تن سے من کا سفر

انسان کے اندر بہت سی خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں لیکن سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خود احتسابی و خود شناسی سے بہراور ہو,اور اپنی خامیوں سے متعارف کرانے والوں کا دل کی وسعتوں سے سامنا بھی کر سکے اور ان کو دور بھی کرے,اور ایسے ہی سب سے بڑی خامی بھی یہی ہے کہ وہ خود احتسابی و خود شناسی سے روگردانی کرنے والا ہو۔آج ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا اور اہم سبب بھی خود احتسابی و خود شناسی سے دوری ہے,ہم لوگ لاکھ کوشش کرتے ہیں گناہوں سے دور رہنے کی لیکن اس کے باوجود بھی ہم سے ایسے ایسے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں جن سے ہمیں بہت زیادہ شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ،آخر اس کی کیا وجہ ہے بچنے کے باوجود بچ نہیں پاتے ۔

یاد رکھیے جب تک ہم اپنے اندر کے شیطان کو نہیں پہچانتے اور اس کا صد باب نہیں کرتے تب تک ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے,کیوں کہ گناہوں کی اصل جڑ اور بنیاد ہمارے اپنے اندر کا شیطان ہے, کیوں کہ انسان کے اندر دو قوتیں ہوتی ہیں ، ایک قوت انسانیت کی اور ایک قوت شیطانیت کی،انسانیت شیطانیت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے،اس وقت تک جب تک انسان اس کو جگائے رکھے اس کی تجدید کرتا رہے,جب انسان اپنے اندر پنپنے والی انسانیت کو بیدار کرنا چھوڑ دے اس کی تجدید چھوڑ دے,تب اس کے اندر کی شیطانیت جاگ اٹھتی ہے,پھر جب شیطانیت جاگتی ہے تو انسانیت مر جاتی ہے،اور جب انسانیت مرتی ہے تو اپنے ساتھ بہت سی چیزیں لے جاتی ہے جن میں سرِ فہرست حیاء آتی ہے,تب انسان کو اس کے برے افعال بھی اچھے لگتے ہیں ,وہ سمجھتا ہے وہ جو کچھ بھی کرتا ہے سب اچھا ہے۔

حدیث پاک میں آتا ہے۔۔
’’جب تم میں حیاء ختم ہو جائے تو جو چاہے کر‘‘
مختصر یہ کہ انسانیت اپنے ساتھ سب اچھی خصلتیں لے جاتی ہے اور انسان کے اندر صرف شیطانیت بچ جاتی ہے,اور پھر جب یہ شیطانیت اٹھتی ہے تو انسان کے اندر توڑپھوڑ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یاد رکھیں انسانیت کی پرورش تو آپ کو خود کرنی پڑتی ہے لیکن، شیطانیت اپنی پرورش کے رستے خود بناتی ہے بس اس کی ڈھال یہ جسم ہوتا ہے اس شیطانیت کی مرغوب غذاؤں میں سے انسانوں کی عزتیں اچھالنا اور ان کی لاشوں کے مینارے بنانا ،ان کو تعلیم سے دور کرنا ،ان کے اندر سے حسن اخلاق کو لے اڑنا ،الغرض ہر اچھی چیز کو ختم کرنا ہوتا ہے،اس لیے ڈریں اس وقت سے جب آپ کے اندر کی انسانیت مر جائے ،وقتا فوقتا اس کی پرورش کرتے رہیں،اور اس کی پرورش کا آسان طریقہ یہی ہے کہ لوگوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں لوگوں کی خوشی کو اپنی خوشی جانیں,ان کی خوشی کے اسباب پیدا کریں,ان کے دکھ کا مداوا کریں,جب آپ یہ سب لوگوں کے لیے کریں گے تو یہی سب کچھ لوگ آپ کے لیے بھی کریں گے۔

اورشیطانیت کو نیست و نابود کرنے کے واسطے ہمیں خود احتسابی و خود شناسی کا ہتھیار استعمال میں لانا ہوگا تب جا کر ہم ایک اچھا معاشرہ تشکیل دے پائیں گے,اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیوں کہ جب ہم خود احتسابی کا ہتھیار استعمال میں لائیں گے تو پھر ہمیں اور کسی بھی ہتھیار کی ضرورت نہیں رہے گی,اور نہ ہی کسی انقلاب کو کنیڈا سے منگوانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی ڈی چوک کو بلاک کرنے کی۔جب ہم اپنے اندر ایک چھوٹے سے انقلابی کو سما لیں گے جس کا نام خود احتسابی ہے توپھر ہم سب کی یہ چھوٹی چھوٹی خود احتسابی انقلابیاں مل کر ایک بڑے انقلاب کا روپ دھار لیں گی اور پھر وہ انقلاب ایک نیا معاشرہ تشکیل دے گا۔

ایسا معاشرہ جس میں نہ تو کسی بہن بیٹی اور ماں کو ایک وحشیہ بننے دیا جائے گا اور نہ ہی کسی بھائی باپ اور بیٹے کو دلال بننے دیا جائے گا، وہ انقلاب بھکاریوں کے ہاتھوں میں کشکول کی جگہ ہاتھ تھما دے گا وہ ہاتھ جو ایک سہارا ہوگا،ایک لاٹھی کی صورت بن کر ہمارے بوڑھوں کا سہارا ہوگا ,ہمدردی کا روپ دھار کر ہمارے غریبوں کا مسیحا بنے گا ،ان لوگوں کے لیے کام کرے گا جو مفلسی و ناداری کے سبب گداگری جیسی لعنت کو اپنی گردن کا طوق بنائے پھرتے ہیں.

 

وہ انقلاب ان ماؤں کا بیٹا بنے گا جن کے بیٹے کسی دھماکے میں اڑا دیے جاتے ہیں، جہیز جیسی لعنت کو اپنے معاشرے سے نکال پھینکے گا جس کی بدولت بہنیں اکثر اپنے بالوں میں سفید چاندی اگا لیتی ہیں، عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے ان والدین کا سہارا بنے گا جو کچھ نہ ہونے کے سبب اپنی اولادوں کے رشتے نہیں کروا سکتے ،ایک طوائف کو کوٹھے سے اٹھا کر ایک گھر میں بٹھائے گا ، کسی ماں کی کوکھ کو اجاڑے گا نہیں بلکہ ایک ماں کی کوکھ کو بسائے گا ، کسی بہن سے اس کا بھائی چھینے گا نہیں بلکہ اس کو اور مضبوط بنائے گا، ایک مولوی کی دوڑ کو صرف مسجد تک نہیں رکھے گا ،بلکہ امور دنیا میں بھی اسے ساتھ ساتھ لے کر چلے گا ،وہ انقلاب اقبال کے شاہینوں کو حقیقی معنوں میں معمار ملت بنائے گا، کسی بوڑھے کو خودسوزی کی اجازت نہیں دے گا، بوڑھوں کو اولڈ ہوم سے نکال کر اولاد کے لیے راہ نجات کا سبب بنائے گا،پھر وہ انقلاب برائے نام انقلاب نہیں ہوگا جو معاشی بحران کا سبب بنے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن یاد رکھو ایسا انقلاب صرف اور صرف خود احتسابی و خود شناسی کی قربانی مانگتا ہے ،جب ہم لوگ یہ قربانی دیں گے تو پھر ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے سکیں گی جس کی آب و ہوا میں بارود کی بو نہیں بلکہ خوشیوں اور بہاروں کی خوشبو ہوگی جو ہماری زندگیوں کو مہکادے گی۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی ،
تو میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن !

Facebook Comments

محمد مجیب صفدر
اپنی ہی ذات میں مگن اپنی ہی تلاش میں رہتا ہوں جب خود سے ملاقات ہو گی تو تعارف بھی ہو جائے گا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply