رُکا ہُوا فیصلہ/شاہین کمال

امی !قیصر صاحب کون ہیں ؟
چھوٹی کے لہجے میں کچھ ایسا ضرور تھا جس نے مجھے چونکا دیا ۔
کیا؟ کون قیصر ؟

 

 

 

 

 

میں اچھنبے میں تھی۔ بہت ذہن دوڑایا، یاداشت کو کھنگالا پر کوئی قیصر یاد آ کر نہ دیے ۔ جب سے عمرِ بے کار کی ساٹھویں پائیدان پر قدم رکھا ہے، لگتا ہے جاتے وقت نے بھول و نسیاں سالگرہ کے تحفے کے طور پر تھما دی  ہے۔ جسمانی تغیر تو کم ہے پر ذہنی خلفشار بڑھ گیا ہے۔ باتیں اور چہرے بھولنے لگی ہوں۔ چیزیں رکھتی کہیں اور ڈھونڈھتی کہیں ہوں۔ بقول پروین

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے

ایک دم سے ذہن میں جھماکہ سا ہوا اور میں نے بے ساختہ کہا اچھا اچھا آروی تم قیصر ماموں کے متعلق پوچھ رہی ہو مگر وہ تمہیں کیسے یاد آ گئے ؟

ہاں یہ قیصر ماموں امی کے فرسٹ کزن ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں ۔ اب تو بہت ضعیف ہو گئے ہوں گے، جانے زندہ بھی ہیں کہ نہیں مگر تم انہیں کیسے جانتی ہو؟ میرا نہیں خیال کہ میں نے کبھی تم سے ان کا ذکر کیا ہے۔

میں ابھی تک الجھی ہوئی تھی۔

نہیں بھئی آپ کے قیصر ماموں کو میں نہیں جانتی، میں تو ان قیصر کی بات کر رہی ہوں جنہیں آپ نے اپنے فیس بک پر غزل dedicate کی تھی۔
آروی کا لہجہ تلخ اور آواز رونکھی تھی۔
میں نے غزل ڈیڈیکیٹ کی تھی کسی قیصر کو؟
مگر میری فرینڈ لسٹ میں تو کوئی مرد قیصر نام کا ہے ہی نہیں۔
میری حیرانگی بدستور قائم تھی۔

جی وہ پاکستانی سنگر ہیں نا، وہی آپ کی پسندیدہ نیرہ نور یا کون ان کی کوئی غزل تھی۔ آپ بہت سنتی ہیں اسے۔ ابھی مجھے اس کے بول یاد نہیں آ رہے۔
جانے کیوں چھوٹی کے لہجے کی تلخی بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔
ایک دم سے دماغ کی بتی روشن ہوئی اور میں بے ساختہ ہنستی چلی گئی۔
او قیصر!  ہاں بھئی یہ میری پاکستانی دوست قیصر شوکت ہیں بلکہ میری شاگرد بھی ہیں ۔ اس کا موسیقی کا ذوق بہت اچھا ہے اور ہم دونوں ہی نیرہ نور کے فین ہیں ۔ یہ اسلام آباد میں رہتی ہے۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا ۔
کیا عجیب مردانہ قسم کا نام ہے؟
بندہ خوامخواہ ہی میں کنفیوژ ہو جائے ۔
چھوٹی کا شکی لہجہ مجھے سلگا گیا۔
تو اگر قیصر مرد بھی ہوتی تو کیا ہوا، غزل کی ڈیڈیکیشن ایسا کون سا قابل گردن زدنی جرم ہے؟
میری آواز قدرے اونچی ہو گئی۔

کمال کرتی ہیں مما آپ! یہ بھی کوئی عمر ہے ان باتوں کی؟
میں اسے جواب دینے ہی والی  تھی کہ بے اختیار میری نظریں اس کی کن سوئیاں لیتی ساس پر پڑ گئیں، اور میں   نوکِ زبان پر آئے جواب کو بمشکل پیچھے دھکیلتے ہوئے ہائی چیئر پر بیٹھے اپنے نواسے کو کیلا مسل کر کھلانے لگی۔
پر یہ بات میرے دل میں اَنی کی طرح گڑ گئی۔۔

گھر واپس آنے کے بعد بھی طبیعت مکدر رہی ، بلآخر شاور لے کر میں نے اپنے تپتے دماغ اور بلند فشارِ خون کو شانت کیا۔ میری چھوٹی بیٹی آروی کے علاوہ اگر کوئی غیر یہ بات کہتا تو میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرتی مگر چھوٹی؟
چھوٹی ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہے؟ میری پوری زندگی آئینہ کی  مانند ان دونوں بہنوں کے سامنے ہے۔

میری زندگی کیا تھی بس گویا دکھوں سے عبارت کو ئی کتاب  تھی۔ ہم لوگ یعنی امی، ابا ، بھیا اور میں ڈھاکہ میں ایک شاندار زندگی جی رہے تھے۔ ابا جان کی پرانے ڈھاکے میں ماچس فیکٹری تھی اور ہم لوگوں کی رہائش دھان منڈی کے پُرسکون علاقے میں تھی۔ وہ خوب صورت دھان منڈی جس کی گلیاں پرانے برگد کے باعث ٹھنڈی اور پُرسکون تھیں اور جس کے تالاب کنارے سپاری اور ناریل کے بے شمار درخت تھے۔ وہی پُرسکون خطہ زمین جہاں دن بھر رنگ رنگ کے پرندے نغمہ سرا رہتے ۔ وہ بہت سہانا وقت اور چین کی گھڑی تھی۔ پھر رُت بدلتی گئی اور محبت کے راگ بین اور سوگ میں ڈھل گئے۔ بیوروکریسی کی منافقت ، جرنیلوں کی عیاشی و ہوس اور سیاست دانوں کی عیاری و اقتدار پرستی نے نفرت کی ایسی ہون جلائی جِسے لاکھوں جان کا بلیدان بھی نہ بجھا سکا۔

اقبال کا رخشندہ خواب محض چوبیس سال میں ڈراؤنا خوب بن گیا اور اس کی تعبیر میں لاکھوں غیر بنگالی محبان وطن پیوندِ خاک ہوئے۔ جو بچ بچا کر پاکستان نہیں نکل سکے، بنگلہ دیش میں ان کی زندگیاں جہنم سے بھی بدتر ہوئیں۔ ہم لوگ بھی انہیں حرماں نصیبوں میں سے تھے۔ بھیا لا پتہ ہوئے اور ابا جان اسٹروک کے باعث مردوں سے بد تر۔ عرصے تک ابا جان ، امی اور میں جینوا کیمپ میں گلتے سڑتے رہے۔ ابا جان پانچ سال محتاجی کی اذیت جھیل کر بہتی آنکھوں اور مہر بہ لب، حرفِ شکایت لائے بغیر اس بڑے دربار میں حاضر ہو گئے۔ شہانہ زندگی گزارنے والی امی جان نے کپڑے کی فیکٹری میں ملازمت کی اور جوکھم سے مجھے پالا۔ لاکھ کیسے خاک ہوتا ہے میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ بس کچھ کرنے کا جنون ہی تھا جس نے مجھے ہار ماننے نہیں دی ۔

قسمت بھی کیسی کیسی چال چلتی ہے۔ جب ” اس” کا کُن ہو تو ہَوا بھی آپ کے موافق ۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میں میٹرک پاس کر کے اماں کے ساتھ فیکٹری جانے لگی تھی اور ساتھ ہی پرائیویٹ انٹر کرنے کی کوشش میں سرگرم بھی۔ جب بی بی سی سے ایک وفد جینوا کیمپ پر ڈاکیومنٹری بنانے آیا۔ اسی ڈاکیومنٹری کے ساتھ ساتھ میری قسمت بھی بنتی چلی گئی ۔ وہ لوگ میری کھولی کی عکسبندی کر رہے تھے۔ اس آٹھ بائی آٹھ کی کھولی میں ثریا خالہ کے خاندان کے ساتھ ہم ماں بیٹی بھی رہتے تھے۔ ثریا خالہ، کاظم خالو اور ان کے چھ بجے نیچے کمرے میں اور ہم ماں بیٹی اسی کمرے کی آدھی پر چھتی پر۔ جہاں آپ بمشکل بیٹھ سکتے کہ پھر سر چھت سے ٹکراتا البتہ سویا ضرور جا سکتا تھا اگر حبس آپ کو سکون کا سانس بھرنے کی اجازت دے تو۔
اسی کھولی کی پلاسٹر اُدھڑی دیواروں پر میرے کوئلے سے بنے خاکے جا بجا تھے۔ میرے ٹوٹے زنگ آلود ٹین کے بکسے میں کاغذ کے ٹھونگو اور ردی کاغذوں پر میرے انگنت شہکار بھی ٹھونسے ہوئے تھے۔ جب وہ ڈاکومنٹری نشر ہوئی تو کسی دردمند دل پر میری بے کسی نے دستک دی اور آسٹریلیا سے ایک آرٹ ٹیچر میری تلاش میں ڈھاکہ آیا ۔ اس نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش بھی کی مگر میں بے زمین تو کہیں کی نہیں تھی۔ پاکستان نے اپنے ہی محب وطن شہریوں سے کٹھور پنے سے منہ موڑ لیا اور ہمیں ڈس اون کر دیا۔ بنگلہ دیش کے اپنے مسائل کیا کم تھے جو وہ ہم جیسے
بے وسائل و خانماں بربادو ں کو گلے لگاتا۔ میں خدا کی اس بے انت زمین میں بے وطن تھی، وہ لاوارث جس کا اندراج کسی بھی بہی کھاتے میں نہ تھا۔ سو وہ مجھے ساتھ تو نہ لے جا سکا مگر اپنے رسوخ استعمال کرتے ہوئے ڈھاکہ آرٹ کالج میں میرا داخلہ ضرور کرا گیا۔ میری فیس اور پڑھائی کے دیگر اخراجات اس کی ذمہ داری تھے۔ میرے اس فرشتے کا نام پیٹر ونر تھا۔ کامل دو سال اس نے میرا خرچ اٹھایا پھر اسکالرشپ نے میری راہ کے کانٹے چنے مگر بدقسمتی دیکھیے میری کامیابی کا جشن منانے نہ اماں رہیں اور نہ ہی پیڑ ونر۔ ایک کو دق اور دوسرے کو لنگ کینسر نے اچک لیا۔

یونیورسٹی میں میری ملاقات خلیل رحمان سے ہوئی اور اس نے اپنی پلکوں سے میرے سارے درد چن لیے۔ جانے وہ مجھے کن نظروں سے دیکھتا کہ اسے میرے عیب بھی ہنر اور میرا مختصر و کم رو وجود بھی اپسرا دکھتا۔ بلاشبہ یہ کمال و جادوگری صرف محبت ہی کا اعجاز ہے۔ میں نے اتنی تلخ اور بد صورت زندگی گزاری تھی کہ کمسنی ہی میں مجھے ادراک ہو گیا تھا حسن اور میرا کوئی تال میل نہیں۔ ویسے بھی جھلستی دھوپ، سوکھی روٹی اور پنتا بھات، روپ سروپ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتا۔ میرا سارا حسن اور کوملتا میری انگلیوں کی پوروں میں سرایت کر گیا تھا۔ یہ تو بس محبت ہی کا فیضان ہے کہ وہ انسان کو دل کی آنکھ سے جانچتی اور آنکتی ہے۔ خلیل کا کوئی ایسا قریبی رشتے دار تھا نہیں اور ماں باپ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں پاکستان آرمی کے ہاتھوں کھیت رہے تھے۔ سو باقی رہے نام اللہ کا۔

دو تنہا الم زدوں نے مل کر اک نئی  دنیا بسا لی۔ اس پرائی دنیا میں ثریا خالہ ہی میری واحد ہوتی سوتی تھیں سو انہوں نے میرا نکاح خلیل سے پڑھوا دیا اور میں جینوا کیمپ کی آٹھ بائی آٹھ کی کھولی سے اٹھ کر عظیم پور کے دو کمروں کے فلیٹ میں آ گئی ۔

ہماری زندگی بہت اچھی تھی، کسی مست خرام ندی کی طرح شیتل اور رواں۔ خلیل لیکھک اور میں مصورہ۔ خلیل افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ صداکار بھی تھے۔ شادی کے دوسرے سال آنیشا میری گود میں اور پانچویں سال آروی، بہن کی تنہائی دور کرنے آ گئی ۔ میں بہت خوش تھی کہ دونوں بچیاں اپنے باپ کا مکمل عکس تھیں۔ خلیل ہی  کی طرح سحر طراز آنکھیں اور موہنے نقوش۔ میرے سر پر سُکھ کی چھپر چھایا صرف چھ سال کی کہانی تھی کہ آروی کی پہلی سالگرہ کا کیک لینے گئے خلیل کو اجل نے گھر لوٹنے ہی نہیں دیا۔

بس پھر میں تھی اور میری مشقت بھری ابھاگن زندگی۔ آنیشا اور آروی کو پالنے اور انہیں زندگی کی تپش سے بچانے میں ایسی منہمک ہوئی کہ کیس کب کپاس ہوئے پتہ ہی نہیں چلا۔

ہسپتال میں جس دن اپنی پہلی نواسی کو گود لیا تو دل نے اطمینان محسوس کیا اور ساتھ ہی اپنے فرائض کی خوش اسلوبی سے بجا آوری پر احساسِ تشکر بھی۔ میرا سفر آسان تو بالکل نہ تھا مگر صد شکر کہ اس سفر میں بے سائبانی اور بھوک شریک نہیں تھی۔ میری بچیوں کا بچپن میرے بچپن جیسا سہما، ترسا اور بلکتا ہوا نہیں تھا۔ باپ کا تو خیر کوئی نعم البدل نہیں ورنہ انہیں دنیاوی کوئی تکلیف نہ تھی۔ میں گھر اور اسٹوڈیو تک ہی محدود تھی اور میرا سوشل سرکل برائے نام تھا۔

اکلاپا سہارنا آسان نہیں ہوتا، وہ بھی اس کے لیے جس کے پاس رونے کو کوئی کندھا بھی نہ ہو۔ میں نے دل میں قفل لگا کر خود کو روبوٹ بنا لیا۔

آنیشا اور آروی کی شادیوں کے بعد میری تنہائی بے پایاں تھی کہ خالی گھر مجھے کاٹنے لگا تھا۔ اس اکلاپے سے فرار کے لیے میں گھر پر بھی آرٹ کلاسز دینے لگی مگر تنہائی تھی کہ دم گھونٹے دیتی تھی۔ بچیاں اپنی اپنی دنیاؤں میں مصروف و مگن تھیں۔ کبھی کبھار ادھر کا چکر لگا لیتی یا پھر جب بےبی سٹر کے طور پر انہیں ماں کی ضرورت ہوتی۔

میں سوچتی تھی کہ اب تو کہانی ختم ہونے والی ہے، میرا آبلہ پائی کا سفر اختتام پذیر ہے۔ اب کیا تردو!! بس جو دو چار گنتی کے سال بچے ہیں وہ نواسے نواسی کے ساتھ کھیلتے گزر جائیں گے پر سوچا چاہا کب ہوتا ہے؟

مجھے کووڈ ہوا اور اس نے واقعی مجھے توڑ دیا۔ تنہا مرنے اور دو گھونٹ پانی کو ترسنے کا خوف میری رگ رگ میں سما گیا تھا۔

میں ایک ہفتے تک آروی کی بات پر جھلستی، کڑھتی رہی اور آج، سالوں پہلے سلمیٰ کی کہی گئی بات کی بازگشت میرے کان پھاڑ رہی ہے۔ چار سال پہلے، جب سلمیٰ، میری عزیز ترین سہیلی نے آروی کی شادی کی دعوت اپنے گھر رکھی تھی، یہ اسی رات کا قصہ ہے۔ اس رات میں سلمیٰ کی مدد کی  غرض سے اسی کے گھر رک گئی تھی۔ کام سمیٹنے کے بعد رات گئے تک ہم دونوں سہیلیاں ٹیرس پر پورے چاند کی ملکوتی چاندنی اور رات کی رانی کی مست مدھر خوشبو سے محفوظ ہوتے ہوئے دنیا جہاں کی باتیں کرتے رہے تھے۔ اس رات سلمیٰ نے مجھ سے کہا تھا کہ اب اپنے بارے میں بھی سوچو۔ تم نے دونوں بچیوں کو ان کی منزلوں پر پہنچا دیا ہے بہت بڑا کام ہوگیا۔ جانے اب تمہارا اور کتنا سفر باقی ہے؟
سو بہتر ہے تم کسی کا سہارا لے لو۔
کیا؟ ؟؟؟
میں حیران رہ گئی ،
کیا کہہ رہی ہو سلمیٰ؟؟
پھر مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔
تمہارا بھی جواب نہیں سلمیٰ گویا بوڑھے منہ مہاسے۔ بالکل ہی پگلا گئی  ہو کیا؟
میں نے بمشکل ہنسی روک کر کہا۔

ابھی میری بات تمہیں مذاق لگ رہی ہے مگر جب رات کی تنہائی میں خالی دیواروں پر بھوت ناچیں  گے نا، تب پتہ چلے گا۔ میرا دیور شمس الحسن تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھ سے پہلے بھی ذکر کیا تھا مگر میں جانتی تھی کہ تم بہت پروٹیکٹیو ماں ہو اور بچیوں کی موجودگی میں کبھی بھی شادی نہیں کرو گی۔ اسی لیے میں نے تم سے ذکر بھی نہیں کیا تھا مگر اب آنیشا اور آروی دونوں اپنے اپنے گھروں کی ہوئیں اور تم پر کوئی ذمہ داری نہیں تو تم اب تو کم از کم اپنے لیے جی لو۔
سلمیٰ نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔
ارے چھوڑ سلمیٰ!  اب بھلا وقت ہی کتنا بچا ہے۔
میں نے گویا کانوں پر سے مکھی اڑائی۔
کیوں کیا تم اللہ میاں کے یہاں سے نصیب کا رجسٹر دیکھ کر آئی ہو؟
سلمیٰ نے چڑ کر پوچھا۔
میں ہنستی رہی اور بات بدل دی۔

اکثر سلمیٰ کی آنکھوں میں سوال جھلکتا اور میں نظریں چرا جاتی۔
خاموش اور منکسرالمزاج شمس الحسن میں واقعی کوئی برائی نہ تھی بس میرا یہ خوف کہ دنیا کیا کہے گی؟ پیشِ نظر رہا۔ یہ خیال بھی مد نظر تھا کہ میرا یہ قدم کہیں بچیوں کے سسرال میں ان کے لیے مشکلات نہ کھڑی کر دے۔

آج آروی کے تیکھے، تلخ لہجے نے مجھے چونکا دیا۔ کیا ساری زندگی کی پارسائی کسی گنتی میں نہیں آتی ؟
تنہا عورت ہمیشہ کٹہرے میں کیوں کھڑی رہے؟
۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہیلو سلمیٰ!! اگر شمس الحسن اب بھی اپنی بات پر قائم ہیں تو ان سے کہنا کل نمازِ عصر کے بعد بیت المکرم مسجد میں آ جائیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply