جس دیش میں گنگا بہتی ہے(خریدی، راک ہڈسن اور لوٹا)شکور پٹھان

آج پھر بمبئی جانے کی تیاری زور شور سے ہورہی تھی۔ لیکن آج صرف باجی ، آزاد، آزاد کی چھوٹی بہنیں اور میں ہی جارہے تھے۔
مجھے شادی بیاہ کی رسومات کا زیادہ علم نہیں اس وقت تو بالکل نہیں تھا۔ ہمارے ہاں ایک رسم ہے، شاید آپ کے ہاں بھی ہو، کہ منگنی کے بعد اور شادی سے پہلے، کوئی بھی خاص موقع ہو، جیسے عید بقر عید، یا رمضان، یا کوئی کہیں سفر سے آیا ہو تو منگیتر کے گھر تحائف وغیرہ روانہ کیے  جاتے ہیں۔ رمضان ہو تو افطار بنا کر بھیجی جارہی ہے، عید کا جوڑا لڑکی کے لئے لڑکے والوں کی طرف سے اور لڑکے کے لئے لڑکی والوں کی طرف سے۔ یہ سلسلہ شادی تک چلتا رہتا ہے۔ رمضان اور عید پر کھانے پینے کی چیزیں بھیجی جاتی ہیں جسے ” برتن ” بھیجنا کہتے ہیں ۔ بلکہ زیادہ درست لفظ ” باسن ” بھیجنا کہتے ہیں۔

مجھے اس کا علم آج ہی ہوا تھا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ جس” خریدی” (شاپنگ) سے میں تمام سفر کے دوران چڑتا رہا وہ زیادہ ترمیری اور فوزان کی منگیتروں کے لئے ہورہی ہے۔ فوزان کی بھی منگنی انہی دنوں ہوئی تھی اور اس کی ہونے والی سسرال بمبئی میں تھی۔ اور میری طرح فوزان نے بھی اپنی منگیتر کو نہیں دیکھا تھا، صرف تصویر دیکھی تھی۔ میں نے شاید شروع میں کہا تھا کہ ہمارے ہاں رشتے  ٹاس کی طرح ہوتے تھے۔ لیکن الحمدللّٰہ ٹاس کا نتیجہ زیادہ تر کامیاب شادیوں کی صورت میں آتا تھا۔ پھر ہم بھی ترقی یافتہ ہوگئے۔ اب لڑکے لڑکیاں آکر والدین کو اطلاع دیتے ہیں کہ میں فلاں سے شادی کرنے لگا ہوں ، آپ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ لیکن وہ جو ٹاس والی شادی ایک بار ہوتی تھی، ہمیشہ کےلئے رہتی تھی اور یہ جو اطلاع دینے والی شادی ہوتی ہے ، یہ اطلاعات ایک دو یا کئی بار بھی ملتی ہیں کہ فلاں کی فلاں سے separation ہوگئی۔ یا فلاں کا فلاں سے  افیئر چل رہا تھا اب breakupہوگیاہے۔ یہ الفاظ اس زمانے کی لغت میں موجود ہی نہیں تھے۔ فلاں ، فلاں کی ex ہے اور فلاں آج کل فلاں کے ساتھ courtship کررہا ہے۔ یہ ساری نعمتیں صرف انتہائی مغرب زدہ طبقے کو میسر تھیں لیکن ان دنوں یہ طبقہ دوا میں ڈالنے جتنا بھی نہیں ہوتا تھا۔

یہ پڑھیں  کلیدِ سلطانی۔شکور پٹھان

اور ہاں تحائف صرف لڑکے کے ہاں سے جاتے تھے سوائے عید کے جوڑے کے۔اور ان تحائف کو خوبصورت پیکٹوں میں بھیجا جاتا  تھا  جن  پر  بہنیں یا بھابیاں شوخی کے مارے، بھائی کی طرف سے ‘شمع، اور بیسویں صدی سے چرائے ہوئے ہجر و فراق والے اشعار بھی لکھ دیتیں اور دل میں سے گذرتے تیر کی ڈرائنگ بھی بنا دیتیں اور جب منگیتر انہیں وصول کرتی تو بظاہر تو شرماتی یا بے رخی کا اظہار کرتی لیکن اس کے من میں ہزاروں شہنائیاں  گونج اٹھتیں اور وہ اپنے ان دیکھے ، ہونے والے جیون ساتھی کے تصور میں کھوجاتی۔ الحمدللّٰہ آج ان ‘ فضولیات’ کا وجود نہیں۔ اب engaged دونوں مل کر ہی شاپنگ کرتے ہیں۔ اور فیس بک پر اپنا اسٹیٹس اپڈیٹ کرتے ہیں ” In a relationship” اور جس دن کسی بات پر الجھ پڑیں تو پھر اسٹیٹس اپڈیٹ کرتے ہیں ‘ In a complicated relationship. ‘

نادی ، مبی اور باجی اجمیر، جے پور، آگرہ اور دہلی سے خریدی ہوئی چیزیں ایک سوٹ کیس میں رکھتی جاتی تھیں اور فوزان اس سارے عمل کی نگرانی کر رہا تھا اور چیزیں اٹھا اٹھا کر سوٹ کیس میں ڈلوا رہا تھا ۔
” ارے یہ جوڑا میں اپنے لئے لائی تھی” کوئی احتجاج کرتی
” ارے ڈالو سامان میں۔ تمھیں میں دوسرا لے دوں گا” فوزان کا بس نہ چلتا تھا کہ اپنا دل نکال کر بھیج دے۔
اور میں جو اس شاپنگ سے عاجز آیا ہوا تھا اور میری کل خریداری پیٹھے کا حلوہ اور تاج محل کا ماڈل تھی، میرا سوٹ کیس باجی پہلے ہی بھر چکی تھیں۔
میں نے اپنا سوٹ کیس کھولا جس میں ساڑھیوں، شلوار قمیص کے سوٹ، چوڑیاں اور اللہ جانے کیا کچھ بھرا ہوا تھا اور ان پر ‘چٹیں ‘ لگی ہوئی تھیں۔
” بابو کی دلہن کے لئے۔۔۔۔۔سسٹر کی جانب سے’
بی بی جان کے لئے۔ از طرف فرزانہ
” منی کے لئے، منجانب مبی”
خالو جان کے لئے۔ اسمعیٰل کی طرف سے

اب مجھے ہوش آیا کہ میں ہندوستان سے خالی ہاتھ جارہا تھا، سوائے پیٹھے کے کچھ نہیں خریدا تھا ، گھر جاکر سوٹ کیس کھولتا تو بہن بھائیوں اور گھر والوں کے لئے اس میں کیا ہوتا؟
اور یہ تحفے نہیں تھے۔ یہ ان محبتوں کی نشانیاں تھیں جنھیں میں اس سارے عرصے میں سمیٹتا آرہا تھا۔ یہ تحفے تو بٹ جاتے، ختم ہوجاتے، لیکن ماموؤں اور خالاؤں کے وہ بوسے جو میری پیشانی پر ثبت ہوئے، سسٹر، دیدی ، مبی، نادی کی چھیڑخانیاں۔ بھائی جان، بڑے بھائی، غلام نبی بھائی جان، چاچا ، چاچی، فوزان اور آزاد کے ساتھ گذارے لمحے، زیادہ دیر ہوٹل سے باہر رہنے پر خالو ابا کا فکرمند ہونا، خالہ اماں کا بار بار پوچھنا ” بھوک لگی ہے؟ کچھ نکالیں کھانے کے لئے” اور سفر کی ہنستی مسکراتی یادیں۔
میں خالی ہاتھ نہیں ، بہت کچھ لے کر جارہا تھا، اور ان سے لے کر جارہا تھا جن میں سے زیادہ تر کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ سوائے آزاد کے میری کسی بھی ہندوستان سے باہر ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ہاں بچپن کی بات اور تھی، لیکن اس کو بھی بیس سال گذر چکے تھے۔تب میں ناسمجھ تھا، بچہ تھا، اب بڑا ہوگیا تھا، جب تکلفات کا نام آداب پڑ جاتا ہے اور کوئی “اجنبیوں” سے اس طرح نہیں کھلتا۔ لیکن مجھے تو یہاں آنے کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ لہو کے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں۔سرحدوں، زمان و مکان سے ماوراء۔

” چلو تیار ہوجاؤ۔۔اور اچھی طرح تیار ہونا۔ وہاں فوزان کی بہت سی سالیاں بھی ہوں گی” باجی کی آواز پر میں اپنے خیالوں سے باہر آگیا۔
باجی کو فکر تھی کہ پاکستان سے آیا ہوا میرا بھائی وہاں کسی سے سے کم نہ لگے۔ پھر فوزان بھی ساتھ نہیں جارہا تھا۔ سالیوں سے مجھے ہی نمٹنا تھا۔ اور اس کے لئے اپنے آپ پر اعتماد ضروری تھا اور یہ اعتماد تب آتا جب میں  بہترین حالت میں وہاں جاتا۔ چنانچہ میں اپنے آپ کو ” بنانے، سنوارنے” میں لگ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بمبئی کی زیادہ تر آبادی کی طرح فوزان کی سسرال والے بھی ایک ” چال”(Chawl) نما فلیٹ میں رہتے تھے۔
یہاں بہت ساری لڑکیاں تھیں، جو زیادہ تر ہماری ہم عمر ہی تھیں اور سب فر فر انگریزی بولتی تھیں۔ اورن ایک قصبہ تھا اور وہاں سارے ہماری برادری ہی کے لوگ رہتے تھے چنانچہ وہاں اردو اور کوکنی ہی کا چلن تھا۔ مجھے تنہا ان لڑکیوں سے نمٹنا تھا اور انگریزی میں نمٹنا تھا۔

انہیں ہمارے آنے کی پیشگی اطلاع تھی چنانچہ منگیتر کی ساری کزنز وغیرہ جمع ہوگئی تھیں۔ انہیں امید تھی کے فوزان آئے گا اور وہ اپنے ہونے والے جیجا جی سے چھیڑخانیاں کریں گی۔ آزاد باجی کے ساتھ تھے اور ویسے بھی ذرا سنجیدہ طبیعت کے تھے۔ اب ان کزنز کا نشانہ میں تھا اور مجھے فوزان کی نمائندگی کرنا تھی۔
ہمارے سامنے چائے کے ساتھ انواع واقسام کے لوازمات سجے ہوئے تھے۔ اور بار بار حجّت کی جاتی کہ یہ لیں،یہ چکھیں، یہ اس نے بنایا ہے۔
ہندوستان اور خاص کر اورن کے کوکنیوں کی ایک صفت، حجّت کرنا بھی ہے۔ اس قدر خاطرومدارت کریں گے اور ہر چیز پر اتنا اصرار کریں گے کہ مہمان عاجز آجائے۔ لیکن یہی میزبان جب کسی کے ہاں مہمان بن کے جاتے ہیں تو شرم کا گھونگٹ کاڑھ لیں گے اور کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں گے حتّٰی کہ میزبان ان کی پلیٹ میں نہ ڈالے اور حجت نہ کرے۔
شادی بیاہ میں بھی جب تک سمدھیانے والوں کو نام بنام اٹھا یا نہیں جائے کوئی اپنی جگہ سے نہیں اٹھتا۔
اور میزبان اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ کسی کو کہنے سے نہ چوک جائے۔
اس کے برعکس کراچی میں ہمارا یہ حال ہے کہ سب کچھ مہمان کے سامنے دھر دیا ہے کہ لیجیے ! تناول فرمائیے۔ اور مہمان بھی زیادہ تکلف کا مظاہرہ نہیں کرتا کہ وہ آیا ہی کھانے کے لئے ہے، اور میزبان نے بنایا ہی کھلانے کے لئے ہے تو تکلف کیسا۔ گھروں کی دعوتوں  میں تو پھر بھی رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ ہوتا ہے لیکن شادی کی دعوت میں تو ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے، کھانا کھلتے ہی یوں ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے یہ شاید آخری کھانا ہو۔

بندہ بشر ہے لیکن آج پھر بڑے غلط موقع پر بشری تقاضے نے مجبور کیا۔ لیکن اس وقت اتنا ‘ بڑا’ کام نہیں تھا اور حالات اس قدر دگرگوں نہیں تھے۔
میں دبے لفظوں میں پوچھا ” واش روم کہاں ہے”
‘ ارے آئیں ، ادھر آئیں ” فوزان کی ایک سالی مجھے دروازے کے پاس کھڑا کر گئی۔ کچھ دیر بعد اندر سے پانی سے بھرا ایک لوٹا لاکر مجھے تھماتے ہوئے چال کے آخری سرے کی جانب اشارہ کیا کہ ” وہ، وہاں”
فلموں میں اور تصویروں میں پیاسے مسافر کو پنگھٹ پر گاؤں کی گوری کے سامنے ہاتھوں کے اوک بنائے، گوری کے ہاتھو ں میں دھرے ڈول سے پانی پیتے تو بہت دیکھا تھا جب ، پردیسی تشکر سے گاؤں کی الھڑ مٹیار کو دیکھتا ہے اور دونوں کی نظریں ملتی ہیں اور پہلی نظر کے اس تیر کا اختتام عشق، محبت، شادی اور بالآخر کثرت اولاد پر جا کے ہوتا ہے۔
لیکن یہ لوٹا لیتے ہوئے میرے ہاتھ کپکپا رہے تھے اور نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ عفیفہ تو لوٹا تھما کر واپس مڑ گئیں اور میں چال کے اس سرے سے اس سرے تک اور وہاں سے اگلے سرے تک دیکھا جہاں مجھے بتایا گیا تھا کہ ‘ وہ، وہاں’
میں نے یہاں آنے کے لئے تیار ہونے پر سارا زور لگادیا تھا۔ اپنی سب سے بہترین تراش کی چست جینز، اس پر اس زمانے کے فیشن کی ڈیزائنر ٹی  شرٹ اور پیروں میں ڈیڑھ انچ اونچی ہیل اور نوکدار ‘ٹو’ والے جوتے۔ میں اپنے آپ کو راک ہڈسن سے کم نہیں سمجھ رہا تھا۔
اور پھر راک ہڈسن نے اپنے ہاتھوں کا لوٹا دیکھا، چال کے اس سرے سے اس سرے تک، اور اس سرے سے آخری سرے تک دیکھا جہاں نہ صرف اوپری منزل اور نچلی منزل بلکہ آس پاس کے تمام فلیٹوں کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور پوری چال کو علم ہوتا تھا کہ کس کے ہاں کون آیا اور کب گیا۔ کچھ کھڑکیوں اور دروازوں سے کئی آنکھیں اس طرف تھیں جہاں راک ہڈسن لوٹا اٹھائے کھڑا تھا اور اب جب یہ لوٹا لئے اس سرے سے اس سرے، اور اس سرے سے آخری سرے تک جائے گا تو تمام نظریں ساتھ ساتھ سفر کریں گی.
میرے اندر کے ” ہیرو ” نے اپنا لوٹے سمیت جلوس نکلوانے سے انکار کردیا۔ واپسی میں کسی مسجد یا سنیما میں چلا جاؤں گا لیکن یہاں، ان نگاہوں کے جلوس کے ساتھ ہرگز نہیں۔ میں واپس اندر کی جانب پلٹ گیا۔
‘ ہائیں کیا ہوا، ”
” اتنی جلدی ہوگیا.
” کیا ہوا! گئے ہی نہیں؟”
میں نے جھکی، جھکی نظروں سے اور دبی دبی سی آواز میں کہا کہ اتنی خاص ایمرجنسی نہیں ہے۔ اور یہ کہ اس تنگ پتلون میں ذرا مشکل ہوگی”
” کوئی بات نہیں’ یہ کوئی بزرگ خاتون تھیں۔
جو گفتگو ہم کراچی میں اشارے کنائے میں کرتے ہیں۔ وہاں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔
اور واپسی پر مبی نادی بھی حیران تھے کہ میں واپس کیوں آیا۔

آپ نے کبھی وحید مراد یا شاہ رخ خان کے ہاتھ میں لوٹا دیکھا ہے؟ آپ اگر راک ہڈسن ہوتے تو کیا کرتے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الو داعی مناظر اور الو داعی لمحات میرے لئے ہمیشہ جاں گزیں ہوتے ہیں۔ اور بائیس سال کی عمر سے ان لمحات سے گذرتا آرہا ہوں۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ اس منظر سے بچوں۔ جب چھٹیوں سے واپس جاتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو آخر تک مصروف رکھوں ، پھر اچانک سب کو خدا حافظ کہہ کر نکل جاؤں۔
اور میں آپ کا جی بھی بھاری نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ کیا ہوا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باجی اور آزاد کے علاوہ صرف فوزان میرے ساتھ بمبئی آیا تھا۔ باجی کی ہدایات اور گھر والوں کے لئے پیغامات ختم ہی ہونے میں نہ آتے تھے۔
سہار ایرپورٹ پر ہم ایمبیسیڈر سے سامان اتار رہے تھے کہ سامنے چھوٹے خالو، اے سلام ، کھڑے نظر آئے۔ وہ مجھ سے ملنے آور خدا حافظ کہنے آئے تھے۔ میں نے بتایا تھا ناں کہ وہ فلموں میں ہدایتکاری کرتے تھے۔ اور یہ وہی خالو تھے جو مجھے چھت پر بٹھا کر دنیا جہاں کی باتیں کیا کرتے تھے، انہیں آٹھ سالہ بچے کے منہ سے اردو سن کر لطف آتا تھا۔
وقت کم تھا۔ خالو بھی جلدی میں تھے۔ میں نے فوزان، آزاد اور باجی کوخداحافظ کہا اور ایر پورٹ کی عمارت میں داخل ہوگیا۔

ان دنوں پی آئی اے نے سکیورٹی کے لئے طریقہ کار اختیار کیا تھا کہ آپ کا سامان جہاز میں لوڈ کرنے سے قبل سیڑھیوں کے پاس راکھ کر شناخت کروائی جاتی تھی۔ جب مسافر اپنے سامان کو پہچان لیتا وہ جہاز میں داخل ہوجاتا ۔ لیکن اگر کوئی سامان شناخت ہونے سے رہ جائے تو جب تک اسے شناخت نہیں کیا جاتا جہاز پرواز نہیں کرتا۔
اور میرے ساتھ دوسرا ہی مسئلہ ہوگیا۔ میرا سوٹ کیس ہی جہاز کی سیڑھیوں کے پاس موجود نہیں تھا۔ مجھے واپس چیک ان کاؤنٹر پر بھیج دیا گیا کہ شاید سوٹ کیس وہیں رہ گیا ہو اور میں شناخت کرسکوں۔
وہاں کچھ نہیں تھا۔ ایرپورٹ کے ایک افسر نے کہا کہ سامان میری شناخت سے پہلے ہی لوڈ کیا جا چکا ہے، اس نے ایک ہرکارہ میرے ساتھ کیا کہ انہیں جہاز کے سامان والے حصے میں لے جاؤ کہ یہ اپنے سوٹ کیس کو پہچان سکیں۔
یہ ایک غریب سا لڑکا تھا جو لنگڑا کر چل رہا تھا، میرا سامان جلد ہی نظر آگیا۔ اس نے نیچے آکر بتایا کہ صائب کا سامان مل گیا ہے۔ میں نے افسر کا شکریہ ادا کیا اور جہاز کی طرف جانے لگا۔ وہ وہیں کھڑا میری شکل دیکھ رہا تھا۔
” اب بھی کچھ باقی ہے، یا میں جاؤں” میں نے استفسار کیا۔
” صائب ۔ کچھ ہمارے چائے پانی کے لئے؟”

میں نے جیب سے سارے بچے کھچے بھارتی کرنسی نوٹ نکالے اور اس کے حوالے کردیے۔

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جس دیش میں گنگا بہتی ہے(خریدی، راک ہڈسن اور لوٹا)شکور پٹھان

Leave a Reply