ہم کالعدم کیوں نہیں ہو جاتے؟-یاسر جواد

’چین کے خلاف مغربی طاقتوں انگلینڈ، فرانس، روس، جرمنی، جاپان اور یو-ایس کی متحدہ افواج نے شہر کو تاراج کیا، انتقاماً متعدد چینیوں کو ہلاک کیا اور قیمتی املاک کو لُوٹا یا برباد کیا۔ حلیفوں نے شکستہ عفریت پر 33,00,00,000 ڈالر ہرجانہ عائد کیا جو چینی درآمدی کسٹمز پر یورپی کنٹرول اور نمک پر اجارہ داری کے ذریعے اکٹھا کیا جانا تھا۔ بعد میں یو-ایس، برطانیہ عظمیٰ، روس اور جاپان نے اِس ہرجانے کے خاصے بڑے حصے معاف کر دیے، مگر عموماً شرط رکھی کہ یہ رقوم چینی طلبا کو متعلقہ قوم کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے پر خرچ کی جائیں گی۔ یہ فیاضی کا مظاہرہ تھا جو مشرق اور مغرب کے تاریخی اور المناک تصادم میں پرانے چین کو کالعدم کرنے میں کسی بھی اور واحد عنصر سے زیادہ مؤثر ثابت ہوا۔

’’اب ’ہرجانے والے طلبا‘ (indemnity students) اور ہزاروں دیگر چین کو خیرباد کہہ کر اپنے فاتحین کی تہذیبوں کا مطالعہ کرنے چلے گئے۔ متعدد انگلینڈ گئے، زیادہ تر جرمنی، اُس سے بھی زیادہ امریکہ، اور اُس سے بھی زیادہ جاپان کو؛ ہر سال صرف امریکہ کی یونیورسٹیوں سے ہی سینکڑوں فارغ التحصیل ہوتے۔ وہ ایک نوجوانی اور متاثر ہونے کی عمر میں آئے، جب اُنھوں نے اپنی قومی ثقافت کی گہرائی اور اقدار کو بھی اچھی طرح نہ سمجھا تھا۔ اُنھوں نے مغرب کی سائنس، طریقہ ہائے کار، تاریخ اور نظریات میں انوکھی تعلیم پائی؛ وہ اپنے اِردگرد زندگی کی راحتیں اور جوش و خروش، مغربی فرد کی آزادی اور عوام کا حقِ رائے دہی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اُنھوں نے مغربی فلسفے کا مطالعہ کیا، اپنے باپوں کے مذہب پر یقین کھو بیٹھے، اپنے معلموں اور نئے ماحول سے حوصلہ پا کر اپنے وطن کی تہذیب میں تمام عناصر کے خلاف بغاوت میں قابلِ احترام انقلابیوں کی پوزیشن سے لطف اندوز ہوئے۔ سال بہ سال اِس قسم کے ہزاروں جڑ سے اُکھڑے ہوئے نوجوان واپس چین آئے، اپنے ملک کی سست رو زندگی اور مادی پسماندگی کے خلاف چین بہ جبیں ہوئے، اور ہر شہر میں خفگی اور بغاوت کے بیج بوئے۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

یوں نئے چین کی ابتدا ہوئی۔ یہ 1900ء کے آس پاس کی بات ہے۔ ہمارے کچھ ’’ہیروز‘‘ بھی یورپ گئے تھے۔ کوئی کسی خاتون پہ فدا ہو کر تین سال والا تھیسس ایک ڈیڑھ سال میں لے آیا، کسی نے سٹائل کے ساتھ دو رنگوں والے مہنگے جوتے پہن کر سگار پینا مقصد حیات بنایا اور ٹائپ رائٹر پر ملک بھی بنا ڈالا۔ ہمارے موجود حکمرانوں کے بڑے بھی گوروں کے دیس میں گئے، اور جو کچھ ساتھ لائے اُس کے نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں چین اور جاپان کالعدم ہوئے، بعد میں امریکی معاشرہ کالعدم ہوا، کوریا اور کئی یورپی ممالک کالعدم ہوئے؟ ہم ایسے پھپھوندی کے ڈھیر ہیں کہ کالعدم ہی نہیں ہوتے۔ ہر حبس ہمیں مزید بڑھاتا ہے، اور بڑھاتا رہے گا۔
یہ کتاب پڑھ کر بہت کچھ سمجھ میں آئے گا۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply