اسلام کا تصور ِآزادی/خنساء طاہر کمبوہ

قیامِ پاکستان سے قبل ہندوستان میں مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے ، ان دنوں ہندوستان پہ انگریزوں کا حکم چلتا تھا اور مسلمان ہندو و انگریزوں کے ناروا سلوک کی چکی میں پستے تھے،نوجوان مسلمانوں کے ذہنوں   پہ غلامی کا ایسا زنگ لگا ہوا تھا  جس نے  اِن  کی سوچ و فکر کی روشنی کو بجھا دیا تھا ۔بلاشبہ غلامی ایک ایسی وبا ہے کہ جس قوم میں پھیل جائے اسکو اپاہج کردیتی ہے ایسا ہی حال ان دنوں مسلمانوں کا تھا۔

 

 

دیکھا جائے تواسلام اور غلامی ایک دوسرے سے متصادم ہیں جب حالات ایسے بن جائیں کہ مسلمان غیر مسلموں کے  زیرنگیں آجائیں اور ان کیلئے اسلام پہ عمل پیرا ہونا مشکل ہو جائے تو ان پہ ہجرت فرض کردی گئی ہے۔۔

ہر دور میں اللہ کے نبیوں نے غلامی سے آزاد ہونے کیلئے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی تاکہ دنیا میں اللہ کے دیے ہوئے دین اور اس کے احکامات کا بول بالا ہو جائے ۔۔ اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے برصغیر میں مسلمانوں کے راہنماؤں نے اپنی مذہبی آزادی ، شناخت اور سوچ کو بچانے کیلئے نوجوانوں میں اس محکومیت سے آزادی کی نئی روح پھونکی ۔

سرسید احمد نے دو قومی نظریہ پیش کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو یہ بتانا تھا کہ وہ ایک الگ قوم ہیں ، اور انکا دین اسلام ان کیلئے مکمل ضابطہ حیات ہے اور ان کیلئے ایک ایسا خطہ ہونا چاہیے جہاں ان کو مکمل مذہبی آزادی ہو۔

اس کے بعد مسلمان آزاد ہونے کیلئے آگے بڑھے اور علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا،مسلمان راہنماؤں کے  اخلاص کی بدولت تحریکِ آزادی  کے متوالوں نے   اپنی  جان کے نذرانے بھی پیش کردیے۔
یہ صدیوں کی روایت تھی کہ جس دور میں بھی مسلمان غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کیلئے کمربستہ ہوئے تب تب غیرمسلم قوم نے اپنی حکومت کو بچانے کیلئے مسلمانوں کے  خون سے  ہولی کھیلی ۔ مسلمانان ہند ان شدید حالات میں بھی اپنی تحریک کو لے کر آگے بڑھتے رہے ۔

سالوں سے جن علاقوں میں رہ رہے تھے اُن علاقوں کو چھوڑا، اپنے آباء واجداد کی قبروں کو چھوڑا لیکن اپنی نسلوں کو آزاد ریاست دینے کیلئے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،ہندوستان کے جن علاقوں میں پاکستان نہیں بننا تھا ان علاقوں کے مسلمانوں نے بھی اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا تھا۔ پورا ہندوستان ان نعروں سے گونج رہا تھا”ہم لے کر رہیں گے آزادی “۔
تحریک آزادی کا مقصد لا الہ الااللہ کی روشنی میں ایسے خطے کا حصول تھا جہاں اسلامی فلاحی ریاست قائم ہونی  تھی، ان کے دلوں میں ریاستِ مدینہ کی تصویر تھی جہاں سے مسلمانوں کی ترقی کا سفر شروع ہوا تھا ۔۔۔پورے ہند کے صوبوں کی مختلف تہذیبیں ایک اسلام کی تہذیب میں تبدیل ہوگئیں، مختلف قومیتوں نے ایک ملت رسولِ ہاشمی ؐ کا روپ دھار لیا ۔

اسی جذبے سے مختلف قوموں کے افراد جو برسوں سے منتشر تھے بلآخر بھائی بھائی بن کر تحریک آزادی میں شریک ہوئے۔۔ جیسے رسول ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا تھا۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

علیحدہ وطن کا خواب مثل مدینہ کی شکل میں مسلمانانِ ہند کے دِلوں کے اندر سما گیا تھا۔

انہیں ریاست مدینہ جو رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے  حکم سے اس وقت کے مسلمانوں کو یکجا کرنے کیلئے قائم کی گئی اور خلافت راشدہ کا   ایسا نظام جس کو صحابہ کرام نے کامیابی سے چلا کر دنیا پہ حکمرانی کی وہ سب یاد آگیا۔

بلآخر 25 لاکھ انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے کھربوں کی  املاک کا نقصان کرکے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی۔۔
وہ جو خواب تھا مسلم راہنماؤں کا وہ 14 اگست 1947ء کو ایک مجسم تعبیر بن کر دنیا کے نقشے پہ اُبھرا۔۔

پاکستان یونہی پلیٹ میں سجا ہوا نہیں ملا ،اسکی داستان بہت دردناک اور اَن گنت قربانیوں سے لکھی گئی ۔ آج ہمارے لیے پاکستان اللہ کی طرف سے تحفہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سائے  میں لے لیا ہے ۔

اب  دیکھنا یہ ہے کہ اب تک ہم غلامی کی  زندگی گزار رہے ہیں، یا ہم آزاد ہوچکے ہیں؟
مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ
انسان اللہ کے سوا ہر اطاعت و بندگی سے آزاد ہو جائے یہاں تک کہ اپنے نفس و خواہشات اور اپنی قوم کی حاکمیت کا کوئی پھندا اسکی گردن پہ نہ رہے۔۔
اسلام کی خوبصورت چھتری تلے اس آزاد ریاست پاکستان میں مسلمان اللہ کے سوا ہر اطاعت و بندگی سے آزاد ہیں ۔
انہیں افواج پاکستان کی صورت میں محافظ ملے ، جن کی بدولت ہر پاکستانی سکون کی نیند سوتا ہے۔
اپنی  رائے  دینے کی آزادی دی  گئی ، ووٹ کی آزادی دی گئی پاکستانی جس کو چاہتا ہے اپنا نمائندہ منتخب کرلے ، ہر زبان بولنے والوں کو آزادی ہے ، اقلیتوں کو   مذہبی آزادی ہے۔۔ اس کے علاوہ بھی ان گنت چیزیں ہیں جن کی آزادی ہمیں پاکستان میں ملی۔
آج اگر ہم غلام ہیں وہ صرف ہماری نفس اور خواہشات کی غلامی ہے
خواہشات کا پھندا گردن میں ڈال کر ہر عہدے پہ بیٹھا پاکستانی دھاندلی کرتا ہے ، اور اس کے بعد شکوہ کرتا ہے ہم غلام ہیں
حکومت کرپٹ ہے لیکن ایسا نہیں ہے
صرف حکومت کرپٹ نہیں ہوتی بلکہ پورا سسٹم کرپٹ ہوتا ہے کیونکہ ایک عام شہری سے سسٹم بنتا ہے اور یہ کرپشن جب رگوں میں سرائیت کرجائے تو کلیہ خداوندی آجاتا ہے
کہ ظالم قوم پہ ظالم حکمران ہی مسلط کیے جاتے ہیں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہندوستان سے ہجرت کے بعد مسلمانوں کی غلامی ختم ہوگئی  ، اب غلامی صرف اپنی بنائی ہوئی ہے جس نے ہر شخص کو جکڑا ہوا ہے ہمیں بس اس نفس کی خواہشات کو اکھاڑ پھینکنا ہے اور اسلام کے دیے ہوئے اصولوں کی طرف ہجرت کرنی ہے تاکہ ہم آزاد ہوجائیں۔۔
یہی اسلام کا تصور آزادی ہے۔۔
پاکستان زندہ باد

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply