جسے سنگریزوں کو تراش کر جواہرات میں ڈھالنے کا فن آتا ہے
ضلع سیالکوٹ کے ایک دور افتادہ گاوں ویرووالہ کا باسی درس و تدریس سے وابستہ
اپنے ہی گاوں کے مڈل اسکول میں چند سال فرائض منصبی انجام دینے کے بعد اس نے خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہجرت کی ٹھانی اور ڈسکہ شہر کا رخ کر لیا
شہر کے سب سے بڑے اسکول میں تبادلہ ہو تو گیا مگر چھوٹے سے گاوں کے مڈل اسکول سے آنے والے اس معلم کو ایک اور امتحان درپیش تھا
4 ہزار سے زائد طلبہ 90 استاد کیسے اپنا آپ منوائے ؟
نہم جماعت کی تدریس کا تقاضا کیا تو سب اس پہ ہنسنے لگے
اسی سال نہم جماعت کا رزلٹ آیا تو 80 سے 90 طلبہ فیل ہو گئے
کسی سیانے نے مشورہ دیا اسے یہی کلاس سونپ دو
سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے
انتظامیہ سے پوچھا میرا کمرہ جماعت کون سا ہو گا ؟
ایک بار پھر اس کا مذاق اڑایا گیا
تمہاری اوقات ہے کمرہ مانگنے کی ؟ جاو جہاں جگہ ملتی ہے بسیرا کر لو میدان میں کسی درخت کے سائے تلے
اس نے چیلنج سمجھا اور اپنے کام میں لگ گیا
نیک نیتی اور لگن سے پڑھایا تو اگلے سال کا نتیجہ ہی کچھ اور تھا
اب اسے باقاعدگی سے جماعت نہم کی تدریس تفویض ہونے لگی
اس کے مشاہدے میں آیا کہ ہر برس نہم جماعت شعبہ آرٹس میں زیادہ تر وہ بچے آتے جو یتیم نادار اور بے سہارا ہوتے
یا پھر حافظ قرآن جنہیں سائنس گروپ میں داخلہ نہ ملتا
کسی کے سر پہ باپ کا سایہ نہیں تو کوئی غربت سے بے حال
کوئی خود اسکول سے جا کر ریڑھی لگاتا تو کسی کی ماں گھروں میں کام کرنے پر مجبور
اس نے ان گرے پڑے بچوں کو اٹھایا ماتھے پہ بوسہ دیا اور سینے سے لگا لیا
امتحان نزدیک آتے تو ان بچوں کو اپنے گھر لے آتا جہاں وہ اسے سگی اولاد سے بھی عزیز ہوتے
ان کا قیام طعام سب اپنے ذمے لے لیا
عرق ریزی سے نوٹس بنائے اور غریب زادوں کو ایک نئی دنیا دریافت کرنے کی ہمت بندھائی
میرا رب کب کسی کی محنت کو رائیگاں جانے دیتا ہے
اور اس نے تو اس کی مخلوق سے محبت کو اپنا مشن بنا رکھا تھا
پھر آسمانوں کے رب نے بھی اسے ایسا نوازا کہ کمال ہو گیا
آپ جان کر حیران ہوں گے کہ اس معلم کے دس طلبہ گوجرانوالہ بورڈ کے ٹاپ پوزیشن ہولڈرز ہیں
2013 سے لے کر 2023 تک مسلسل اس کی ہر میٹرک کلاس کے بچوں نے بورڈ میں پوزیشن حاصل کر کے اپنے استاد کا مان رکھا
2017 اس کے تدریسی کیرئیر کا یادگار سال تھا جب ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین پوزیشنوں پر اس کے شاگرد فائز تھے
اس سال بھی گوجرانوالہ بورڈ شعبہ آرٹس میں پہلی اور دوسری پوزیشن پہ اسی کے بچے فائز ہیں
ایک یتیم حافظ قرآن جمشید علی پورے بورڈ میں پہلے نمبر پہ ہے جو اسکول سے آ کر 300 روپے دیہاڑی پر کھیتوں میں کام بھی کرتا ہے
دوسرے نمبر پہ حمزہ علی ہے جس کا والد 600 روپے دیہاڑی لینے والا مزدور
میرے اس ھیرو کا نام وحید اشرف ہے جو بطور ایس ایس ٹی آرٹس گورنمنٹ ہائی اسکول ڈسکہ میں تعینات ہے
عہد حاضر میں بھلا اس سے بڑا استاد کون ہو گا؟
بے بس بے کس والدین کے بچوں کو اپنی اولاد سے عزیز رکھنے والا
جسے دیکھ کر قرون اولی کے عظیم اساتذہ کی یاد آئے جو ایک استاد کہ عظمت رفتہ کا امین ہے
پیشہ معلمی جس پہ نازاں ہے
پیارے پڑھنے والو !
محکمہ تعلیم ہو یا پنجاب سرکار
آج تلک اس استاد کو کسی ایوارڈ سے نوازا گیا نہ کوئی توصیف
ظاہر ہے جو خدمات مہوش حیات کی ہیں وہ اس معلم کی تو نہیں
اور ویسے بھی یہ تمغے ایوارڈ اور حسن کارکردگیاں یہ فیصلے کارکردگی کی بجائے حسن دیکھ کر کئے جاتے ہیں
چاہے یہ حسن ظاہری ہو یا کسی بڑے کا حسن انتخاب
اے استاد مکرم
جو کام اللہ رب العزت آپ سے لے رہا ہے اس کا کوئی صلہ کوئی بدلہ دنیا میں ممکن ہی نہیں
آپ تو اللہ کے برگزیدہ اور چنیدہ ہیں
اپنے بیٹے کے ماتھے پہ کامیابی کا سہرا سجے دیکھ کر کسی بیوہ ماں کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ہی آپ کا ایوارڈ ہیں
ان ماوں کے دل سے نکلنے والی دعائیں ہی آپ کا زاد راہ ہیں
اے میرے ھیرو !
پوری قوم کے ھیرو ہیں آپ !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں