میرا دماغ، میری مرضی۔۔یاسر پیرزادہ

ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں، ایک خودکار اور دوسرا سوچنے سمجھنے والا، یہ حصے دو مختلف طریقوں سے کام کرتے ہیں، دماغ کا خودکار نظام الہامی انداز میں چلتا ہے، یعنی جونہی آپ کو کوئی معاملہ پیش آتا ہے، یہ نظام از خود نوٹس لے کر اُس معاملے کی پڑتال کرتا ہے اور پھر آناً فاناً کوئی حل تجویز کر دیتا ہے۔

دماغ کا دوسرا حصہ سوچ بچار کا کام کرتا ہے یعنی جب کوئی گمبھیر مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اسے سلجھانے کے لئے یہ دوسرا نظام بیدار ہو جاتا ہے اور مسئلے کا ہر ممکنہ زاویے سے کھوج لگانے کے بعد دانشمندانہ حل ڈھونڈ نکالتا ہے۔ دماغ کا خودکار نظام فوری ردعمل کے تحت کام کرتا ہے۔

مثلاً اگر آپ ٹرین میں سفر کر رہے ہوں اور ٹرین اچانک خوفناک آواز کے ساتھ رُک جائے تو لامحالہ آپ کی تمام تر توجہ اُس طرف مبذول ہو جائے گی اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کا دماغ یہ سوچنے لگے گا کہ ایسا کیا ہوا کہ ٹرین رُک گئی جبکہ دماغ کے دوسرے حصے پر ہمارے شعور کا اختیار ہوتا ہے اور یہ حصہ مسئلے کی چھان بین کے بعد ہمیں کسی فیصلے پر پہنچنے میں مدد کرتا ہے۔ دماغ کے یہ دونوں سسٹم بہت دلچسپ طریقے سے کام کرتے ہیں۔

مثلاً اگر آپ سے پوچھا جائے کہ ایک بلے اور گیند کی کُل قیمت ایک ڈالر دس سینٹ ہے اور بلّے کی قیمت گیند سے ایک ڈالر زیادہ ہے تو گیند کی قیمت کیا ہوگی؟ فوری طور پر آپ کے ذہن کا خودکار نظام چالو ہو جائے گا اور جواب دے گا، دس سینٹ۔

یہ غلط جواب ہوگا۔ اگر آپ تسلی سے دوبارہ سوچیں گے تو آپ کے ذہن کا دوسرا حصہ جاگ جائے گا اور آپ کو درست جواب بتائے گا جو پانچ سینٹ ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں ہمیں لگتا ہے کہ یہ بہت سیدھا ہے چنانچہ لاشعوری طور پر ہم دماغ کے خودکار نظام کے تحت اسے ڈیل کرتے ہیں جبکہ ضرورت اِس بات کی ہوتی ہے کہ پہلے یہ جان لیں کہ آیا یہ مسئلہ خودکار نظام کے تحت حل ہونے والا ہے یا سوچ بچار کے بعد نتیجہ نکالنے والا! انسانی دماغ کی اِن چالوں کو بےنقاب کرنے کا سہرا نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات ڈینئل کاہنمین کے سر جاتا ہے جنہوں نے یہ دلچسپ تھیوری اپنی کتاب Thinking Fast and Slowمیں بیان کی ہے۔

یہ کتاب ڈینئل کاہنمین کی کئی دہائیوں پر محیط تحقیق کا نچوڑ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کیسے سوچتے ہیں، سوچنے میں کیا غلطی کرتے ہیں اور اِن غلطیوں سے بچ کر زندگی میں درست فیصلے کیسے کیے جا سکتے ہیں۔ جو لوگ یہ راز جاننا چاہتے ہیں اُنہیں یہ کتاب سرہانے رکھ کر سونا چاہیے۔۔۔ بلکہ بہتر ہے کہ سونے سے پہلے وہ اس کا کوئی حصہ پڑھ لیا کریں تاکہ فائدہ بھی ہو سکے۔

ڈینئل کاہنمین کہتا ہے کہ لوگ سوچنے میں عموماً جلد بازی کرتے ہیں، دماغ سے زیادہ کام نہیں لیتے اور حقائق کی تفصیل جاننے کے بجائے چیزوں کو عمومی انداز میں پرکھ کر فیصلے کرتے ہیں جو درست طریقہ نہیں۔

دراصل ہمارے دماغ میں وہ باتیں راسخ ہو جاتی ہیں جن کے بارے میں ہم زیادہ سنتے اور دیکھتے ہیں اور پھر کسی معاملے پر فیصلہ کرتے ہوئے وہی باتیں ’’حقائق‘‘ بن کر ہمارے سامنے آ جاتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کر رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا مثلاً کار حادثے میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی تعداد اُن سے کم ہے جو فالج سے مرتے ہیں لیکن ایک تحقیق کے مطابق اسّی فیصد لوگ اِس کے بر عکس سمجھتے ہیں کیونکہ اُن کے ذہنوں میں کسی حادثے کی خوفناک تصویر زیادہ راسخ ہوتی ہے اور حادثات کی خبریں میڈیا پر ہیجان انگیز انداز میں نشر کی جاتی ہیں۔

اسی طرح کسی معاملے پر ایک ہی قسم کے حقائق کو اگر مختلف انداز میں پیش کیا جائے تو ہمارا فیصلہ بھی مختلف ہوگا، مثلاً اگر ایک دوا کی ڈبیا پر لکھا ہو کہ یہ دوائی بچوں کو فلاں بیمار ی سے بچاتی ہے مگر اِس کا 0.001فیصد امکان ہے کہ اِس سے مستقل معذوری بھی ہو سکتی ہے بمقابلہ یہ دوا بچوں کو فلاں بیماری سے بچاتی ہے مگر اسے کھانے والوں میں ایک لاکھ میں سے ایک بچہ مستقل معذور ہو سکتا ہے تو یہ دوسری والی تنبیہ پڑھ کر ہمارے ذہن میں ایک معذور بچے کا خاکہ بن جائے گا اور ہم شاید یہ دوا استعمال نہ کریں، حالانکہ دونوں جگہوں پر بات ایک ہی کہی گئی ہے۔

ڈینئل کاہنمین نے بہت دلچسپ انداز میں بتایا ہے کہ کیوں ہم لوگ اپنے فیصلوں میں جذبات سے کام زیادہ لیتے ہیں اور عقل سے کم، مثلاً وہ کہتا ہے کہ دو افراد کا تصور کریں جن کے پاس پانچ ملین ڈالر ہیں، اگر اُن کی باقی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں تو دولت کے اعتبار سے انہیں یکساں طور پر مطمئن ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا۔

ایک منٹ کے لئے اِن افراد کا نام زید اور بکر فرض کر لیں، زید کے پاس ایک ملین ڈالر تھا اور بکر کے پاس نو ملین، دونوں لاس ویگاس کے جوا خانے میں گئے اور ایک رات کے بعد جب واپس آئے تو زید کے ایک ملین ڈالر پانچ ملین بن چکے تھے جبکہ بکر چار ملین ہار کر پانچ ملین ڈالر پر آ چکا تھا۔

اب دونوں کے پاس برابر پانچ ملین ڈالر ہیں مگر دونوں کے جذبات یکسر مختلف ہیں اور خوشی برابر نہیں کیونکہ دونوں انسان ہیں، روبوٹ نہیں، کاہنمین نے پھر مزید تفصیل سے یہ بات سمجھائی ہے کہ چونکہ انسان روبوٹ نہیں اسی لئے بعض اوقات جذبات سے مغلوب ہوکر فیصلے کرتا ہے اور عقل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

ہم لوگ آئے دن اپنی زندگیوں میں اہم فیصلے کرتے ہیں اور اپنے تئیں بہت سوچ بچار کے بعد کرتے ہیں مگر ڈینئل کاہنمین کی کتاب پڑھنے کے بعد پتا چلا کہ سوچ بچار اصل میں کیسے کی جاتی ہے، ہم سے کہاں غلطی ہوتی ہے اور اِس غلطی سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ کوئی بھی اہم فیصلہ اُس وقت کریں جب آپ مکمل طور سے شانت ہوں، باقی طریقے جاننے کے لئے مکمل کتاب پڑھیں، یہ کالم کافی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply