مقدمہ:عمران خان کی سزا/اعزاز کیانی

پاکستان کے سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اسلام آباد کی ایک ذیلی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں اثاثے چھپانے کے جرم کا مرتکب قرار دے کر تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ بعد از فیصلہ عمران خان کو انکی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے اٹک جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

 

 

 

توشہ خانہ  کا مقدمہ گزشتہ تین سالوں سے موضوع بحث ہے۔ اس مقدمہ کا آغاز عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد, ن لیگ کے ایک اسمبلی رکن , محسن نواز رانجھا, کے ریفرنس سے ہوا تھا جس کو ازاں بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اس ریفرنس کی بنیاد پر عمران خان کو باسٹھ ون ایف (جس کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا) کے تحت نا اہل قرار دیا تھا اور اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت میں فوجداری مقدمہ قائم کیا تھا۔

مجموعی طور پر اس مقدمہ کی تیس سے زائد سماعتیں ہوئیں , جن میں سے کچھ سماعتوں پر عمران خان بذات خود پیش ہوئے۔ اس مقدمہ میں 10 مئی کو عمران خان پر فرد جرم بھی عائد کی گئی تھی اور اب 5 اگست کو اسکا حتمی فیصلہ سنایا گیا ہے جس کے تحت عمران خان کو مذکورہ بالا سزا سنائی گئی ہے۔

عمران خان نے وزارتِ  عظمی کی مدت کے دوران مجموعی طور پر 58 تحائف حاصل کیے ہیں۔ ان تحائف میں سے چند نمایاں تحائف , جو عمران خان نے بیس فی صد اور بعد از تبدیلی قانون پچاس فی صد قیمت ادا کر کے خریدے تھے , گراف و رویلکس کی گھڑیاں, قیمتی قلم و انگھوٹی, کف لنکس اور زیورات کا ایک سیٹ شامل ہیں۔ ان تحائف کی مالیت (بیس و پچاس فی صد کے حساب سے) تین کروڑ سے زائد بنتی ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان نے تسلیم کیا ہے کہ 2018-2020 میں جو تحائف انہوں نے حاصل کیے تھے وہ انہوں نے فروخت کر لیے تھے لہذا ظاہر نہیں کیے۔ 2019-2020 میں حاصل شدہ تحائف آگے منتقل کر دیے گئے تھے لہذا ان کو بھی گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ 2020-2021 میں قریباً ایک کروڑ کے تحائف حاصل کیے لیکن ان کو فارم بی میں درست طور پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ عدالت کے مطابق فروخت شدہ اور منتقل شدہ تحائف کی تفصیلات فارم بی میں مجوزہ خانے میں ظاہر کرنا لازم ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان اس عرصہ میں اپنی چار بکریاں تو باتواتر ظاہر کرتے رہے لیکن مذکورہ تحائف کی تفصیلات کو ظاہر نہیں کیا گیا لہذا وہ بددیانتی و غلط بیانی کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔

یہ ایک ذیلی عدالت کا فیصلہ ہے لہذا اسکو اعلیٰ عدلیہ (عدالت عالیہ) میں چیلنچ کیا جا سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ عدالت عالیہ عمران خان کی کچھ قانونی معاونت فراہم کر سکے۔ اس لیے کہ تحریک انصاف اس فیصلے کے خلاف متعدد قانونی نکات اٹھا سکتی ہے۔ مثلاً یہ کہ عمران خان کے گواہان کا فیصلہ عدالت عالیہ میں ہنوز زیر سماعت ہے, عمران خان کے وکلاء کو نہیں سنا گیا وغیرہ وغیرہ۔( اگرچہ عمران خان کے وکلاء نے بھی تاخیری حربے استعمال کیے)۔

عمران خان کا یہ کیس بااعتبار نوعیت نواز شریف کے اس کیس کے مماثل ہے ( بحیثیت مقدمہ) جس میں نواز شریف کو بیٹے سے موصول ہونے  والی تنخواہ کو بطور اثاثہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا تھا۔ اب اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے تحائف کی تفصیلات کو ظاہر کیوں نہیں کیا ہے۔؟ میرے نزدیک اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان نے اس کو ضروری نہ سمجھا ہو یا دوسری ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان توشہ خانہ  تحائف کو اپنی ملکیت یا اثاثہ ظاہر نہ کرنا  چاہتے ہوں۔ ان وجوہات میں سے جو بھی وجہ ہو لیکن مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ بات متحقق ہوتی ہے کہ عمران خان “ایک غلطی” کے مرتکب ہوئے اور ان کا یہ اقدام قانون کی روح کے مطابق نہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

البتہ عدالت کو چاہیے تھا کہ عجلت کے بجائے کچھ ایام مزید اس مقدمہ کی سماعت کرتی اور ممکنہ حد تک یقین کے بعد کوئی حتمی فیصلہ سناتی۔ عدالت کی یہ عجلت ہی ممکن ہے عمران خان کے لیے, مستقبل میں, کسی قانونی رعایت کا باعث بن جائے۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply