گاڑی تمہاری آگئی ہے۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بینچ پر بیٹھا ہوا ہوں
اک اکیلا، یکسرو تنہا، یگانہ
برف شاید رات بھر گرتی رہی ہے
اس لیے تو میرا اوور کوٹ، مفلر اور ٹوپی
برف سے یوں ڈھک گئے ہیں
جیسے ان کی بیخ و بن میں
اون اور برفوں کے تار و پود یکجا ہو گئے ہوں
سانس نتھنوں سے نکلتا ہے تو جیسے
برف میں تحلیل ہو کر
پھر مرے نتھنوں کے اندر تک رسائی چاہتا ہے
ہاں، بہت دقّت طلب ہے
آنکھ کے وزنی پپوٹے کا ذرا سا کُھل کے باہر دیکھنا
بس ایک لمحے کے لئے ہی
ہاں، بہت دقّت طلب ہے
کھول ہی لیتا ہوں آخر
دور تک بس برف کے انبار ہیں
جو ریل کی پٹڑی کو بالکل ڈھک چکے ہیں
دائیں بائیں اور بھی کچھ بینچ ہیں
لیکن سبھی خالی پڑے ہیں
ریلوے کا یہ سٹیشن
صرف اک جانب سے آنے والی گاڑی کا کوئی ادنی پڑاؤ
منتظر ہے، منجمد ہے، آدھا سویا اور آدھا جاگتا ہے

۲
آنکھ کا وزنی پپوٹا بند ہونا چاہتا ہے
اور تب اک برف کا کورا ہیولی
میری انگشت شہادت کو پکڑ کر
مجھ سے کہتا ہے ۔ چلو، آئو
اٹھو، گاڑی تمہاری آ گئی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: Death Wish Theme پر یہ نظم میری بیوی پروملا آنند کی موت کے دوسرے دن لکھی گئی۔ س۔پ۔آ

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply