اداس شام کی ڈھلتی روشنی میں گھر لوٹتے پرندوں کی اونچی اڑان دیکھتےہوئے اس نےکاپی پنسل سے کاغذ پر کچھ آڑی ترچھی لکیریں کھینچیں۔بے ربط لکیروں سے بنا عکس اس کی شخصیت کی الجھی ذہنی کیفیت کا پتہ دے رہیں تھیں۔
تفکر کی وجہ کچھ دنوں کا بڑھتا اضطراب جو درحقیقت چھپا ہوا خوف تھا ،جو دھیرے دھیرے اس کے گرد مکڑی کی طرح جال بُن رہا تھا ۔ اسے لگنے لگا کہ اس کی زندگی اور شخصیت ریشم کے دھاگوں کی طرح الجھنا شروع ہو گی ہے ۔
شخصیت میں رونما ہوتے عجیب سے احساسات کو اس نے کچھ لمحوں میں کاغذ پر اتارنا شروع کیا ،تاکہ اس کیفیت سے گزرنے کے بعد پُرسکون اعصاب کے ساتھ بات کی حقیقت سمجھ سکے ۔
وہ یہ چیز سمجھتی تھی کہ ذہن میں جب سوچوں کا سیلاب امڈ آئے تو ان کو کاغذ پر اتار کر غوروفکر کرنے سے ذہن سلجھ جاتا ہے ،اور مثبت سوچیں سطح مرتفع پر بہتے ہوئے پانی کی طرح بہتی چلی جاتی ہیں۔
لکھتے ہوئے اسکو علامات محسوس بھی ہونے لگیں ۔اس نے الجھتے ہوئے سوچا کہ جب بھی کوئی علامت پڑھو یا لکھو تو ایسا لگتا ہے کہ مجھے یہی تو بیماری ہےانتہائی خوف کی بات ہے۔اس نے جلدی جلدی کاغذ پہ لکھا کہ
“خوف”.
اصل میں تو خوف ہی انسان کی پُرسکون جھیل کے ٹھہرے پانی میں ارتعاش پیدا کرتا ہے ۔اور زندگی میں ہلچل مچ جاتی ہے ۔ خود کو سمجھنے کی اس سوچ سے اسے ایک احساس تو پیدا ہوتا ہے ۔۔چلو یہ مرحلہ تو سر ہوا، مجھے خوف ہے ۔اس نے خود سے سر گوشی کی۔
یہ سوچتے ہی کلیجہ یک دم منہ کو آگیا اور ٹھنڈے پسینے سے آنے لگے ،اس نے فوراً سب کچھ رکھ دیا ،غٹا غٹ پانی پیا اور وہیں چارپائی پر نیم دراز ہوگئی۔ ادھ کھلی آنکھوں سے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوئے اس نے سوچا ۔۔۔
اب وہ کس کو بتائے؟ کیوں کہ گھر والوں نے تو چھوٹتے ہی کہنا ہے کہ لو ہمیں تو پہلے پتہ ہے کہ تم پاگل ہو، آج ثابت ہوگیا۔اس کو سینہ جکڑتا اور سانس رکتاہوا محسوس ہوا۔اسی عالم میں مؤذن نے رقت آمیز آواز میں مغرب کی نماز کے لیے اللّٰہ کا دعوت نامہ دوہرانا شروع کردیا۔اور اس نے کوشش کی اس روحانی کیفیت سے خود کے اندر اٹھتے طوفان کو پُرسکون کرے۔آنکھیں موندے اذان کو غور سے سنتے ہوئے اسے سکون محسوس ہونا شروع ہوا۔
اسکو بچپن سے ہی اذان میں ایک دلکشی محسوس ہوتی تھی ۔یہ وہی دعوت نامہ ہے جو رشتہ داروں میں کسی کی شادی پر آیا کرتا تھا اور بے حد بے چینی سے انتظار ہوتا تھا کہ کارڈ آیا کہ نہیں کہ تیاری شروع ہو اور ہم سب انکے روبرو پہنچ جائیں ۔
مؤذن اب “حی علی الفلاح” کے الفاظ دوہرا رہاتھا۔یکدم دماغ میں بجلی سی کوندی۔کامیابی کی طرف آؤ۔کامیابی تو صرف اللّٰہ کی طرف جانے والے راستے میں رکھی ہوئی ہے۔اس نے پُرمسرت انداز میں سوچا، بھلا جس رب نے مجھے بنایا ، کیا وہ اس کیفیت میں میری رہنمائی اپنی کتاب مبین سے نہیں کرے گا؟
اسکو رہ رہ کر آیات یاد آنے لگیں اور اس نے محبت،احترام اور عقیدت کے انداز میں اپنے رب کے الفاظ دوہرا نے شروع کردیے۔
اسے فوراً یاد آیا ۔
لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ،
“اللّٰہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو”
یہیں سے اسے سکینت محسوس ہوئی کہ اب مجھے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
پھر اسے یہ محسوس ہوا اللہ تو اس کے حال کو جانتا ھے پوشیدہ بھی ظاہر بھی کیونکہ وہ تو اپنے کلام برحق میں کہتا ہے ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
وَاَ سِرُّوْا قَوْلَـكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖ ۗ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ بِۢذَا تِ الصُّدُوْرِ
“تم خواہ چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے (اللہ کے لیے یکساں ہے)، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے”
(67:13)
پھر اسے کس بات کی فکر جس نے تخلیق کیا وجود بخشا ۔ماں کے پیٹ میں رکھا کیا وہ میرے حالات سے بے خبر رہ سکتا ھے ۔جس ذات کے علم میں کائنات کے ذرے ذرے کا علم ھے ۔ اسی یاد آیا اللہ رب العزت تو یہ فرماتے ہیں
اَ لَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۗ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ
“کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ حالانکہ وہ باریک بیں اور باخبر ہے”
( 67: 14)
رزق کا ذمہ زندگی میں آسانی تو اسی ذات کی فراہم کردہ ھے ۔تو پھر فکر کیسی ۔کچھ چیزیں بطور آزمائش آتی ھیں ۔ حالانکہ کے اللہ تو ان نعمتوں کا ذکر کرتا ھے ۔
هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَـكُمُ الْاَ رْضَ ذَلُوْلًا فَا مْشُوْا فِيْ مَنَا كِبِهَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ ۗ وَاِ لَيْهِ النُّشُوْرُ
“وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم کر دیا سو تم اس کے راستوں میں چلو پھر اور الله کے رزق میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس پھر کر جانا ہے”
( 67: 15)
وضو کے لیے اٹھتے قدموں کے ساتھ اس نے سوچا میں قرآن میں خوف کے متعلق پڑھوں گی۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں