لہسن کی بو اور ہم سفر خاتون/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
ظفر کمار کی تعریف کیا کرتا تھا کہ اس نے اکیلے کس طرح تیزی سے اپنا کاروبار جما لیا تھا۔ وہ ایک بار کمار کو مجھ سے ملانے لایا تھا۔ کمار چھ فٹ کا چالیس بیالیس سال کا ہشاش بشاش سنجیدہ شخص تھا جو ڈیل ڈول سے فوجی لگتا تھا

 

 

 

لیکن بنیادی طور پر انڈین پنجاب کے کاروباری ہندو خاندان سے تھا۔ اس نے رسمی طور پر مجھے اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دی تھی چنانچہ میں ایک روز اس کے دفتر پہنچ گیا تھا۔ کہاں میرا متعدد کمروں پر مشتمل مجہز دفتر مگر کاروبار سے خالی اور کہاں کمار کا دفتر جو ایک ہی کمرے پر مشتمل تھا۔ ایک طرف چھت تک کارٹن لگے ہوئے تھے۔ دوسری طرف میز کے ایک جانب کمار بیٹھا تھا اور اس جانب دو کرسیاں رکھی تھیں جن میں سے ایک پر میں بیٹھ گیا تھا۔ میرے بازو میں کمار کی سیکرٹری یا اہلکارہ جو بھی کہہ لیں بیٹھی ہوئی تھی۔ گاہک مسلسل آ رہے تھے۔ ظفر انہیں کارٹن کھول کھول کر ان میں سے  نکال کر سویٹر دکھا رہا تھا پھر ان کی خواہش کے مطابق ان کو مال دیتا جا رہا تھا۔ کمار کو روسی نہیں آتی تھی چنانچہ ظفر ہی لوگوں سے بات چیت کر رہا تھا یا اس کی سیکرٹری کبھی کبھار ان سے دو چار فقروں کا تبادلہ کر لیتی تھی۔ باوجود اس کے کہ کمار زبان نہیں جانتا تھا لیکن اس کے کان، آنکھیں اور دماغ کاروبار کی جانب لگے ہوئے تھے۔میں نے مناسب جانا کہ وہ چائے پیوں جو خاتون نے بنا کر مجھے پیش کر دی تھی اور خاتون سے رہ و رسم بڑھاؤں۔

کمار وہی کام کرتا تھا جو ماسکو میں موجود سارے جالندھری کرتے تھے یعنی سوویت یونین کے زمانے کے روس پر واجب الادا قرض حکومت ہند سے خرید لیتے تھے اور اس کے بدلے روس میں غیر معیاری سویٹر جرسیاں لا کر بیچتے تھے۔ کہنے کو یہ جرسیاں اون کی ہوتی تھیں لیکن تھیں وہ نائلن کی بلکہ شاید پٹ سن کی تاہم اس طرح ہندوستان کے کاروباری لوگوں نے اور ان کے ساتھ تعلقات بنا کر پاکستانی کاروبار کرنے والوں نے خوب پیسہ بنایا تھا۔ مگر مجھے اس سے کیا غرض تھی۔ مجھے کمار کے دفتر میں لڑکی اچھی لگی تھی، جس کو میں ہفتے میں دو ایک بار فون کر لیتا تھا پھر ایک روز اسے اپنے دفتر آنے کی دعوت دے ڈالی تھی۔ لڑکی کو کمار کے دفتر سے کام ختم کرکے میرے دفتر کے نزدیکی میٹرو سٹیشن پہنچنا تھا جہاں میں اسے لینے پہنچا تھا۔ جب وہ سٹیشن سے باہر آئی تو میں نے پہلا سوال وہی کیا تھا جو ملنے کے لیے آنے والی کسی بھی لڑکی سے کیا جاتا تھا کہ وہ کیا پینا پسند کرے گی۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا تھا “وادکا” ۔ ۔ ۔ لڑکیاں عموماً  وادکا پینے کی فرمائش نہیں کرتیں وہ وائن یا شیمپین یا زیادہ سے زیادہ بیئر پینے کا عندیہ دیتی ہیں ۔ ۔ ۔ وادکا پینے کی خواہش سنتے ہی مجھے جھٹکا سا لگا تھا کیونکہ وادکا پی کر خودسپردگی سہل ہو جاتی ہے، جو چھوٹتے ہی رضامند ہونے کی خواہشمند لڑکی کی طلب ہو سکتی تھی۔ الکحل کا کیمیائی اثر یہی ہوتا ہے کہ وہ دماغ کے سامنے کے حصے میں جو معاشرتی امتناعات درج ہوتے ہیں، انہیں عارضی طور پر مٹا دیتی ہے اور یوں انسان ہر وہ حرکت کر لیتا ہے جو شراب نوشی سے پہلے نہیں کر سکتا۔ تاہم میں نے وادکا خرید لی تھی۔ جب ہم دونوں دفتر پہنچنے کی خاطر ٹیکسی میں سوار ہوئے اور کسی لمحے پر میں نے سوچا کہ ابتدائی بوسہ لوں جو ظاہر ہے کہ گال پر ہی لینا تھا، میں نے بوسہ لیا تھا تو مجھے ایک عجیب ناگوار بو کا احساس ہوا تھا۔ یہ بو لڑکی کے منہ سے آ رہی تھی۔ میں نے سوچا ممکن ہے مجھے ایسے ہی لگا ہو۔ دفتر پہنچے تو تھوڑی دیر میں ظفر بھی پہنچ گیا تھا۔ وہ کمار کی اہلکارہ کو میرے ساتھ دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا تھا مگر فوراً  ہی نارمل ہو گیا تھا۔ میں لڑکی کو لے کر اپنے دفتر میں چلا گیا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھی تو میں اس کے ہونٹ چومنے کے لیے جھکا، لڑکی کے منہ سے پھر وہی بو آئی تھی۔ مجھ سے رہا نہیں گیا تھا، “یہ تم میں سے کیسی بو آ رہی ہے؟” میرے استفسار پر لڑکی نے خجل ہو کر بتایا تھا،” میں نے لہسن کھایا ہوا ہے”۔ روس میں لوگ سردیوں میں لہسن کا زیادہ استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ لہسن زکام یعنی فلو ہونے سے بچاتا ہے۔ میں نے اس سے پہلے یہ بو کبھی محسوس نہیں کی تھی کیونکہ گاڑی ہونے کی وجہ سے میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر نہیں کرتا تھا۔ مجھے یہ بو بہت ناگوار لگی تھی اور اب تک لگتی ہے۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ میں لڑکی کو کسی نہ کسی طرح ظفر کے حوالے کرکے، بہانہ بنا کر کار میں بیٹھ کر نکل گیا تھا۔ ظفر کو کہتا گیا تھا کہ میں نینا کے ہاں جا رہا ہوں، مہمان سے خود ہی نمٹ لینا۔

میں نینا کے ہاں پہنچا تھا۔ یہ اتفاق تھا کہ کیا، جب میں نے نینا کو چومنے کے لیے چہرہ آگے بڑھایا تو محسوس ہوا کہ نینا نے بھی لہسن کھایا ہوا تھا۔ مجھے چونکہ آج نہیں آنا تھا، اس لیے نینا نے لاپرواہی برتی تھی۔ میں نے اس رات نینا کو متنبہ کر دیا تھا کہ وہ میرے نزدیک نہ آئے۔ اس رات مجھے بہت کروٹیں لینی پڑی تھیں کیونکہ اتفاق سے گھر پہ وہسکی بھی نہیں تھی، میں تب وادکا نہیں پیتا تھا۔ وادکا روس کے ہر گھر میں ہمیشہ ہی موجود ہوتی ہے چاہے کوئی پیے یا نہ پیے۔ وادکا شراب کم اور دوا زیادہ خیال کی جاتی ہے۔

حالات کے باعث میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نینا کو الوداع کہہ کر الماآتا چلا جاؤں گا اور شولپان کے ساتھ مل کر رؤف کے پاس پھنسی ہوئی رقم نکلوا کر وہیں کوئی اور کام کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں نے اپنا بیشتر سامان ساتھ لے لیا تھا جو بچ رہا تھا، ظفر نے وہ کسی نہ کسی طرح الماآتا بھجوا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ساتھ ہی ظفر نے تسلی دی تھی کہ وہ مقرب تاجک کے ساتھ مل کر دفتر چلانے کی کوشش کرتا رہے گا، اگر حالات بہتر ہوئے تو اطلاع دے دے گا۔

نینا کو دکھ تو تھا لیکن اس نے اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ میری خیر خواہ تھی اور یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ میں محض رؤف سے رقم وصول کرنے نہیں بلکہ کسی اور خاتون کے ساتھ رہنے کی خاطر جا رہا ہوں۔

میں بچت کرنے کی خاطر طیارے کی بجائے ریل گاڑی میں سوار ہوا تھا۔ میں جس کوپے میں تھا اس میں دو مرد اور ایک خوشرو عورت ساتھی تھے۔ عورت اڑتیس چالیس سال کی لگتی تھی لیکن تھی بالکل سمارٹ۔ ماسکو سے الماتا تک سفر چار راتوں اور تین روز کا ہے۔ چھتیس گھنٹے کے بعد جو دن آیا تھا اس روز میری سالگرہ تھی۔ میں ریستوران کار میں جا کر ایک شیمپین کی بوتل خرید لایا تھا اور کوپے میں موجود ساتھیوں کو اپنی سالگرہ میں شریک ہونے کی دعوت دی تھی۔ شناسائی تو شرکائے سفر کے ساتھ ہو ہی چکی تھی۔ بلاشبہ میرا زیادہ انہماک خاتون کی جانب تھا۔ وہ سب خوش ہوئے تھے۔ ایک شخص جا کر ریل بان خاتون سے گلاس لے آیا تھا۔ دوسرے شخص اور خاتون سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں میز پر سجا دی تھیں، میں نے بوتل کھول کر سب کے لیے گلاسوں میں شیمپین انڈیل دی تھی۔ سب نے میرے لیے جام صحت بلند کیا تھا۔ عمر دریافت کرنے پر جب میں نے بتایا “پینتالیس سال” تو کسی نے اعتبار نہیں کیا تھا۔ میں واقعی پینتیس چھتیس سال سے زیادہ کا نہیں لگتا تھا۔ ان کے بار بار شک کرنے پر بالآخر میں نے اپنا پاسپورٹ ان کے سامنے کر دیا تھا جو اس کی عمر پینتالیس سال ہونے کی تصدیق کرتا تھا۔

شیمپین ختم ہونے کے بعد مجھے سگریٹ پینے کے لیے ڈبے کے مخصوص حصے میں جانا تھا۔ وہ کمپنی کے لیے اپنی ہم سفر خاتون کو ساتھ لے گیا تھا۔ اس خاتون میں نینا کی جھلک تھی۔ وہ بھی ہلکے سے خمار میں تھی چنانچہ ہم دونوں نے سگریٹ نوشی کے مقام پر خوب بوس و کنار کیا تھا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ شام تک ریل گاڑی بیکانور پہنچنے والی تھی جہاں خلائی اڈہ تھا جو کزاخستان سے روس نے لیز پر لیا ہوا ہے۔ اس خاتون کا شوہر وہاں میجر تھا۔ بہرحال باوجود خمار نہ ہونے کے ہم شام تک قربت کے خمار میں مبتلا رہے تھے۔ اس خاتون نے اعتراف کیا تھا کہ نہ معلوم اس نے کیوں پہلی بار اپنے خاوند کے ساتھ دغا کیا۔ اُف یہ عورتیں! میں کوئی کاسانووا تو تھا نہیں بلکہ یہ قربت یا دغا بازی شیمپین اور خاتون کے شوہر سے دوری کا نتیجہ تھی۔ جب گاڑی بیکانور پہنچی جہاں کوئی مناسب پلیٹ فارم نہیں تھا اور گاڑی بھی چند منٹوں کے لیے رکنی تھی تو میں نے خاتون کا سامان اس کے خاوند کو پکڑانے میں مدد کی تھی۔ خاوند نے میرا شکریہ ادا کیا تھا اور خاتون نے مضطرب نگاہوں کے ساتھ الوداع۔ مجھے اس خاتون کے ساتھ یہ ملاقات کبھی نہیں بھولتی اگرچہ اس کے خدوخال قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سفر کا باقی حصہ بور گذرا تھا۔ گاڑی صبح پانچ بجے الماآتا ریلوے سٹیشن پر پہنچی تھی۔ میں شولپان کو اپنی روانگی کی اطلاع دے چکا تھا، ساتھ ہی کہا تھا کہ سردیوں کی اتنی صبح مجھے لینے نہ پہنچے میں خود ہی اس کے ہاں پہنچ جاوں گا۔ میں نے ایک ڈیڑھ گھنٹہ مزید سٹیشن پر بتایا تھا اور پھر ٹیکسی لے کر شولپان کے گھر پہنچ گیا تھا۔ میں نے ایک ہی دفعہ ہلکی سی بیل دی تھی۔ شولپان میرے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے فوراً  دروازہ کھول دیا تھا اور مجھے بھینچ کر اپنے گلے لگایا تھا۔ شولپان نے اپنے کمرے میں زمین پر بستر بچھایا ہوا تھا۔ ظاہر ہے گدے میں سے چوں چاں کی آوازیں نہیں آتیں۔ نیند نے کہاں آنا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply