بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا/عامر الیاس

؎ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جناب صدر و حاضرین کرام! السلام علیکم۔ آج کتاب سے محبت کرنے والوں کا عالمی دن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

آج کے دن کی نسبت سے، میں ان تمام علماء، اساتذہ، ادباء اور شعرا کو فیس “بک “ کے توسط سےخراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے زندگی بھر کتابوں سے بے پناہ محبت کی۔ گرچہ چند ایک دھرم پدیشوں کو دیکھ اور سن کر یہ ضرور خیال آیا، کاش! انہوں نے یہ محبت نہ کی ہوتی تو ہمارے ملک میں بھی زندگی گلزار ہوتی۔ اس کے باوجود آج کل کی مادہ پرست دنیا میں یہ لوگ غنیمت ہیں جنہیں کتاب سے شغف ہے۔
جناب صدر! اس پر مسرت موقع پر ، میں اپنے ان چند دوستوں اور جاننے والوں کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا جنہیں میں نے کتابیں پڑھتے اور ان سے بے غرض محبت کرتے دیکھا۔
صدر ذی وقار! میری زندگی میں آنے والا وہ پہلا شخص، جسے میں نے کتابوں کا عاشق پایا وہ میرے ساتھ چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک دن ، اس نے میرے سامنے اپنا بستہ کھولا تو میں نے دیکھا کہ اس کا بستہ “ٹارزن قید خانے میں”، “ظالم دیو اور ننھا شہزادہ”، “بدیسی خط اور بونگا بخیل”، “الٹا منتر” اور “پاگل گدھے کی موت” جیسی بچوں کی کہانیوں کی چھوٹی چھوٹی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ اتنی کتابیں اس نے کیوں اور کہاں سے خریدی ہیں؟ جس کا جواب اس نے یہ دیا کہ یہ تمام کتابیں اس نے مختلف کتابوں کی دکانوں سے چوری کی ہیں کیونکہ اسے ان سے محبت ہے ۔ اور محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ اگرچہ وہ چور تھا لیکن سچا شخص تھا۔ مجھے ایسے عظیم کتابی عاشق سے مل کر انتہائی خوشی ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ اس دن چھٹی کے بعد جب میں سکول سے گھر واپس پہنچا تو میرے بستے میں اردو کی کتاب موجود نہیں تھی۔ شاید چوری ہوگئی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جناب صدر! اس کے اگلے چار پانچ سال ، اپنے ایک آدھ استاد کو چھوڑ کر مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جسے کتابوں سے پیار ہو۔ میرے اردگرد موجود خواتین و حضرات، کبھی کبھار کورس کی کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے یا چند ایک “جنتری” پڑھ کر اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے میں لگے رہتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک آدھ نے شاید ذکر کیا تھا کہ اس نے دو کتابیں “بہشتی زیور” اور “مرنے کے بعد کیا ہوگا” پڑھ رکھی ہیں اور یوں اسے زندگی گزارنے کے فن سے بہتر یہ معلوم ہے کہ جب وہ مرے گا تو اس کا سفر کیسا ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ہاں جناب صدر! جب میں کالج پہنچا تو میری دوستی ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے ایک دن اچانک ہمیں بتایا کہ کل اس نے اپنی زندگی کا پہلا انگریزی ناول پڑھا ہے۔ یہ ناول جارج اور ویل کا “اینیمل فارم” تھا۔
جناب صدر، یہ سن کر اگر آپ کے ذہن میں “پاکستان” آرہا ہے تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ خیر ، اگلے دن اس دوست نے ہم نالائقوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا اور ہم تمام دوستوں کو اس ناول کی ساری کہانی زبردستی سنائی ۔ جب وہ ساری کہانی سنا چکا تو ہم نے اسے بتایا کہ یہ ناول پڑھ کر تم اپنے وطن کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے ہو۔ اس لئیے بطور سزا، اس سے قسم اٹھوائی کہ پہلی بات ہے آئندہ وہ کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھے گا اور دوسرا، اگر کبھی کوئی کتاب اس نے پڑھ بھی لی تو ہمیں نہیں سنائے گا۔ گرچہ اس نے قسم کے پہلے حصے پر عمل نہیں کیا لیکن جونہی وہ باتوں باتوں میں “جین آسٹن” یا “جارج ایلیٹ ” کا نام لیتا ہم اسے چپ کرا دیتے اور یوں راوی چین لکھتا۔
آج کل ہمارا یہ دوست ایک کالج میں پروفیسر ہے۔ ہم سب دوستوں کا یہ یقین ہے کہ یہ کتابوں کی ہی برکت ہے جو وہ ابھی تک زندہ ہے ۔ ورنہ طلاق اور پھر بچوں کے باہر چلے جانے کے بعد ،اس کا مجرد اور فاقہ کش زندگی گزارنا اس کے لئیے مشکل ہو جاتا اور وہ “Veronica decides to die”پڑھنے سے پہلے خود کشی کر چکا ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جناب صدر!اسے میری خوش قسمتی کہیئے یا پھر بدقسمتی، کالج میں دو سال گزارنے کے بعد سے لے کر آج تک مجھے بیسیوں ایسے لوگ ملے جو عاشقِ کتب تھے۔ ان میں سے چند سچے عاشق تھے اور باقی سب جھوٹے۔ لیکن سچوں اور جھوٹوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان دونوں طرح کے لوگوں نے زندگی بھر نہ خود چین لیا اور نہ ہی کسی اور کو لینے دیا۔
جناب صدر، یہاں میں اپنے ایک اور دوست کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس کی جغرافیہ کے مضمون کے ساتھ محبت کی ایک دنیا گواہ ہے۔ میرا یہ دوست اپنے حلقہ احباب میں افلاطون کے نام سے مشہور ہے۔ افلاطون اس چمن میں پیدا ہونے والا وہ دیدہ ور ہے جس کا ہر نرگس نے ہزاروں سال انتظار کیا۔ اس لئیے اسے نرگسیت کا مرض بھی لاحق ہے۔ کاش وہ سو دو سو سال پہلے پیدا ہو جاتا تو یقین جانئیے برصغیر کا یہ جغرافیہ نہ ہوتا اور ہماری جوانی بھی پر سکون گزرتی۔
جناب صدر، افلاطون کا کہنا ہے ، اس نے “جغرافیہ” کی سینکڑوں کتابیں پڑھیں ہوئی ہیں۔ اگرچہ ہم اکثر دوستوں کا اس کے اس دعوی سے اختلاف ہے ۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جغرافیہ، سیاسیات ، اسلامیات وغیرہ وہ مضامین ہیں جن کا سلیبس میٹرک سے لے کر ایم تک تقریباً ایک ہی ہے۔ آپ جو ایف میں پڑھتے ہیں وہی بی اے اور ایم میں پڑھتے ہیں۔ اس لئیے اس مضمون پر سینکڑوں کتابیں کہاں ہوں گی جو افلاطون نے پڑھ رکھی ہیں۔ بہرحال اس کے علم کو دیکھتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں اس نے باقیوں سے کچھ زیادہ جغرافیہ پڑھ رکھا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
کالج دور میں ہی افلاطون کو اپنے مضمون پر عبور حاصل تھا۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ وہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور اس کے اردگرد کے دوسرے ممالک جیسے جاپان، آسٹریلیا وغیرہ کو بہت بہتر جانتا ہے۔ وہاں کہ باشندوں کو بھی اپنے جغرافئیے کا اتنا علم نہیں ہے جتنا اسے ہے۔
ایک دن ہم نے اسے چیلینج کیا کہ اگر تم کالج کے شعبہ جغرافیہ کے سربراہ سے کوئی ایسا سوال پوچھو کہ وہ لاجواب ہوجائیں تو ہم تمہیں اپنا استاد مان لیں گے۔ اور جناب صدر، افلاطوں نے اسی دن ان سے ایک ایسا سوال پوچھ لیا جس نے پورے جغرافیہ ڈیپارٹمنٹ کو لاجواب کر دیا۔
اس دن ہم سب پروفیسر صاحب سے ملنے اسٹاف روم گئے جہاں ان کے علاوہ، دوسرے اساتذہ بھی علم تقسیم کرنے جیسے تھکا دینے والے سخت کام کے بعد صوفوں پر استراحت فرما رہے تھے۔ بعد ازآداب و تسلیمات ، افلاطون نے ان سے سوال کیا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں زمین ایک گھنٹے میں ساڑھے اٹھائیس ہزار کلو میٹر گھوم جاتی ہے جو کہ سات کلومیٹر فی سیکنڈ بنتی ہے۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ جب جہاز فضا میں بلند ہوتا ہے تو اس کے نیچے انتہائی تیزی سے زمین گھوم کیوں نہیں جاتی؟ اور یوں کراچی جانے والا جہاز جنوبی افریقہ کیوں نہیں پہنچ جاتا؟ افلاطون کا سوال سنتے ہی، اسٹاف روم میں قہقہہ گونجا جب کہ پروفیسر صاحب لاجواب ہوگئے۔ اپنی ہزیمت چھپانے کے لئیے ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا ، “کہیں تم خود وہ جہاز تو نہیں ہو، جس کے نیچے سے زمین تیزی سے گھومتی رہتی ہے؟۔” واللہ اعلم بالصواب۔
تو حضور والا، چاہے آپ افلاطون کو جہاز کہیں ، مورکھ کہیں یا احمق ۔ اس کے ایسے سوالوں نے ہم جیسوں کو ایسا متاثر کیا کہ ہم نالائق و جاہل ایک عرصے سے اس کے گرویدہ ہیں۔ اب یہ عالم ہے، ہمیں اس کے جغرافئیے کے علم پر اتنا اعتبار ہو چکا ہے کہ وہ اگر دن کو رات اور رات کو دن کہے تو ہم تسلیم کر لیتے ہیں۔ چوں بھی نہیں کرتے۔
جناب صدر، مجھے اندازہ ہے کہ آپ انتہائی مصروف ہیں، اس لئیے میں آپ کا مزید وقت نہیں لوں گا۔ ہمارا وقت بھی پورا ہو چکا ہے۔ یار زندہ صحبت باقی۔اگر آپ جیل نہ گئے تو آپ سے کبھی کسی لائبریری یا پھر آپ کے ہسپتال میں ملاقات ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
شکریہ۔
(کل نو اگست ، book lover dayکے موقع پر پڑھا گیا)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply