• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ:ایک جائزہ(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ:ایک جائزہ(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

آپ مزید فرما رہے ہیں کہ تورات ، زبور ، انجیل وغیرہ پر تنقید یا ان کو ڈی فیم یا ڈس ریپیوٹ کرنے پر سزا دی جائے گی ۔ اس اصول کی رو سے قرآن بھی کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ ثابت کرتا ہے کہ تورات و انجیل وغیرہ مذہبی کتب کو یہودو نصاریٰ نے بدل ڈالا ہے۔ وہ تمام علمی و تحقیقی کتابیں جو اس بارے میں علما نے لکھی ہیں، اور یونی ورسٹیوں کے تحقیقی مقالات ،جن میں ان کتب کی تاریخی حیثیت پر بحث وتنقید کر کے قرآن کی برتری ثابت کی گئی ہے،پابندی کی زد میں آ جاتے ہیں، ۔ وہ تمام تفاسیر بھی اس زد میں آتی ہیں جن میں آیاتِ قرآنی کی تفاسیر کے دوران میں ان کتب پر ناقدانہ بحثیں کی گئی ہیں۔ اس لیے کہ یہ سب چیزیں ان کتابوں کو ڈس ریپیوٹ کرتی ہیں۔ وہ تمام کتابیں جو مسلمانوں نے یہودیوں اور مسیحیوں اور اسلام کے مغربی ناقدین کے اسلام مخالف رویوں کے ناقدانہ جائزے پر لکھی ہیں، وہ سب مذہبی ہم آہنگی کے خلاف قرار دی جا سکیں گی۔ہر وہ کتاب جس میں کسی مسلم ناقد نے کسی مسلم گروہ یا شخص کے عقائد و نظریات پر گرفت کی ہے ، مسلکی ہم آہنگی کے خلاف قرار دی جا سکے گی۔ ہر وہ کتاب جس میں کسی ادارے کی کسی روش پر تنقید کی گئی ہو ملکی مفاد یا نظریۂ پاکستان کے خلاف قرار دی جا سکے گی۔ ہر وہ افسانہ یا ناول بھی جس میں افسر صاحب سمجھیں کہ ان کے تصورِ اخلاق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، پابندی کی زد میں آسکے گا۔

خلاصہ یہ کہ  مجاز افسرصاحب جس کتاب کی اشاعت روکنا چاہیں گے، اس پر اعتراض کر کے اس کو روک سکیں گے۔ یہ صورت حال مرتے ہوئے کتاب کلچر اور بالخصوص مذہبی کتب کے کلچر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔

یہ ہے وہ ایکٹ جس کے ذریعے اسلام کی بنیاد کا وہ تحفظ فرمانا مقصود ہے، جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔ فریب بالائے فریب اور ظلم بالائے ظلم دیکھیے کہ میڈیا اور مولویوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایکٹ تو صرف صلی اللہ علیہ وسلم ، رضی اللہ عنہ اور علیہ السلام لکھنے کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ ابھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ایک نیوز پر یہ خبر چل رہی کہ پنجاب اسمبلی نے یہ ایکٹ پاس کیا ہے ،جس میں حضورﷺ کے لیے خاتم النبیین اور امہات المومنین اور دیگر صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ لکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اب اس کو سننے والا ہر آدمی سمجھے گا کہ یہ بڑا مبارک کام ہے۔ لیکن اس مبارک کام کے حسین نام کے نیچے جو گھناؤنا کاروبار ہے، اس کوچھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

یہاں ضمناً یہ بات بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ پھر کیا واقعی قابلِ اعتراض یا مقدسات کی توہین پر مبنی مواد کی حامل کسی کتاب پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ؟ تو اس کو یہ جان لینا چاہیے کہ ایسے معاملے سے ڈیل کرنے کے لیے پہلے ہی قوانین موجود ہیں(مثلاً تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295تا 298 وغیرہ)، اور مزے کی بات یہ ہے کہ خود اس ایکٹ میں ، جیسا کہ اوپر گزرا،اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ توہین آمیز مواد پر پہلے سے موجود قوانین کے مطابق سزا دی جائے گی۔تو پھر اس ایکٹ کی ضرورت خود اسی ایکٹ کی وضاحت کے مطابق بھی ختم ہو جاتی ہے، اور یوں یہ ایک فضول ایکٹیوٹی قرار پاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں (بہ طورِ خاص اس حوالے سے کہ کیسے اس ایکٹ کو علما اور اہلِ علم کے درمیان کسی مباحثے اور اسلامی نظریاتی کونسل وغیرہ سے بھی رائے لیے بغیر جلدی میں منظور کیا گیا ہے )تو یہ شک پیدا ہونا بے جا نہیں کہ یہ مذہبی طبقے کو خوش کرنے کا ایک سٹنٹ ہے اور بس۔

ایکٹ کے مندرجات اور واضح نتائج کا خلاصہ میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا ۔ آپ دیانت داری سے بتائیے اس ایکٹ کو “تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ” کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے!حق یہ ہے کہ اس ایکٹ کا یہ نام اگر جہالت نہیں ہے ،تو دھوکا ضرور ہے۔ ان مذہبی حلقوں کی سادہ لوحی پر افسوس ہے، جو اس جہالت یا فریب کو اسلام کی خدمت سمجھ رہے ہیں ،اور ان شیعہ حضرات کی سادہ لوحی پر بھی جن کو اس میں صرف یہ مسئلہ نظر آتا ہے کہ آئمہ  اہلِ بیت یا بعض دیگر صحابہ کے لیے علیہ السلام نہیں لکھا جا سکے گا، حالانکہ حقیقتاً اس کی واضح اجازت مل جانے پر بھی یہ ایکٹ اسی طرح جہالت ، فریب، تکبر اور ظلم کا مرکب رہے گا ، جیسا کہ پہلے ہے۔

کتابوں اور بالخصوص مذہبی کتب سے دل چسپی رکھنے والے ہر شخص کو اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔اور اگر یہ لاگو ہو جاتا ہے، تو اس کو کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے۔ یہ ایکٹ ہر مصنف اور بطور خاص مذہبی مصنفین اور پبلشرز کے اوپر بے لگام فرعون بٹھا دے گا، جن کے ہوتے کوئی مصنف کتاب لکھنے اور کوئی پبلشر اسے چھاپنےکی ہمت نہیں کرے گا۔ ان جاہلوں کا خیال ہے کہ کتابوں کا وطنِ عزیز میں بڑا کاروبار ہے!کوئی ان سے پوچھے آپ نے کتنی مذہبی کتابیں خرید کر پڑھی ہیں؟ یہاں تو کتب کا عالم یہ ہے کہ مصنفین اور پبلشرز پلے سے پیسے لگا کر اور گھاٹا کھا کر کتابوں سے اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ کسی تحقیقی و علمی کتاب پر آج کل کتنا منافع کمایا جا سکتا ہے؟ اس کام سے متعلق ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے! کوئی کتاب چھاپ لیں تو سوچتے رہتے ہیں کہ اس کا آدھا خرچ تو چلیں پلے سے ڈال لیں گے، آدھا خرچ تو نکلے گا یا نہیں؟ اس صورتِ حال کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مصنف کتاب لکھنے اور پبلشرر چھاپنے سے بالکل ہاتھ کھینچ لیں گے۔

واضح رہے کہ مذہبی کتابیں ہی نہیں افسران صاحبان کو جو اختیارات دیے گئے ہیں ،اور جو الفاظ ایکٹ میں استعمال کیے گئے ہیں،ان کی رو سے شاعری، ڈرامہ ، ناول ، ادبی تنقید وغیرہ کسی بھی کتاب پر پابندی عائد کی جا سکے گی، بس اتنا چاہیے کہ مجاز افسر صاحب فرما دیں کہ اس میں ایکٹ کے کسی لفظ یا حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

یہ القاب کو لازمی کرنے کی حرکت کتنی مضحکہ خیز ہے (اس ضمن میں ہمارے ایک مضمون بعنوان “اللہ اور خدا” کا مطالعہ بھی بہت مفید ہوگا، جو ہم نے اسلام کے کچھ اسی قبیل کے نادان دوستوں کے اِس تصور اور اِس سے بحث کرتی ایک کتاب کی تردید میں لکھا تھا کہ اللہ کو خدا نہیں کہا جا سکتا۔) اس کے حوالے سے چند نکات پر غور کیجیے:
یہ القاب مسلمانوں نے بعد کے ادوار میں اپنی اپنی عقیدت اور محبت کے خاص انداز میں لگانا شروع کیے ، ابتدائی کتابوں میں بڑی روانی کے ساتھ مقدس شخصیات کے نام ان سب القاب کے بغیر عام لیے جاتے تھے، اور قدیم کتب میں اب بھی یہ نام ان القاب کے بغیر موجود ہیں۔ کبھی بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ فلاں جگہ چونکہ یہ لقب نہیں لکھا ہوا، لہذا یہ گستاخی ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ القاب اصل میں ہم عجمیوں کا رواج ہیں ،ہم یہ اپنے مخصوص اندازِ عقیدت و محبت میں لگاتے ہیں اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اچھی بات ہے ، لیکن اس کو لازم کرنا شریعت میں ایک ایسے امر کو لازم کرنا ہے، جس کو لازم کرنے کی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں۔ دوسرے لفظوں اپنی محبت میں ان القاب کو استعمال کرنا تو مستحسن ہے ، لیکن ان کو شرعا لاز م کہنا غلط بلکہ بدعت ہے۔(اس لیے کہ بدعت دین میں اسی چیز کولازم کرنے کو کہا جا تا ہے،جس کو لازم کرنے کی کوئی شرعی بنیاد موجود نہ ہو۔)

شعر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر حضورﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ ہر جگہ عربی ٹیکسٹ میں صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور شروع میں خاتم النبیین لکھا جائے تو شعر ایک عجیب و غریب شکل اختیار کر لیتا ہے، اس کا وزن بھی خراب ہو جاتا ہے اور جس سپیس میں وہ لکھا جاتا ہے، اس کو اس فونٹ میں لکھنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ چلو آئندہ نسلوں کی زبان و بیان اور ذوقِ شعر وسخن کا آپ نے بیڑا غرق کرنا ہے تو کر لیں ، لیکن علامہ اقبال ، میاں محمد بخش اور دیگر مایہ ناز اردو اور پنجابی شاعروں کے کلام کا کیا کریں گے؟ مثلاً اقبال کا مصرعہ : کی محمد سے وفا تو نے تو  ہم تیرے ہیں۔۔۔ آپ کو کلیات ِ اقبال میں یوں لکھنا ہوگا: کی خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں۔ ۔۔اگر کلیاتِ اقبال کو یہ لکھے بغیر آپ چھپنے اور فروخت ہونے کی اجازت دیں گے ،تو اسی طرز پر کسی اور کتاب کو کیسے روک سکیں گے؟ یہ آپ کے لیے چیلنج ہوگا، جب تک ان سب مایہ ناز شعرا و مصنفین کی کتابوں کی اصلاح نہیں ہوگی ، ان کے حوالے دینے والوں اور ان کو اپنا رہنما اور موٹیویٹر سمجھنے والوں کی اصلاح آپ کیسے کر سکیں گے!

اور ہاں یاد آیا وہ ڈی فیم اور ڈس ریپیوٹ کرنے والی عبارت میں آپ نے اللہ کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ تو جناب آپ کو اقبال کے ایسے بہت سے اشعار بھی نظر آئیں گے ، جو بادی النظر میں اللہ کو ڈی فیم یا ڈس ریپیوٹ کرتے ہیں ۔مثلاً: ہم وفادار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں۔۔۔ یااپنا گریباں چاک یا دامن ِ یزداں چاک ۔۔۔کارِ جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اشعار آپ کے سیکشن 3 کی شق ایف کی زد میں آتے ہیں،ان پر آپ کو پابندی لگانی ہوگی۔(اور ہاں یہ بھی جان رکھیے کہ بعد والوں کے معاملے میں تو ابھی آپ کو تحقیق کرنی پڑے گی کہ ان کی کتب میں خدا کو ڈس ریپیوٹ یا ڈی فیم کیا گیا ہے یا نہیں ، اقبال کے اس قبیل کے اشعار سے متعلق آپ کو یہ سہولت میسر ہے کہ ہمارے کئی علما و مفسرین نے پہلے ہی تحقیق فرما رکھی ہے کہ یہ اشعار کفریہ ہیں اور خدا کی گستاخی پر مبنی ہیں۔)

Advertisements
julia rana solicitors

تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ:ایک جائزہ(حصّہ اوّل)۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply