کبھی آٹے کی لائن ، کبھی چینی کی لائن ، کبھی بھیک مانگنے کی لائن تو کبھی لائن میں کھڑے حرام کے پیسوں پہ نظر ، کبھی بجلی  و گیس کے بلوں کی لائن اور نہ جانے کون کون سی لائنوں میں لگنے کے باوجود جس قوم کی لائن سیدھی نہ ہو سکے ، اُسے پاکستانی قوم کہتے ہیں۔ غلام عباس اپنے افسانہ “جواری ” کے اختتام پہ لکھتے ہیں۔
” کیوں دیکھا! اس نے کہا نہ چالان ، نہ مقدمہ ، نہ قید ، نہ جرمانہ میں کہتا تھا اسے مذاق سمجھو۔”

ادھر بھی کچھ یہی مذاق کا جنوں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جن کی ابھی تک اتنی لائنوں میں لگنے کے باوجود لائن سیدھی نہ ہو سکی ۔ اس ٹیڑھی لائن والوں کی سوچ کا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اس کا والد وفات پاگیا تو دوسرا پوچھ رہا ہے کہ کہاں دفن کرنا ہے؟ وہ آگے سے فخریہ انداز میں بولا ” سڑک پہ”۔ دوسرے نے قدرے حیرانی سے پوچھا لوگ تو قبرستان میں دفن کرتے ہیں تم نے یہ سڑک والا ارادہ کب سے کر لیا ہے؟ مزید شرمندگی کا لبادہ نہیں بلکہ سینہ چوڑا کرکے کہتا ہے ” سڑک پہ اس لیے کہ سپیڈ بریکر کا سپیڈ بریکر اور قبر کی قبر ۔” جس قوم کی داخلی و خارجی سطوں پر یہ سوچ ہو تو پھر ردعمل کسی اچھے کا نہیں بلکہ اس پاں کا ہی بنتا ہے۔

جب ان باتوں کا تحقیقی جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ 1947 ء سے لے کر 2023ء تک 76 سال ہو گئے ہیں ۔ انگریزوں نے بھی اسی وجہ سے آگے کی سوچ رکھ کر ان کو الگ کر دیا ہے کہ یہ نکمے , سُستی کے مارے اور ہڈ حرامی کے پُجاری کہیں ہماری بھی پاں (بینڈ) نہ بجا دیں۔ اس سال 14 اگست کی پاں کچھ سر چڑھ کر بولنے لگی۔ جو رات کو خُواب میں بے چینی کی کیفیت لیے ان کے ذہنوں کی  پرتوں میں لہروں کی طرح گردش کر رہی تھی کیونکہ ان کو معلوم ہے نہ کوئی مقدمہ ہے اور نہ قید و سزا۔

یہی پاں  مذہبی رنگ لے کر جڑانوالہ  فیصل آباد میں مسیحیوں کی آبادی پر حملہ آور ہو ا۔ یہ پاں نئے رنگ و ولولہ میں بینڈ بجانے نکل پڑی جس کا اثر یہ ہوا کہ نہ عبادت گاہ کا تقدس رہا اور نہ عبادت والے کا۔ نہ انسان کا نہ انسانیت کا، سب کی بینڈ بجا کر رکھ دی اور خاک کا ڈھیر بنا دیا۔  آؤ دیکھا نہ تاؤ مساجد سے بغیر تحقیق اعلانات کی بھرمار اور اس کے پیچھے اُس پاں کا جنون جس نے ابھی تک ان کی لائن کو درست ہونے ہی نہیں دیا۔ المیہ تو یہاں تک جاپہنچا ہے کہ سبھی یہ سمجھ رہے ہیں داڑھی میں دین ہے ، دین میں داڑھی نہیں۔ اقبال اپنی کتاب بال جبریل میں ان کی عکاسی کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تمدن ، تصوف، شریعت ، کلام
بتانِ عجم کے پُجاری تمام
بُجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے
اس صورت حال اور افراتفری کے پس منظر میں وہی بینڈ اور پاں جو شیطان نے بجا دی اور ان کے ذہنوں پر ایک تہہ  دار لیپ کر دیا گیا ہے جس کو بےغیرتی کا نام دیا جاتاہے۔ جس کی نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک کپ چائے کے بدلے دوزخ میں جانے کو تیار ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply