نثر ،شاعری ، نطشے، نیّر مسعود/ناصر عباس نیّر

نطشے نے اپنی کتابJoyous of Science میں لکھا ہے کہ نثر کے عظیم اساتذہ ،شاعر بھی ہوئے ہیں۔ کچھ نے تو شاعری لکھی بھی ،جب کہ کچھ غیر اعلانیہ شاعر تھے۔ وہ نجی زندگی کے باقی رازوں کی مانند شاعری کو بھی اخفا میں رکھتے ہوئے، اس سے لذت یاب ہوتے۔

 

 

 

اگر آ پ نطشے کی یہی دو سطریں پڑھیں ،اور باقی حصہ نہ پڑھیں تو شاعری اور نثر کے تعلق کے ضمن میں گمراہ ہوسکتے ہیں۔ آ پ یہ رائے قائم کرسکتے ہیں کہ نثر کا حسن ، شکوہ، عظمت سب شاعری پر منحصر ہے۔ ہمارے یہاں جس نثر میں شعری وسائل سے زیادہ کام لیا گیا ہو؛تشبیہ ،استعارہ ، کنائے کو جابجا کھپایا گیا ہو۔ یا محاورات ، ضرب الامثال اور شعری ٹکڑوں کو سطر بہ سطر ٹانکا گیا ہو، اس کو تخلیقی نثر کہا جاتا ہے۔

سادہ لفظوں میں اچھی نثر وہی ہے جو مسلسل شاعری کی طرف رجوع کرے ، اور شاعر ی کی طفیلی بنے۔ نطشے تیسری ہی سطر میں قاری کی اس توقع کو پاش پاش کر دیتا ہے، جو پہلی سطروں سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نثر ، شاعری سے ’’مسلسل ، شائستہ جنگ‘‘ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ اصول ایک دوسرے اصول سے اخذ کرتا ہے۔ یہ کہ ’’جنگ تمام اچھی اشیا کو جنم دیتی ہے‘‘۔ نطشے نے یہ خیال یونانی ہیراکلی توس سے لیا۔

جدید یورپی مفکرین کے یہاں ، نئے کی تخلیق کے سلسلے میں جنگ کا استعارہ مسلسل کام کرتا محسوس ہوتا ہے۔ نطشے ہی کے ہم وطن ہیگل نے انسانی فکر کی تاریخ (جو دراصل یورپ کی تاریخ ہے ) کو جدلیاتی کہا۔ یعنی ایک نظریہ، دوسرے نظریے سے بھڑتا ہے تو نیا نظریہ وجود میں آتا ہے۔ مارکس نے یہی آویزش سماجی ارتقا میں دیکھی۔ ڈارون سے متاثر ہربرٹ سپنسر نے بقاے بہترین کا نظریہ پیش کیا تھا، جس کے مطابق بہترین وہی ہے جو بدترین کو پچھاڑ دے۔

بیسویں صدی میں فرائیڈ نے ایڈی پس کمپلیکس میں ، یہی جنگ ابتداے عمر میں دکھا دی ۔ بچہ ، اپنے باپ کو حریف سمجھتا ہے۔بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں ہیر لڈ بلوم اسی جنگ کو ادب میں لے آیا۔ یہ کہ نیا ادیب ، پیش رو ادیب سے معاندانہ رشتہ استوار کرتا ہے۔ جدیدیت جس جمالیات پر کھڑی ہے، وہ بھی جدلیاتی ہے۔ جدید ادب کا سار ا حسن ، ساری انفرادیت، روایت کو شکست دینے سے پیدا ہوتی ہے۔ یوں جدید یورپ کی سیاسی،معاشی ، فلسفیانہ اور ادبی فکر میں جنگ کلیدی اور فیصلہ کن استعارہ محسوس ہوتی ہے۔

جارحانہ جنگ میں اگر کشتوں کے پشتے لگائے جاتے ہیں تو شائستہ جنگ میں فریق مخالف کو پسپا کیا جاتا ہے۔ چناں چہ نطشے کہتا ہے کہ نثر ،شاعری سے براہ راست نہیں ٹکراتی ،مگر اسے اپنی دنیا سے خارج کرتی چلی جاتی ہے،اور اسے فاصلے پر دھکیل دیتی ہے۔

اس کے خیال میں بری نثر وہی لکھتے ہیں،جو یہ جنگ ہار جاتے ہیں۔ یعنی جن کے یہاں شاعری سرے سے موجود نہیں، ایک شائستہ جنگ شروع کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں، وہ اچھی نثر نہیں لکھ سکتے۔ نطشے یہ کہنا چاہتا ہے کہ اچھی نثر میں یہ شعور مسلسل کام کررہا ہوتا ہے کہ اسے شاعری نہیں بننے دینا۔ شاعری میں جو کچھ بہترین ہے، وہ نثر میں بد ترین ہوسکتا ہے۔ نثر سے شاعری کے کامل اخراج کے بغیر اچھی نثر نہیں لکھی جاسکتی۔

نطشے نے یہ بات جرمن زبان میں، ۱۸۸۲ء میں لکھی۔
کیسا اتفاق ہے کہ جو بات نثر کے سلسلے میں نطشے نے محسوس کی، وہی بات کوئی ایک صدی بعد ، لکھنؤ میں مقیم نیّر مسعود نے کہی۔
نیرّ مسعود نے ساگری سین گپتا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’نثر کی قوت میرے نزدیک یہی ہے کہ اس میں شاعری سے کم کام لیا جائے….اگر معلوم ہو کہ اس میں شاعرانہ انداز آگیا تو اس کو کاٹ بھی دیتا ہوں۔مثال کے طور پر استعارہ میرے یہاں غالباً کہیں نہیں ملے گا… میں نے سب سے پہلے تو یہی کوشش کی کہ جو چیز لکھوں ، وہ نثر میں ہو،نثری انداز میں ہو۔اور وہ جو فصیح ٹکسالی زبان ہے،وہ نہ ہو۔زبان صحیح ہو لیکن بامحاورہ یا ہمارے روزمرہ کے مطابق نہ ہو‘‘۔

اس سے گما ن نہ کیجیے کہ نیّر مسعود شاعری کا ذوق اور فہم نہیں رکھتے۔ انھوں نے میر، غالب ،انیس جیسے شعرا پر جم کر لکھا ہے؛ وہ شاعری کی شعریات، اسلوب ، شاعرانہ وسائل کو خوب سمجھتے بھی تھے،ان کے حسن ومعنی کا ٖغیر مبہم ادراک بھی رکھتے تھے۔ اسی انٹرویو میں کہتے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ مجھے شعر کا ذوق بھی ہے اور شاعری مجھ کو پسند بھی زیادہ ہے،شاعری کامطالعہ بھی بہت ہوا تواس کا اندازہ بھی ہے کہ شاعری کہاں کہاں گھس جاتی ہے نثر میں۔اس کو میں دور رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

غور کیجیے۔ نیرّ مسعود وہی بات کہہ رہے ہیں جو نطشے نے کہی۔ یہ کہ اچھی نثر کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعریت سے خالی ہو۔نثر اپنی طرف رجوع کرے اور خود پر انحصار کرے۔ نثر نگار کو شاعری کا ذو ق بھی ہو اور فہم بھی۔ ذوق وفہم ، نثر میں بس ایک ہی صورت میں کام آتے ہیں: یہ کہ نثر میں شاعری کے داخلے کے تمام راستوں پر پہرہ ہواور جہاں کہیں دراندازی ہو، اس کا فوری محاسبہ کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صاف لفظوں میں نثر اگر اپنی اصل منوانا چاہتی ہے تواسے شاعری سے شائستہ جنگ جاری رکھنا ہوگی،شاعری کو پنی قلمرو سے مسلسل خارج کیے رکھنا ہوگا! نیّر مسعود کی نثر، اسی شائستہ جنگ کی مثال ہے۔ یہ یکسر غیر شاعرانہ ہے اور اپنے وجود ،مزاج اور منہاج میں نثر ہے۔شعریت سےخالی اورنثریت سےلبریز۔
نثرو شاعری کے رشے سے متعلق مغرب ومشرق کے ان خیالات میں ایک بنیادی بات فراموش ہوئی ہے۔
یہ کہ جنھیں شاعرانہ وسائل کہا جاتا ہے، کیا انھیں شاعری نے خود خلق کیا ہے یا کہیں سے مستعار لیا ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply