کاکڑ فارمولا2/محمد فیصل

پاکستانی سیاست کی 76 سالہ تاریخ میں اتنے سیاسی سرکس لگے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون سا سرکس پہلے سے بدتر تھا تاہم اب جانے والی پی ڈی ایم حکومت نے یہ آسانی پیدا کردی ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری تاریخ کی بدترین حکومت تھی۔ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علما اسلام کو اس سیاسی ایڈونچر کا کیا فائدہ اور کیا نقصان ہواہے اس کا اندازہ انہیں آنے والے چند دنوں میں ہوجائے گا۔

 

 

 

میاں شہباز شریف اور راجا ریاض ملک کی باگ دوڑ ایک کاکڑ کے ہاتھوں میں دے گئے ہیں۔ کاکڑ سےیاد آیا کہ انوار الحق کاکڑ سے پہلے پاکستان نے ایک اور کاکڑ جنرل عبدالوحید کاکڑ کی شکل میں دیکھا تھا۔ “کاکڑ ون” کو اپنے کاکڑ فارمولے کی وجہ یہ یاد کیا جاتا ہے۔ یہ فارمولا میاں نواز شریف ہر بجلی بن کر گرا تھا اور انہیں حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔

واقفان حال بتارہے ہیں کہ ” کاکڑ ٹو” بھی میاں صاحب کی پسند نہیں ہیں۔ نگراں وزیر اعظم کی تقرری کے حوالے سے بہت سے لطیفے بھی میڈیا میں زیرگردش ہیں لیکن یہ بات تو تسلیم کرنی ہوگی کہ انوار الحق کاکڑ نہ تو میاں صاحبان کے نامزد کردہ ہیں اور نہ ہی اس معاملے پر زرداری صاحب کی کسی نے سنی ہے۔ رہ گئے راجا ریاض ان کو جس نے جیسے کہا وہ اس پر من و عن عمل درآمد کرکے اپنی ذمہ داری نبھاگئے۔

اب ہونے کیا جارہا ہے؟ کیا انتخابات اپنے مقررہ وقت پرہوں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر کسی کے ذہن میں موجود ہیں۔ سوال یہ بھی کیا جارہا ہےکہ مائنس نواز شریف، مائنس الطاف حسین اور مائنس عمران خان کے بعد کیا اب ہم “مائنس جمہوریت” کی طرف تو نہیں جارہے ہیں۔ قرین قیاس تو یہی ہے کہ ملک میں انتخابات وقت پر ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگراں حکومتوں کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ کا “کاکڑ فارمولا ٹو”ایک طویل مدت تک کارگر رہے گا اور گھوڑے کی لگام سیاستدانوں کے ہاتھو ں سے نکلتی نظر آرہی ہے۔

آپ کچھ دن انتظار کریں نگراں کابینہ میں شامل ہونے والی شخصیات پر نظر رکھیں۔ پختونخوا کی نگراں کابینہ کے استعفے کو بھی ذہن میں رکھیں آپ پر چیزیں واضح ہونے لگے گی۔ آپ کو 16 ماہ قبل کمر کی تکلیف میں مبتلا سیاستدانوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی جو اقتدار ملتے ہی اپنی کمر سیدھی کرکے پوری دنیا گھوم آئے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ان کو دوبارہ اسپتالوں کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ میاں نواز شریف کی واپسی کے منتظر خواہش مندوں کا انتظار ابھی مزید طویل ہوسکتا ہے۔

یہ حقیقت واضح ہے کہ اب جو نگراں آئے ہیں ان کے “نگراں” انہیں طویل مدت کے لیے یہاں دیکھنا چاہتےہیں۔ اس کے لیے راستے بنائے جائیں گے۔ پہلا راستہ تو دوبارہ حلقہ بندیوں کا ہی ہے۔ اس کے بعد ملک میں دیگر مسائل بھی ہیں بالکل اسی نوعیت کے مسائل جن کی بناء پنجاب اور خبرپختونخوا کے انتخابات اب تک التوا کا شکار ہیں۔ ویسے کاکڑ فارمولا ون کے تحت بھی صدر، وزیر اعظم سمیت سب کی چھٹی کردی گئی تھی اور اب مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ کاکڑ فارموکا ٹو بھی بہت سے افراد کی چھٹی کرانے جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بات صرف اٹک جیل کے قیدی تک محدود نہیں رہنے والی خیبر سے کراچی تک بہت سی جیلیں سیاستدانوں کا استقبال کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور اس کے ذمہ دار خود یہ سیاستدان ہی ہیں کہ جنوں نے خوشی سے اپنی لگامیں کسی اور کے ہاتھ میں دیدی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply