آئینہ در آئینہ سے اقتباس۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

سوال : نئے قاری کی پیدائش تک غزل کی موجودہ سائیکی اور گائیکی پر اکتفا نہیں کرنا پڑے گا ۔؟

آنند: جواب: نئے قاری کی پیدائش ؟قاری، سامع، نقاد  (نقاد بھی تو محولہ اولیں گروپ سے ہی اُبھرتے ہیں )ہم میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ شماریات کے ریاضی کے مطابق فی زمانہ تین سے چارتک نسلیں بیک وقت زندہ ہیں۔ ان میں نئے قاری لا تعداد ہیں بشرطیکہ ان کی برین واشنگ نہ کی جائے۔ یہ برین واشنگ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دن رات کرتا رہتا ہے۔ غزل کے عشقیہ مضامین کی برین واشنگ کی پہلی کھیپ شروع جوانی کی کچی بلوغت ہے، جس میں داخل ہوتے ہی کچے اذہان پر اس کی بارش ہونے لگتی ہے۔ اگر کچھ ایک ان میں سے اس حالت تک نہ بھی پہنچیں کہ [دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں] تو بھی ان کی تردامنی اس بارش سے وقفے وقفے کے بعد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، اس لیے کہ مطالعہ کا فقدا ن ہے اور درسی کتب میں غزل ہی کو شعر و شاعری کا کل ساز و سامان فرض کر لیا گیا ہے۔

بہر حال میں نا امید نہیں ہوں۔ 2013ء میں کراچی میں میری آمد پر انجمن ترقئ اردو نے ایک ’’نظمیہ مشاعرہ‘‘ منعقد کیا جس میں صرف نظمیں سنائی گئیں۔ شنید ہے کہ ایسا ایک مشاعرہ  لاہور میں بھی برپا کیا گیا۔ یہ رجحان مشاعروں میں نہ بھی رواج پا سکے تو رسائل میں غزل کے لیے مخصوص کچھ صفحات اب نظم کے علاوہ نثری نظم کو بھی دے دیے گئے ہیں کہ نئے شاعر اور نئے قاری یہ چاہتے ہیں۔

سائیکی اور گائیکی۔۔یعنی Psyche and tone & tenorواہ، کیا ’ان جوڑ‘ جوڑ ملایا ہے آپ نے۔ آپ کی حس مزاح کی داد دینا پڑتی ہے۔عرض کروں کہ سائیکی کی بات تو میں مندرجہ بالا پیراگراف میں مختصراً کر ہی چکا ہوں اور مجھے امید ہے کہ آپ کے باقی ماندہ سوالات (’’ماندہ‘‘ کہاں؟ یہ تو بڑے چاک و چوبند قسم کے سوالات ہیں!) میں زیر بحث آ جائیں گے۔ اب رہی گائیکی ۔۔۔تو صاحبِ بستۂ سوالات، میرا جواب سنئے:

تاریخ بتاتی ہے  ،کہ غزل کا جد امجد یعنی’ عربی قصیدہ ‘، جزیرہ نمائے عرب میں کبھیsolo song کے طور پر نہیں گایا گیا، تجوید ، (یعنی حروف کو ان کے مخارج سے پڑھنے کا طریق) سے شاید پڑھا جاتا رہا ہو گا۔ ایران  میں (کم از کم یہ میرے علم میں نہیں ہے) آج تک غزلیہ شاعری محافل میں گا کر نہیں سنائی جاتی۔ میرے ایرانی طلبا کے پاس جو یہاں واشنگٹن ڈی سی میں رہتے ہیں، ایران سے سی ڈی، ویڈیو وغیرہ پہنچتے رہتے ہیں اور ایرانی پرچون اور حلال گوشت کی دکانوں پر بھی یہ ویڈیو موجود ہیں۔ غزلیہ شاعری گائی ضرور جاتی ہے، لیکن شعرا کی آواز میں نہیں، موسیقی کے آلات کے ساتھ پیشہ ور گانے والوں یا گانے والیوں کی آواز میں ! وہاں بھی یہی حالت ہے جو ہمارے ملکوں میں ہے کہ خریدار کہتا ہے کہ اسے جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی فلاں فلاں غزلیں درکار ہیں۔ اسے اس بات کا کوئی علم نہیں ہے (اور اس سے سروکار بھی نہیں ہے) کہ یہ غزلیں کس شاعر کی ہیں۔جیسے سنیکڑوں فلمی گانے ہیں جن کو گانے والوں یا گانے والیوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ’’بول‘‘ کس شاعر کے تھے؟ کسی کو کیا غرض پڑی ہے کہ اس مخمصے میں پھنس کر اپنا وقت ضائع کرے؟

بر صغیر میں (انڈیامیں زیادہ اور پاکستان میں کچھ کم) شاعر حضرات یا شاعرات کا ترنم سے پڑھنا ایک رواج سا بن گیا ہے۔ لیکن ایران میں آج تک رواج نہیں پا سکا ۔۔۔بیسویں صدی کے پہلے ساٹھ ستر برسوں میں تو ہر شاعر کا اپنا ایک مخصوص ترنم تھا جو ایک ٹریڈ مارک کی طرح ’’طے ‘‘ہوگیا تھا۔ تب بھی ان شعرا کو سنگیت کی کوئی سدھ بدھ نہیں تھی۔ لے، تال، سُر، تال میل، اتری پردہ، اُپ ناس، نیاس، گت، لہجہ یا ’گلے بازی ‘ کے فارمولے ، تان پلٹے، بول تان، ولمپت، مَدھ، درت، لہرا، تال، ٹھاٹھ، سمپورن، اردھ سمپورن ….وغیرہ سے انہیں سرسری واقفیت بھی نہیں تھی، لیکن ’’گاتے‘‘ضرور تھے۔ اور اب تو ۔۔اب تو
۔۔۔۔میرے کم کہے کو بہت کہا جانئے، حضور ضیا صاحب۔
اگر غزل سے ردیف قافیہ کی بندش اٹھا لی جائے (جیسا کہ کچھ تجربات ہو بھی چکے ہیں ) تو کیا اس سے غزل کی معنوی دشواریاں ختم نہیں ہو جائیں گی ۔

آنند: جواب ۔۔تو پھر وہ غزل ہی کہاں رہے گی، صاحب؟ انڈیا میں ایک معروف شاعر مظہر امام صاحب نے ’’آزاد غزل‘‘ کی بیخ و بنیا رکھی۔ کچھ اور لوگوں نے ’’دوہا غزل‘‘، ’’غزل نما‘‘، (الجھا دیا آپ نے! میرا تو سر گھوم رہا ہے)وغیرہ اصناف ’ایجاد‘ کیں۔
سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ غزل کو اپنی موجودہ ہیئت میں قائم رہنا چاہیے۔ اس کا ایک تاریخی کردار ہے جس سے ہم اپنی آنکھیں چرا نہیں سکتے۔ صرف ایک خواہش ہے کہ اپنی موجودہ ہیئت میں قائم رہتے ہوئے بھی موضوعات اور مضامین میں اس مویشی کو زندگی کی چراگاہ میں کھلا چھوڑ دیا جائے اور اسے ’’کھُرلی‘‘ پر باندھ کر ایک مخصوص قسم کا چارہ نہ کھلایا جائے۔۔مزید از ایں ، اس کی مختصر ترین جسامت کی وجہ سے اس کی سب سے بڑی ضرورت استعارے اور علامت میں بات کہنے کی ہے۔تا کہ کم از کم الفاظ میں بہت کچھ کہا جا سکے۔ غالبؔ کو بھی اس امر کا سامنا تھا، تو اس نے ملفوفیت اور مدوریت کی زبان استعمال کی۔ استعارہ سازی میں اتنا زیادہ جوڑ توڑ کیا کہ تقریباً ہر شعر ایک بھول بھلیاں بن گیا اور شرحیں لکھنے تک کی نوبت آ گئی، گویا شاعری نہ ہوئی، ایک کراس ورڈ پزل ہو گیا۔ تو بھی، بوجوہ (اور وہ وجوہ فارسی کے پیش روؤں کی نقالی تھی) مضامین اور موضوعات میں کوئی نیا باب نہیں کھلا۔ نہ غالب سے پہلے، نہ غالب کے وقتوں میں (اور یہ کہنے میں مجھے کوئی عار نہیں!) اور نہ ہی اس کے ایک سو برس بعد تک! ترقی پسند تحریک کے زمانے میں بھی فیض اور دیگر شعرا نے وہی استعارے استعمال کیے جو ظالم معشوق کے لیے کیے جاتے تھے، صرف اب وہ ظالم حاکم کے لیے مخصوص کر دیے گئے۔

اپنے بمبئی کے مختصر قیام (1955ء) میں مجھے بہت سے سینئر دوستوں سے ملنے کا موقع ملا۔ (ان سب کا تذکرہ میری خود نوشت ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں موجود ہے)۔ معروف فلمی غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کے ساتھ ایک محفل میں ایک جونیر شاعر کی طرح بیٹھے ہوئے میں نے مودبانہ انداز میں ایک لقمہ دیا کہ فراق گورکھپوری صاحب نے کتنی خوبصورتی سے انقلاب کی آمد کو وثوق سے اس شعر میں پیش کیا ہے:
دیکھ رفتار انقلاب فراقؔ
کتنی آہستہ اور کتنی تیز
تو مجروح نے، جو اپنی دانست میں سب سے بڑے غزل گو شاعر ہونے کا دم بھرتے تھے، جواب میں کہا،’’ اس رجائیت کے لہجے کو میں نے بھی تو کئی شعروں میں پیش کیا ہے!‘‘ ….اور تب انہوں نے اپنی کئی اشعار سنائے، جن میں سے ایک کا مصرع ثانی مجھے اب بھی یاد ہے:
ع : اُٹھ اے شکستہ بال، نشیمن قریب ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اس وقت بھی، یعنی ترقی پسندی کے hay-daysمیں بھی(جب جگر مراد آبادی جیسے سکہ بند غزل گو بھی یہ مصرع کہنے پر مجبور ہو گئے تھے : شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آجکل!‘‘) اردو شعرا اپنی poetic parlance میں کلاسیکی اردو شاعری کے استعاروں سے نجات نہیں پا سکے تھے۔ چہ آنکہ فراق کے شعر میں ما سواء ’کتنی آہستہ اور کتنی تیز‘ کے حسنِ بیان کے کچھ اور موجودنہیں تھا، مجروح صاحب کے مصرع میں تو وہی طائرکا شام گئے اپنے آشیانے کی طرف لوٹتے ہوئے اپنے بال و پر سے تخاطب کا انداز ہے۔استعارہ سازی کی صنعت تو جیسے ان برسوں میں مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply