کربلا اور اقبال۔۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ

علامہ اقبال رح نے رموز بےخودی میں’’در معنی حریت اسلامیہ و سیر حادثہ کربلا‘‘ کے عنوان سے امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کر کے اپنے کلام کو دوام بخشا ہے۔ واقعہ کربلا میں اقبال رح حریت کا وہ شعلہ بھی دیکھتے ہیں جس کی تب و تاب میں اقبال رح ملت کے احیاء کا خواب دیکھا تھا۔
ان فارسی اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں؛

ہر کہ پیماں باھُوَالمَوجود بست
گردنش از بند ہرمعبود رست
’’جو شخص قوانین خداوندی کی اتباع کو مقصود زندگی قرار دے لے اور اسی طرح اپنا عہد و پیمان اللہ سے باندھ لے، اس کی گردن میں کسی آقا کی غلامی اور محکومی کی زنجیر نہیں رہتی۔‘‘

عشق را آرام جاں حریت است
ناقہ اش را ساربان حریت است
“عشق کو کامل سکون اور اطمینان آزادی سے ملتا ہے اس کے ناقہ کی ساربان حریت ہے۔‘‘

آن شنیدیستی کہ ہنگام نبرد
عشق باعقل ہوس پرورچہ کرد
’’تم نے سنا ہے کہ کربلا کے میدان میں عشق نے عقل کے ساتھ کیا کیا۔”

آں امام عاشقان پسر بتول (سلام اللہ علیہا)
سرد آزادے زبستان رسول (ﷺ)
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر

عاشقوں کے امام حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی اولاد اور حضور (ﷺ) کے گلستان کے پھول ہیں حضرت علی (علیہ السلام) ان کے والد بزرگوار ہیں، اس میں’’اللہ اللہ‘‘ وہ کلمہ تحسین ہے جو مرحبا اور شاباش کے معنوں میں آتا ہے، اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) کو ‘‘بائے بسمہ اللہ‘‘ سے یاد کیا گیا ہے، یہ خود علامہ اقبال کی اہل بیت (علیہم السلام) شناسی پر ایک دلیل ہے، امام حسین (علیہ السلام) کو ’’ذبح عظیم‘‘ کے مصداق قرار دیا ہے، علامہ اقبال رح قربانی امام حسین (علیہ السلام) کو قربانی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔

بہرآں شہزادہ خیرالعملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل
روایت میں ہے کہ ایک دن نبی اکرم (ﷺ) اپنے دونوں نواسوں کو کندھوں پر سوار کرکے کھلا رہے تھے، آپ (ﷺ) نے اس وقت فرمایا کہ تمہارا اونٹ کیسا اچھا ہے اور اس کی سواریاں کیسی خوب ہیں ’’نعم الجمل‘‘ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی ایں مصرع از مضمون او
امام حسین (علیہ السلام) کے خون کی رنگینی سے عشق غیور سرخ رو ہے، کربلا کے واقعہ سے اس موضوع میں حسن اور رعنائی پیدا ہوگئی ہے۔

درمیاں امت آں کیواں جناب
ہمچو حرف قل ھواللہ درکتاب
امت محمدیہ (ﷺ) میں آپ (علیہ السلام) کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن مجید میں سورۂ اخلاص کی ہے، سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی جوکہ قرآنی تعلیمات کا مرکزی نکتہ ہے، اسی طرح امام حسین (علیہ السلام) کو بھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید

زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

دنیا میں حق و باطل کی کشمکش شروع سے چلی آ رہی ہے، اس کشمکش میں مجاہدین کی قوت بازو سے حق کا غلبہ ہوتا ہے اور باطل شکست و نامرادی سے دوچار۔

چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت راز ہر اندرکام ریخت
خاست آں سرجلوہ خیرالامم
چوں سحاب قبلہ باراں درقدم
برزمین کربلا بارید ورفت
لالہ در ویرانہ کارید رفت

جب خلافت کا تعلق قرآن سے منقطع ہو گیا اور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکر و نظر باقی نہ رہی تو اس وقت امام حسین (علیہ السلام) اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹا اٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پر برسا اور اسے لالہ زار بنادیا۔

تاقیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد

آپ (علیہ السلام) نے اس طرح قیامت تک ظلم و استبداد کے راستے بند کر دیئے اور اپنے خون کی سیرابی سے رہگزاروں کو چمنستان بنا دیا۔

بہرحق درخاک وخوں غلطیدہ است
پس بنائے لاالٰہ گرویدہ است
آپ (ع) نے حق کے غلبہ کے لئے جان دے دی اور اس طرح توحید کی عمارت کی بنیاد بن گئے بنائے ’’لا الٰہ‘‘میں تلمیح ہے خواجہ معین الدین چشتی کے اس مصرع کی طرف: ’’حقا کہ بنائے لاالٰہ ھست حسین۔”

مدعایش سلطنت بودے اگر
خودنکردے باچنیں سامان سفر
دشمناں چو ریگ صحرا لاتعد
دوستان او بہ یزداں ہم عدد

اگر آپ (ع) کامقصد حصول سلطنت ہوتا تو اس بےسروسامانی میں نہ نکلتے بلکہ دیگر سامان و اسباب سے قطع، ساتھیوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مخالفین کا لشکر لاتعداد تھا، مگر آپ (علیہ السلام) کے ساتھ صرف بہتر (72) نفوس تھے، یہاں علامہ نے یزداں کے عدد ’’72‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔

سرابراہیم (علیہ السلام) و اسماعیل (علیہ السلام) بود
یعنی آں جمال راتفصیل بود
کربلا کے واقع میں قربانی اسماعیل (علیہ السلام) کی تفصیل ہے۔

تیغ بہر عزت دین است وبس
مقصد اوحفظ آئین است وبس
مومن کی تلوار ہمیشہ دین کے غلبہ و اقتدار کے لئے اٹھتی ہے، ذاتی مفاد کے لئے نہیں اس کا مقصد آئین اور قانون کی حفاظت ہوتا ہے۔

ماسوا اللہ را مسلمان بندہ نسیت
پیش فرعونی سرش افگندہ نسبت
مسلمان اللہ کے سوا کسی کا محکوم نہیں ہوتا اس کا سر کسی فرعون کے سامنے نہیں جھکتا۔

خون او تفسیر ایں اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد
امام حسین (علیہ السلام) کے خون نے ان اسرار و رموز دین کی تفسیر کردی اور سوئی ہوئی ملت کو جگایا۔

تیغ لا چو ازمیاں بیروں کشید
از رگ ارباب باطل خوں کشید
انہوں نے جب ’’لا‘‘ کو بےنیام کیا تو باطل کے خداؤں کی رگوں سے خون جاری ہو گیا۔

نقش الا للہ بر صحرا نوشت سطر عنوان نجات ما نوشت
باطل کے خداؤں کو مٹانے کے بعد انھوں نے سرزمین کربلا پر خدا کی توحید کا نقش ثبت کردیا وہ توحید جو ہماری نجات کا سرعنوان ہے۔

رمز قرآن از حسین (علیہ السلام) آموختیم بہ آتش او شعلہ ھا اندوختیم
ہم نے قرآن کے رموز و اسرار امام حسین (علیہ السلام) سے سیکھے ہیں، ان کی حرارت ایمانی سے ہم نے شعلہ ہائے حیات کو جمع کیا ہے۔

شوکت شام و سحربغداد رفت سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت
تار ما ازخمہ اش لرزاں ہنو ز تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز
دنیا میں مختلف مذاہب اور مسلمانوں کی کئی سلطنتیں قائم ہوئیں اور مٹ گئیں، لیکن داستان کربلا ابھی تک زندہ ہے، ہمارے تارحیات میں پوشیدہ نغمے اسی مضراب سے بیدار ہوتے ہیں، امام حسین (علیہ السلام) نے تکبیر کی جو آواز بلند کی تھی اس سے ہمارے ایمانوں میں تازگی پیدا ہو جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے صبا اے پیک دور افتادگاں
اشک ما برخاک پاک او رساں
اے صبا! تو ہماری نم آلود آنکھوں کا سلام مرقد امام حسین (علیہ السلام) تک پہنچا دے۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کربلا اور اقبال۔۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ

Leave a Reply