قلم کسی اور کا اور دستخط کسی اور کے/ گل بخشالوی

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ”’بے وردی مارشل لاء “‘ تو اس وقت لگا تھا جب رات بارہ بجے عدالت لگی تھی ، مارشل لا ء والے پہلے اسلام آبا فتح کیا کرتے تھے

 

 

 

 

 

پہلی بار سپریم کورٹ کو فتح کیا ، پاکستانیوں کو تخت اسلام آباد پر وردی والے نظر تو نہیں آئے تھے البتہ بوٹوں کی دھمک ان کے کانوں میں ضرو ر گونج رہی تھی ۔

تخت ِ اسلام آباد کا تاج اپنے لے پا لک کے سر رکھ دیا اور وردی والوں کے ساتھ ان کے درباری بھی خوب گنگا نہائے ، ایک مومن کو ٹھکانے لگانے کے لئے کیا کچھ نہیں ہوا ، صرف پاکستانیوں نے نہیں دنیا نے دیکھا اور دیکھ رہی ہے ۔ 9 مئی سانحہ   پاکستان دوستوں کے لئے 911  ثابت ہوا اور پاکستان میں ریاست ِ مدینہ کا خواب دیکھنے والوں پر کیا گزری ، دنیا نے دیکھا اور محب وطن پاکستانی بھگت رہے ہیں۔

گنگا نہائے  پاکستان ڈاکو مومنٹ   کو زم زم نہانے کا بھر پور وقت دیا گیا ، وہ خوب نہائے اور قانو ن سازی کی تاریخ رقم کر دی ، جب ان کا دامن ان کی ضروریات ، مراعات و عنایات سے تر ہو گیا، ان کے خلاف قومی عدالتوں میں قومی خزانے کی لوٹ مار کے درج مقدمات ختم ہو گئے ، ان کو صادق اور امین ثابت کیا گیا تو ان کو گلچھڑے اڑانے کے لئے تخت اسلام آباد سے الوداع کر دیا گیا !جاتے جاتے ان کے ایک دربا ری کے ہاتھوں ریاست ِ مدینہ کے خواب دیکھنے اور قوم کو اس خواب کی تعبیر کے لئے ورغلانے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور ان کے چاہنے والوں پر وردی والوں نے پاک سر زمین تنگ کر دی ، پاکستان ڈاکو مومنٹ سے نجات ملی تو باپ پارٹی کے باپ کو شیشے میں اتار کر تخت ِ اسلام آباد پر بٹھا دیا

عاصمہ شیراز ی اپنے کالم لکھتی ہیں ۔ نگران وزیراعظم کی تعیناتی کا فیصلہ بلاشبہ آنے والے فیصلوں کی خبر دے رہا ہے۔ فیصلے کسی اور کے، قلم کسی اور کا اور دستخط کسی اور کے؟

آخر ایسا کیا کام ہے جو انوارالحق کاکڑ نہ کر سکیں گے جو عمران خان اور شہباز شریف نے نہیں کیا؟ ن لیگ خوش ہے تو تحریک انصاف بھی غیر مطمئن نہیں، پیپلز پارٹی چپ  ہے تو جے یو آئی (ایف )خاموش اور اے این پی راضی صرف بی این پی مینگل ٹھہرے پانی میں پتھر مار رہی ہے۔کاکڑ صاحب میں وہ سب کچھ ہے جو باقیوں میں بھی تھا۔

اب یہ کہنا کہ ریاست واقعی ماں کا درجہ رکھتی ہے ، تو پا کستان کے محنت کش کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کی ماں مر چکی ہے اگر زندہ ہے تو اشرافیہ کی ہے ، یا ان کی جنہوں نے باپ کے قائد کو تخت ِ اسلام آباد پر بٹھا دیا ہے ۔ ان کے سر پر دست ِ شفقت ہے ، ان کے بھی تھا جو الوداع ہو گئے ، ہر کوئی جانتا ہے کو ر کمانڈر جناح ہاؤس جلانے والے کون تھے ، اور کو ن اپنے ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہا ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں جو اپنے خطابات میں دین مصطفی کی تبلیغ کر تے ہیں ، فتح مکہ کے موقع پر جوعام معافی کا اعلان ہوا تھا ۔ وہ بھی جانتے ہیں لیکن ایسے اعلانات کے لئے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے ،

پاکستان دوستو جو ہونا تھا وہ ہو چکا ، سانپ نے گزرنا تھا وہ گزر گیا لکیر پیٹنے سے کیا حاصل ، تخت ِ اسلام آباد سے ہم وطن دوست پاکستانیوں کی درخواست ہے کہ ریاست ِ مدینہ کا خواب دیکھنے اور دکھانے والے ، کور کمانڈر جناح  ہاؤس کو آگ لگانے والے ، امریکہ کی شان میں کستاخی کرنے والے ، ان کو ایبسلوٹلی ناٹ کہنے والے، اقوام عالم میں دین مصطفی کا مقدمہ لڑنے والے ، مومن لاشوں کو جلانے والوں کے ہاتھوں مومن کی لاش کو دفنانے کا قانو ن بنوانے والے ، پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سے صادق اور امین کا لقب پانے والے ، پاکستانیوں کی شاداب زندگی کے لئے اپنی شاہی زندگی اپنے بچوں کے ساتھ چھوڑ کر پاکستان میں ریاست ِ مدینہ کا نعرہءمستانہ لگانے والے پاگل قومی مجرم کو جیل ہی میں رکھیں ، باہر ہوگا تو لندن میں شور مچانے والی پاگل سائرہ میر گلگتی کا ساتھ دے گا لندن میں جناح ہاؤس کی دوسری نیلامی پر جناح کے چاہنے والوں کے ساتھ ماتم کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستانی اہل قلم سے سوال ہوتا ہے ، تم مومن ہو ، تم صحافی ہو ، تو ان کاجواب ہوتا ہے ، نہیں نہیں ہم مسلمان ہیں، ہم لفافی ہیں ، ہم کوفی ہوں ، سچائی کے منکر ہیں، جھوٹ کے قدر دان ہیں، پاکستان دوست اہل ِقلم زندہ ہوں تو ان کی سچائی کا مذاق اڑاتے ہیں ، وہ سچائی کے جرم میں شہید ہوتے ہیں تو ہم مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں دکھاوے کا ماتم کرتے ہیں ، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے بھی ہمیں دیر نہیں لگتی ، ہم بھی لوٹے ہیں ، اس ڈال پر جا بیٹھتے ہیں جس کی شاخیں سنہری ہوں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply