میرے شاعری کو پسند کرنے کے اپنے معیار ہیں ۔لکھنے والا کتنا جذباتی ہے، اس کے احساسات کیسے ہیں، اس کی تکنیکی صلاحیتوں کا لیول کیا ہے، اگر ان سب پہ پورا اترتا ہے تو اس کے ہاں ،ان معیارات کو برتنے کا طریقہ کیا ہے۔
میرے ہاتھ میں موجود کتاب میں روایتوں کو، روایتی انداز سے ہٹ کر استعمال کرنے کی روایت ہے ۔ بنیادی طور پہ ،یہ نظمیں ہیں ،لیکن جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ یہ آج کی عورت کا حال ہے جس نے اسے بے حال کر رکھا ہے،کہ مسقبل میں بھی یہ کرب طرب میں بدلتا نظر نہیں آتا۔ یہ کتاب نہیں ِحالات کے قدموں میں پڑی عورت کا دکھ ہے جسے کوئی نہیں سنتا ۔
اور شاید وہ سنانا نہیں چاہتی۔ ۔
“ہوا سے مکالمہ ”
شاید خود کلامی کہلاتی اگر اسے صفیہ حیات نہ لکھتیں،کسی شاعر کے بارے میں عموماً کہا جاتا ہے کہ اس کی شاعری احساسات اور جذبات سے رچی ہوئی ہےِلیکن میرے ہاتھ میں جو کتاب ہے اسے پڑھ کے محسوس ہوتا ہے کہ
بات۔۔۔جذبوں سے آگے کی ہے۔صفیہ جی کا تخیل ان ستاروں کا پتہ دیتا ہےجو زمین پہ جگمگاتے ہیں ۔
صفیہ حیات نے روشنی سے نظمیں بنائی ہیں ۔۔جن کی لوء سے معاشرے کے سارے مکروہ گوشے دکھائی دینے لگتے ہیں ۔
یہ نظمیں نہیں ِکہانیاں ہیں کچھ میری کچھ میری جیسیوں کی ۔میں نظموں کی تعریف نہیں کروں گی کہ زخموں کی تعریف نہیں ہوتی،ان کا مداوا ہوتا ہے۔۔۔صفیہ جی نے وہی کیا۔۔مجھے میرے مقام سے آگاہ کیا۔
مجھے کہاں ہونا چاہیے۔۔ اس بات کا بھی تعین کیا۔صفیہ حیات کو پڑھ کے عورت ہونے پہ فخر محسوس ہوتا ہے ۔۔۔اور مضبوط ہونے کا احساس بھی۔
ماں، ولد، والدہ
میں نے کوکھ میں پلنے والے ابدان کو۔۔۔
بطن سے گود میں لا کر۔۔
خوب سزا پائی۔۔۔
کبھی جاڑے کبھی گرما کے چھوٹے بڑے کپڑے۔۔
اور نئے سال کے نئے نئے خرچے۔۔۔
بچوں کی بڑھوتری کی خوشی بھی
منانے نہیں دیتے۔۔۔۔
سکول بیگز کی زپ کھلتی بند ہوتی رہتی ہے۔۔۔
تمہیں ننھی منی خواہشات کی چیخ و پکار۔۔
سنائی نہیں دیتی۔۔۔
نیند میں بڑ بڑاتے مجھے کوستے ہو۔۔۔
فرشتوں کی لعنت سے ڈراتے ہو۔۔۔
اپنے فرائض بھول جاتے ہو۔۔۔
میں عورت ہوں ۔۔۔۔
مگر تم سے ولدیت چھین لوں گی۔۔۔
بس آج سے ولدیت کے خانے میں ۔۔۔
اپنا نام ہی لکھواؤں گی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں