سفرنامہ بہاولپور(3)نور محل-محمد احمد

سنٹرل لائبریری بہاولپور دیکھنے کے بعد اب ہماری اگلی منزل بہاولپور کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل اور بہاولپور کی پہنچان نور محل تھا،حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بہاولپور دیکھنے کی تمنا بھی نور محل کی وجہ سے ہوئی تھی، جب نے فیض محل خیرپور کا دورہ کیا تھا، اس وقت نور محل دیکھنے کا شوق ہوا، جو تمنا اس سفر میں پوری ہوئی. نور محل عظیم شاہکار اور فن تعمیر کی اعلی مثال ہے. دو سو سال پہلے ایسا عالیشان محل تعمیر کرانا، یقیناً ان بادشاہوں کے ذوق اور شوق کی عکاسی کرتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ اپنے شوق کی تسکین میں ایسی عالیشان عمارتیں کھڑی کرنے سے نہیں گھبراتے تھے، بھلے کتنا ہی سرمایہ خرچ کیوں نہ ہو.اسلامی تعلیمات، سیرت طیبہ اور خلافت راشدہ کے مطالعے سے ہمیں کہیں نہیں ملتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صحابہ کرام نے اپنے لیے ایسے عالیشان محلات تعمیر کیے ہوں، ان کے مکانات کچے اور نہایت سادہ ہوتے تھے، ان کے نزدیک ترجیحات میں دفاعی، سماجی اور فلاحی امور تو رہے ہیں، لیکن ایسے فضول کام ان کی زندگی میں نہیں ملتے. لگتا ایسا ہے کہ جب مسلمانوں میں بادشاہت رائج ہوئی تو سربراہوں نے ایسے شوق پالنے شروع کیے اور پھر ان کی توجہ دفاع، سائنس اور دیگر امور سے ہٹتی چلی گئی، آج کے مسلمان بادشاہ اس کی جیتی جاگتی تصویر ہیں، محلات اور گاڑیوں میں سب سے آگے، لیکن دفاع اور جدید ٹیکنالوجی میں کوئی پرسان حال نہیں. بہر حال بہاولپور شہر کا طائرانہ نظارہ کرتے ہوئے ہم تیزی سے منزل کی طرف بڑھ رہے تھے، راستے میں بہت سے تاریخی مقامات کو دور سے دیکھنے پر اکتفا کیا، ان میں وکٹوریہ ہسپتال بھی تھی، جو کیئی ایکڑوں پر مشتمل ہے، جو 1906 میں ملکہ وکٹوریہ کی وفات کے بعد ان کے یاد میں تعمیر کی گئی تھی.
ہم کچھ دیر میں نور محل پہنچے، وسیع وعریض ایراضی پر محیط یہ محل بہت ہی خوبصورت اور دلکش منظر پیش کررہا تھا، نور محل کے لیے بہت سی کہانیاں مشہور ہیں کہ یہ اس لیے بنایا گیا وغیرہ، لیکن خاندانی روایت موجب نواب صاحب نے یہ محل اپنے مہمانوں لیے تعمیر کرایا تھا. بہاولپور کے نوابوں کے چار محل مشہور ہیں اور اب تلک ان کی یادگار ہیں، ان میں ایک یہی ہے، باقی میں دربار محل، گلزار محل قابل ذکر ہیں.
نور محل 1872 اور 1875 میں نواب صادق محمد چہارم نے تعمیر کرایا تھا. یہ چوالیس ہزار چھ سو مربع فٹ رقبہ پر پھیلا ہوا ہے. اس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں ریت یا کسی اور چیز کے بجائے چاول، دال، مٹی اور چونا استعمال کیا گیا ہے. چاروں اطراف میں بڑے روشن دان اور کھڑکیاں ہیں، جس سے پورا محل روشن رہتا ہے، اس وجہ سے اس کو نور محل کہا جاتا ہے. اس محل میں کل پانچ گنبد اور بتیس کمرے ہیں. اس میں تہہ خانہ بھی بنا ہوا ہے. محل دیکھ کر کاریگروں کی کاریگری اور نوابوں کے حسن ذوق کو داد دینی پڑتی ہے. محل میں نوابوں کا یادگاری سامان اور دیگر اشیاء بھی موجود ہے. آج کل یہ محل مکمل آرمی کے زیر انتظام ہے.
ہم جب پہنچے تو سیاحوں کا بڑا ہجوم تھا، کافی کالجوں اور اسکولوں کے طلبہ اور طالبات نور محل دیکھنے آرہے تھے. قصہ مختصر کہ نور محل کی خوبصورتی اور عمدگی پسند آئی.
پھر ہم وقت بچاتے ہوئے، اگلی منزل کی جانب بڑھے.

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply