مریخ والوں نے زندگی دریافت کر لی ہے/ٹیپو بغلانی

میرے جنگلی دیہات سے ملتان دو دریا پار پڑتا تھا، یہی کوئی 150 کلومیٹر، عام آدمی کی سواری منی بس کا کرایہ 150 کے آس پاس تھا، وقت تین ساڑھے تین گھنٹے لگ جاتا تھا۔
مگر مجھے ملتان کو دیکھنے میں پورے 19 سال لگ گئے، وہ بھی خاندان کا ایک فرد نشتر میں داخل ہوا تو اس کی دیکھ بھال کے لیے جانا ہوا تھا۔
ریسورسز ہی نہیں تھے۔پاکستانی دیہاتی اصل میں مریخی شہری ہیں،ایسے دیہاتی یا تو قصے کہانیوں میں شہروں کے حالات سنا کرتے تھے،یا پھر خوابوں خیالوں میں اپنی تمناؤں کے شہر بسا کر خود کو چپکے سے وہاں آباد کر آتے ہیں۔
مریخی دیہاتی بالکل اسی اصول کے تحت اکثر مکہ مبارک اور مدینہ شریف کی بھی زیارت کر آتے ہیں۔
پاکستانی دیہاتی اصل میں ہیں ہی مریخی شہری،
مریخی شہری
بجلی، پانی، گیس، ٹی وی، اخبار، سڑک، سولنگ، سکول، تھانہ، کچہری، ہسپتال، بینک، ڈاکخانہ، نہر ، تازہ گوشت اور کپڑوں کی دکان کے ساتھ ساتھ دوسری ضروری چیزوں کے دستیابی سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔
محرومی میں مر مر کر جینا ان کا پیدائشی فرض ہوتا ہے۔
پاکستانی کے دیہاتی اصل میں ہیں ہی مریخی شہری ،
اب تو یہاں لوگوں کو ایسی بہت سی شخصیات کے نام انگلیوں پہ یاد ہیں جو جس گاؤں میں پیدا ہوئے، سو سو سال جی کر پھر اسی گاؤں میں مر گئے۔
نہ کبھی کسی دوسرے محلے گئے اور نہ کبھی ساتھ والے گاؤں گئے۔

امریکہ بھی 17ویں صدی میں ایک چور ڈاکو کے ہاتھوں آخر دریافت ہو ہی گیا تھا لیکن ہمارے دیہاتوں کے چور ڈاکو بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے دیہات کے علاوہ بھی کوئی دوسری دنیا یا آبادی موجود ہے۔
کنویں کے مینڈک جہاں پیدا ہوئے وہیں ٹر ٹر کر کے مر گئے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے بدنام زمانہ وزیراعلیٰ کمانڈر عثمان بزدار الیکشن جیتنے کے بعد معجزانہ طور پر آئی ایس ایس بی کا ٹیسٹ دیکر منتخب ہوئے
یہ اور بات کہ آئی ایس ایس بی کے ذریعے نوکری دینے والوں نے الزام لگایا کہ کماندار صاحب کو تو قاسم کی تیسری ماں کے استخارے میں آنے پر عہدہ ملا۔
عثمان بزدار کا قبیلہ، پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع تونسہ کے کوہ سلیمان میں آباد ہے،یہ پہاڑی لوگ ہیں، بلوچی زبان بولتے ہیں، سادہ لوح اور زندگی سے پیار کرنے والے، صبر و قناعت کی زندہ مثالیں ہیں۔

بزدار قبائل کے لوگ اردگرد کے میدانی علاقوں میں پہلے خریداری کر کے واپس پہاڑوں میں چلے جایا کرتے تھے۔
کوہ سلیمان سے یہ قبائلی تونسہ شہر آتے تو اس شعبدہ باز سے ڈر جاتے تھے جس نے گردن میں چھرا آر پار کیا ہوتا تھا اور ڈرا ڈرا کر ایک دو روپے داد کے طور پر مانگا کرتا تھا۔
روڈ پر چلتے چلتے یہ قبائلی کسی گاڑی کا ہارن سنتے تو ڈر کر دوڑ لگا دیتے تھے۔
نئے نئے موبائل آئے تو وائبریشن پر لگ جاتے، یہ قبائلی مکینک کے پاس پہنچ جاتے کہ موبائل میں جن آ گیا ہے، مکینک پیسے مار لیتا اور کہتا گھنٹے بعد سیٹ اٹھا لینا۔
میں یہاں صرف اور صرف سادگی بتانا چاہتا ہوں، سچے اور اچھے دور کی سادگی، یہاں یہ تذکرہ کر کے ہرگز ہرگز کسی کی تضحیک کرنا مقصود نہیں۔
مجھے خود ٹِن بوٹل کھولنا نہیں آتا تھا، مجھے خود ٹی وی ریمو ٹ استعمال کرنا نہیں آتا تھا۔لیکن آخر دنیا ایک جگہ بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی اور جب کروٹ لی تو ادھر کی دنیا اُدھر اور اُدھر کی دنیا اِدھر آن سرکی۔

ڈیرہ غازی خان شہر میں لغاری آبادی پہاڑوں سے نکل کر شہر میں آن بسے۔
کوہ سلیمان سے بزدار نکل کر تونسہ میں آن بسے،وزیرستان سے آئی ڈی پیز جنگ کے بہانے ڈیرہ اسماعیل خان اور بھکر میں آن بسے، کابل اور قندھار سے لوگ پشاور آن بسے، پشاور اور دوسرے علاقوں سے لوگ کراچی اور لاہور آن بسے، اور لاہور اور کراچی سے لوگ یورپ اور عرب ممالک کو چلے گئے۔
یہ ایک تحریک تھی،جو ایک بار شروع ہوئی اور تیزی سے رفتار پکڑ رہی ہے۔
محکمہ ء شماریات کہتا ہے کہ 70 فیصدی لوگ دیہاتوں کی پیدائش اور قسمت ہیں،جبکہ 30 فیصد لوگ شہروں کا مقدر اور فخر ہیں۔
محکمہ شماریات سمیت پاکستان کا بھی محکمہ موسمیات کی طرح کوئی اعتبار نہیں، اعتبار تو یہاں سپہ سالار سے لیکر قاضی القضاۃ کا بھی نہیں۔
آبادی کی اصلی شرح مجھ سے سنیں تو وہ یوں ہے کہ  انی، صیبو، گُلی، فیضی، صابری، جُمی، شکورا ،فقیرو ،خُدن ،بشکیندا اور نورنڑ تو دیہات میں رہتے ہیں
لیکن سردار، چوہدری، میجر، جج، کمشنر، ایڈیٹر چیف، ڈاکٹر، انجینئر اور بینک منیجر شہروں میں رہتے ہیں۔
جب تک پرائیوٹ ٹی وی نہیں آئے تھے لوگ اپنے اپنے دیہات میں پرسکون تھے۔جب تک پی ٹی وی تھا لوگ سمجھتے تھے وہ یورپ میں رہتے ہیں۔جب تک انٹرنیٹ نہیں تھا، دنیا کے ہر شہر کی خبر لوگوں کے سامنے نہیں تھی۔لوگ شام کا کھانا کھا کر مسجد میں نماز پڑھ کر پرندوں کے ساتھ سو جاتے۔صبح مرغے کی اذان پر جاگتے، اور کام کاج میں لگ جاتے۔

پھر مشرف صاحب پاکستان میں موبائل لے آئے، لوگوں میں رابطہ بڑھا، لوگ ہر وقت گھنٹہ پیکج پر ایک دوسرے کو ہر معمولی سے معمولی حال احوال دینے لگے، یوں بڑے شہر کی خبر چھوٹے دیہات اور چھوٹے دیہات کی خبر بڑے شہروں میں ڈسکس ہونے لگی۔کال اور ایس ایم ایس کے بعد انٹرنیٹ آ گیا، انٹرنیٹ سے لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے کنیکٹ ہونے لگے۔
ابھی انٹرنیٹ اپنی افادیت کے جوہر کھول ہی رہا تھا کہ پھر اینڈرائڈ ٹیکنالوجی اور فور جی انٹرنیٹ نے ملک میں تہلکہ مچا دیا۔
ہمارے ہائی سکول کے استاد فرما رہے تھے کہ چڑیا کا بچہ ایک بار گھونسلے سے گر کر نہ دیکھ لے،پھر اسے ہزار بار بھی واپس رکھو تو وہ تب بھی ضرور گھونسلے سے نیچے گرے گا۔
گرنے کی وجہ ہے اس کا گھونسلے اور زمین کے درمیان فضا میں رہنے کا دورانیہ ہے۔
وہ گرنا اسے ایک الگ احساس سے روشناس کراتا ہے ،لہذا وہ بار بار گرتا ہے تا کہ اس لطف کو بار بار کشید کرے،چاہے پھر اس لطف کی قیمت اس کی جان ہی کیوں نہ ہو۔
نہ جاننا ایک نعمت ہے
اور جان لینا ایک عذاب ہے
عذاب بھی انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی عذاب۔

آج عوام یورپ کی عدلیہ کا انصاف دیکھ کر بیٹھی ہے، اب وہ یورپ جیسا انصاف چاہتی ہے۔
آج عوام امریکہ جیسی مساوات دیکھ کر بیٹھی ہے جہاں صدر اور ڈرائیور کو ایک جیسی سزا ملتی ہے
لہذا یہ 70 فیصد دیہاتی امریکہ جیسی مساوات طلب کر رہے ہیں۔
آج یہ 70 فیصد شیدے اور میدے عرب ممالک جیسا عدل دیکھ کر بیٹھے اب ان کو ویسا عدل چاہیے۔
دیہاتی اور پینڈو کسی نہ کسی ہسپتال میں علاج کے بہانے یا عدالت میں پیشی کے بہانے لاہور، کراچی اور ہر شہر کے فوجی کینٹ میں کام کاج کے بہانے پہنچے ہوئے ہیں
اب وہ اپنے دیہات میں فوجی کینٹ جیسا ماحول طلب کر رہے ہیں۔
محنت کی بات نہ کریں، محنت کرنے والے تو یہاں رُل گئے۔
محنت کرنے والوں کی ماں بغیر علاج کے مر گئی۔
محنت کرنے والوں کے بچے ورکشاپوں پر پہنچ گئے۔
محنت کرنے والوں کے مستقبل اندھیروں میں ڈوب گئے۔

یہاں جیت کرپشن کرنے والوں کی ہوئی، عزت چوروں کو ملی، طاقت مکاروں کو ملی، میرٹ پر وہ آیا جو سب سے بڑا دلال تھا۔
لوگ دیہاتی ہی صحیح
لوگ ان پڑھ ہی صحیح
لوگ جنگلی ہی صحیح
لیکن وہ پاگل اور باؤلے نہیں ہیں کہ
آپ انہیں روٹی کپڑا مکان کے نعروں پر ٹرخائیں گے۔
لوگ گنوار صحیح لیکن سٹھیائے ہوئے نہیں کہ
آپ موٹروے لاہور میں بنائیں اور اس کی مبارکباد کی چھٹی سارے پاکستان میں دیں
بارکھان، سبی، ڈیرہ بگٹی، ڈیرہ مراد جمالی، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، قلعہ سیف اللہ، ٹانک، کلاچی، درہ آدم خیل، میلسی، وہاڑی، ہارون آباد، فورٹ عباس، میر پور ماتھیلو، چنی گوٹھ اور لاڑکانہ والا اس لاہور کی اورنج ٹرین، پنڈی کی میٹرو سروس اور لاہور سے اسلام آباد کی موٹروے کی مبارکباد کیسے وصول کریں؟
گولی ماریں مبارکباد کو، سب کی خوشی میں شریک ہو لیں گے 70 فیصد شیدے میدے، لیکن یہ جو حکمران وہاں امریکہ کے دفتر سے سود پر قرضے لے آتے ہیں پھر ان قرضوں پر بڑے بڑے شریف لوگ جو گارنٹیاں دیتے ہیں کہ یہ 25 کروڑ دیہاتی گردے بیچ کر قسطیں واپس کریں گے، وہ اس پر کمیشن لے کر باہرلے ملکوں میں محل، جزیرے، فلیٹس اور کارخانے لے لیتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے بائے بائے کر کے چلے جاتے ہیں۔

یہ جو پچھلی حکومتوں کے بزرگ اور ان بزرگوں کے گاڈ فادر ان 70 فیصد مریخی دیہاتیوں کو پکڑ کر گم کر رہے ہیں، ان کی زبانیں کاٹ رہے ہیں، ان کی آنکھیں نکال رہے ہیں
وہ سب کہہ رہے ہیں کہ آپ لوگ کچھ نہیں ہو، اپنے بچوں کو کھیتوں پہ بھیجو، بھینسوں کے ساتھ رکھو، اینٹیں تھپواؤ، بھٹوں پہ کام کراو، جوتے گانٹھو، مستری گیری کرو، مزدوری کرو
اور شاندار لوگوں کے شہروں کی سجاوٹ والے ادھار پہ بنے پروجیکٹس کی قسطیں ادا کرو
70 فیصد وہ جنگلی دیہاتی سوال پوچھ رہے ہیں کہ
تم لوگ بھی ہمارے ساتھ کے تھے
پھر تم لوگوں کو اللہ نے کیسے غیبی مدد بھیجی؟
پچھلے حکمرانوں کا ایک بزرگ کہتا ہے کہ یہ سوال کرنے والے لوگ یہودی ایجنٹ ہیں،دوسرا بزرگ کہتا ہے کہ عدل مانگنے والے یہ لوگ غدار ہیں، تیسرا بزرگ کہتا ہے کہ مساوات طلب کرنے والے یہ لوگ بدتمیز ہیں، چوتھا بزرگ کہتا ہے یہ گمراہ ہیں،پانچواں بزرگ کہتا ہے کہ یہ ملک منظور نہیں تو چھوڑ کر چلے جاؤ یہ ملک، چھٹا بزرگ کہتا ہے کہ ملک پسند نہیں تو سمندر میں جا کر ڈوب مرو۔
لوگوں نے اپنے وطن بیچے، قبرستان چھوڑے، ڈالے پر کل خاندان لاد کر 3 مرلے کے مکان میں شہر شفٹ ہوئے،تا کہ وہ یہ زندگی کچھ بہتر جی لیں،
اگلے جہان کا تو علم نہیں
مولوی نے اگلے جہان کے الگ ستم اور عذاب بتا رکھے ہیں۔
لیکن سکون تو پھر بھی نہیں۔
ساتھ والے ملک میں گیس پڑی ہے
لیکن ہم خرید نہیں سکتے؟
کیوں؟
امریکہ کو کیا مسئلہ ہے، پیسے امریکہ نے دینے ہیں کیا۔
امریکہ نے اپنے لوگوں کو ہم جنس شادیوں کا ھق دے دیا
لیکن ہم جنگلی دیہاتیوں کو ایران سے گیس نہیں لینے دیتا
واہ بھائی واہ۔
یہاں لوگ ناشتے کے بنا کام پر نکلتے ہیں
بجلی کے بنا سوتے اور پڑھتے ہیں
جو کماتے ہیں
اس بجلی اور گیس کا بل بھرتے ہیں
جو کبھی ان کو ملتی ہی نہیں۔
سوال پوچھے رہے ہیں لوگ
یہ لوگ کہتے ہیں سوال مت پوچھو
یہاں تو لوگ خدا کے متعلق بھی سوال پوچھتے ہیں
خدا نے تو انہیں کبھی اغوا نہیں کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں ملتان میں شاہ شمس پارک چلا جایا کرتا اتوار کے اتوار، اپنے ایک دوست کے ساتھ، وہ وہاڑی کا تھا، ہم ساتھ ساتھ ہی کام کرتے تھے، رہتے بھی ساتھ تھے۔
پارک میں ہم جھولے جھولتے، کشتی میں بیٹھتے اور وہ سب کرتے جو بچے کرتے۔
ہم ایسا کیوں کر رہے تھے؟
کیونکہ ہم نے اپنے بچپن میں وہ سب دیکھا ہی نہیں تھا، ہمیں تفریح کا ذریعہ کبھی میسر ہی نہیں تھا، دل کس کا نہیں ہوتا، دل تو سب کا ہوتا ہے۔
تونسہ شریف میں کماندار عثمان بزدار نے ایک چوک پر گائے کا مجسمہ لگا دیا۔
چند دنوں بعد گائے کا مجسمہ ٹوٹا ہوا ملا۔
اسسٹنٹ کمشنر رُل گیا، اوپر سے احکامات تھے کہ مجرموں کو پکڑیں کیونکہ یہ سیاسی مخالفین کا کام لگ رہا ہے۔
میں نے ایک دوست سے میسنجر پر یہ معاملہ ڈسکس کیا اور بتایا کہ یہ کوئی مخالفت نہیں ہے۔
چونکہ دیہاتی لوگوں نے کبھی یہ مجسمے دیکھے نہیں ہوتے لہذا انہیں علم ہی نہیں تھا کہ یہ پلاسٹر آف پیرس کے ہیں
اور کچے ہیں۔
بس کوئی بندہ اپنا بچپن منانے کے لیے گائے کہ پشت پر سوار ہو گیا اور فوٹو شوٹو بنوانے لگا
اسی دوران گائے صاحبہ پھٹ کر گر پڑیں
اللہ اللہ خیر سلا۔
چند دن بعد کسی کو فوٹیج ملی اور میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔
خیر اس بندے سے 70 ہزار روپے قومی اثاثے کو نقصان پہنچانے کی مد میں اینٹھ لیے گئے۔
صاحب جی!
جو کچھ آپ کے بنگلے میں ہے، جو کچھ آپ کے کینٹ، ماڈل ٹاؤن اور ڈیفینس میں ہے، جو کچھ تہران اور پیرس میں ہے، جو کچھ استنبول اور ٹورانٹو میں ہے
لوگ سب کچھ دیکھ کر بیٹھے ہیں اور یاد کر کے بیٹھے ہیں۔
جب تک آپ لوگوں کو وہ سب کچھ نہی‍ں دیتے
آپ کے گھر سکون کی رات نہیں آنے والی۔
اب آپ جتنوں سے مذمت کروا لیں، جتنوں کو پھانسی لگوا لیں، جتنی کو سیاست سے نکلوا لیں، جتنوں کو لاپتہ کر دیں
مطالبات بڑھتے جائیں گے
سوالات بڑھتے جائیں گے
کیونکہ دیہاتیوں اور جنگلیوں نے گھونسلے سے گھر کر لطف کشید کرنا سیکھ لیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply