ڈاکٹر ملک انور صاحب، حیات و خدمات۔۔عنائیت اللہ کامران

ڈاکٹر ملک انور صاحب ضلع میانوالی کے معروف سرجن تھے۔ نہایت مخلص اور ملنسار، پیشہ ورانہ فرائض کے حوالے سے انتہائی دیانت دار۔ بحیثیت معالج ان کی دیانت داری اور اخلاص کے واقعات ہیں جو بیان کیے  جا سکتے ہیں لیکن میں ایک واقعہ کا یہاں ذکر ضروری سمجھتا ہوں جس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔

ڈاکٹر صاحب کے پاس کسی گاؤں کا ایک مریض ڈاٹسن پر لایا گیا، مریض کے لواحقین کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے اور انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ مریض فلاں ڈاکٹر کے پاس زیر علاج تھا، اس نے بتایا کہ اسے اپنڈکس ہے اور فوری طور پر اس کا آپریشن کرنا پڑے گا (لواحقین آپریشن نہیں کرانا چاہتے تھے) مریض کو زبردستی یہاں لے آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے کمرے سے باہر نکل کر مریض کا معائنہ کیا اور لواحقین کو کہا کہ اسے کمرے میں لے جائیں۔ ایک دو گھنٹے بعد آپ کا مریض اپنے پاؤں پر چل کر گھر جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے سٹاف کو ادویات کے بارے میں ہدایات دیں۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد مریض کے لواحقین نے کہا کہ مریض کو بھوک محسوس ہو رہی ہے، حالانکہ کچھ دیر پہلے وہ درد سے بے حال تھا، اور واقعی مریض اپنے پاؤں پر چل کر کمرے سے باہر نکلا اور مطمئن ہو کر گھر روانہ ہوا۔ اگر ڈاکٹر صاحب لواحقین کو آپریشن کا کہہ  دیتے تو یقیناً وہ اس پر آمادہ ہو جاتے لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے پیشہ سے بددیانتی کرنا گوارا نہیں کیا۔

ڈاکٹر ملک انور صاحب اپنے کلینک (سارہ کلینک) پر روزانہ ایک دو گھنٹے صرف ضرورت مند(غریب) اور مستحق افراد کے لیے مختص رکھتے تھے۔ ان اوقات میں وہ مستحق مریضوں سے فیس وصول نہیں کرتے تھے۔ بعض اوقات ادویات بھی اپنے پاس سے فراہم کردیتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب کی ایک سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے ہسپتال میں صرف معیاری کمپنیوں کی ضروری ادویات ہی رکھتے تھے اور مریضوں کو غیر ضروری ادویات لکھ کر نہیں دیتے تھے۔ عموماً میڈیکل ریپس کے ساتھ ملاقات نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان کے کہنے پر پریسکرپشن کرتے تھے۔ اگر ملاقات کرتے بھی تھے تو صرف انتہائی ضروری ادویات کا ہی آرڈر دیتے تھے۔

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم قاضی حسین احمد ایک بار میانوالی تشریف لائے تھے تو انہوں نے ڈاکٹر ملک انور صاحب کو جماعت اسلامی میں شمولیت کی دعوت دی، اور انہیں براہ راست جماعت اسلامی کا رکن بنایا تھا۔

ڈاکٹر صاحب بہت کم عرصے میں جماعت کی اولین صفوں میں نظر آنے لگے۔ وہ امیر ضلع منتخب ہوئے اور مرکزی و صوبائی مجلس ہائے شوریٰ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب نے تحریک کے لیے کسی بھی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا۔جماعت کے پاس اپنی گاڑی نہیں تھی تو ڈاکٹر صاحب بوقت ضرورت اپنی گاڑی استعمال کے لیے فراہم کرتے تھے۔ وہ کچھ عرصہ الخدمت فاؤنڈیشن ضلع میانوالی کے صدر بھی رہے جبکہ سیاسی کمیٹی جماعت اسلامی ضلع میانوالی کے صدر بھی رہے۔ ان کے تعلقات بہت وسیع تھے اور اپنے ان تعلقات کا انہوں نے 2000ء، 2001ء کے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے موقع پر بھر پور استعمال کیا جس کا فائدہ جماعت اسلامی کو سیاسی طور پر اس طرح ہوا کہ جماعت بحیثیت سیاسی پارٹی تقریباً 150 نشستوں کے ساتھ ضلع بھر میں نمایاں تھی۔(ڈسٹرکٹ پریس کلب میانوالی میں ڈاکٹر کیپٹن محمد شاکر چیئرمین احتساب گروپ نے 210 منتخب کونسلرز و ناظمین، نائب ناظمین شو کئے تھے)ضلع ناظم کے لئے انتخابات میں ڈاکٹر صاحب کو نائب ضلع ناظم کا امیدوار نامزد کیا گیا۔ وہ اس انتخاب میں بہت تھوڑے ووٹوں سے ہارے تھے۔

مشرف دور میں ادویات پر 15 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ کے خلاف جماعت اسلامی نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔ یہ غالباً 29 مارچ 2002ء بروز جمعہ کا واقعہ ہے۔ میونسپل کمیٹی میانوالی کی جامع مسجد کے باہر جماعت اسلامی نے احتجاج کا پروگرام بنایا تھا۔ جیسے ہی نماز جمعہ کے بعد کارکنان باہر نکلے اور مظاہرے کے آغاز کے لئے اس وقت کے امیر ضلع عبدالرحمن خان باہی مرحوم نے خطاب شروع کیا پولیس کی بھاری نفری نے بہیمانہ لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ گرفتاریاں شروع کر دیں۔ جماعت کی تقریباً تمام ضلعی قیادت اس وقت گرفتار کر لی گئی، گرفتار ہونے والوں میں ڈاکٹر ملک انور صاحب بھی شامل تھے۔ راقم اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہے۔

ڈاکٹر ملک انور نے ساری زندگی لوگوں کی خدمت کی۔ انہوں نے اپنے پیشہ کو دولت بنانے کے لئے استعمال نہیں کیا۔ وہ چاہتے تو آج کل کے نام نہاد مسیحاؤں کی طرح کوٹھی، کاریں اور بینک بیلنس بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے پیشے کو عوام کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔ اس کا ثبوت ان وہ گھر ہے جہاں سے ان کا جنازہ نکلا۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اسی گھر میں بسر کر دی۔

ڈاکٹر صاحب کے مہروں میں تکلیف ہوئی تھی، سرجری کرائی لیکن آپریشن کامیاب نہ ہوا۔ نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا۔ کینسر کا عارضہ بھی لاحق ہوا لیکن علاج سے وہ مرض تو ختم ہو گیا البتہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔

کئی سالوں سے بیڈ پر تھے۔ نہایت صبر اور حوصلے سے اس آزمائش کا مقابلہ کیا۔ امیر جماعت اسلامی ضلع میانوالی حافظ جاوید اقبال ساجد مہینے میں ایک دو چکر ضرور ان کے پاس لگاتے تھے، کبھی کبھار مجھے بھی ملاقات کا موقع مل جاتا تھا۔ کسی بھی ملاقات میں ان کی گفتگو اور حرکات و سکنات سے مایوسی کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ آخر دم تک خندہ پیشانی سے حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔

6 نومبر 2021ء آخر کار اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ اقامت دین کے لئے ان کی خدمات قبول فرمائے۔ ان کی حسنات میں اضافہ کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply