دیوار گریہ۔۔شاہین کمال

میں کیا سناؤں؟
میرا سینہ، سینہ بریاں ہے۔ شاید میں یاست پسند ہوں۔ مجھے غمگین کہانیاں ہی یاد رہتی ہیں کیوں کہ خوشیاں لمحاتی اور غم دائمی ہوتے ہیں۔ اب تو کل یگ ہی ہے ۔
چلو میں تمہیں اس کا قصہ سناتی ہوں۔
وہ اچھی خوش شکل و خوش وضع عورت تھی۔ تم جانو عورتیں تو حسین ہوتی ہی ہیں، کچھ بھیتر ما دمکتی ہیں اور بظاہر بجھی راکھ، تو کوئی بیرونی چمک دمک کی حامل ایک دم دھماکے دار ۔ کچھ ایسی ہوتیں ہیں کہ یک دم آپکے حواس سلب کر لیں۔ چڑھتے سورج جیسی روشن آنکھوں کو چندھیا دینے والی اور کوئی کوئی ایسی بھی جو مسلسل گرتی بوند کی طرح لوح دل پر اپنا دائمی نقش چھوڑ جائیں۔
لو قصہ سنانے کے بجائے میں کیا کتھا لے بیٹھی، مگر میں اس کا نام نہیں بتاؤ گی ! ویسے بھی

ناموں میں کیا دھرا ہے۔ دکھ تو سبھی کو ایک تھان پر لا باندھتا ہے۔ دکھ تو کلر ہے، جیسے شور زدہ زمین۔ تم نے کبھی شور زدہ زمین دیکھی ہے؟
نمک خاموشی سے مٹی کو کھاتا چلا جاتا ہے ایسے ہی دکھ بھی آدم زاد کو بھر بھرا اور چورا چورا کر دیتا ہے اور چپکے چپکے زندگی کا سارا رس پی جاتا ہے۔

وہ بڑی خوش رو تھی۔ اندرونی اور بیرونی جمال سے
آرستہ۔ بیاہ کر “اکبری منزل” کے ہریالے آنگن میں اتری ۔ سہاگن تو تھی پر میاں من بھاون نہ بن سکی۔ وجہ یہ کہ کوکھ شور زدہ تھی، نمو سے خالی اور جب بخت یاوری نہ کرے تو اندر سبھا کی رانی بھی راندہ درگاہ ہو جاتی ہے۔ میاں سنگ شروع کے دو تین برس ہی دن عید رات شب برات تھی پھر تو اماوس کی سیاہ رات ہی رات ۔ میاں اس کا وجود ایسے بھولے جیسے آنگن میں پڑی کھٹیا۔ ضرورت ہوئی تو اوسارے میں

گھسیٹ لی ورنہ انگنائی میں پڑی دھوپ کھاتی رہے۔ نام تو شاکرہ نہیں تھا مگر نصیب پر شاکر تھی۔ میاں کی خدمت ہی اس کا دین اور ایمان تھا۔ اسے میاں کی دوسراہٹ میسر نہیں تھی مگر شکر ہو پاپی پیٹ کا کہ میاں کھانے کے ریسا تھے تو یہ پکانے میں گنی۔ میاں کے کھانے کے چسکے نے دونوں کا بےسوادا رشتہ
جوڑے رکھا۔ لگتا تھا جیسے اس کی زندگی کا مقصد ہی ان کو مقوی اور بہترین غذا کھلانا تھا۔ صحت بخش کھانے اور موسم کے حساب سے سردائی یا بادام کا شربت معمول کا حصہ تھے۔ میاں نے اسے ہاؤس کیپر کے درجے ہی پر فائز رکھا، دل تک رسائی نہ دی ہی ۔ جب تن کا سکھ نہ ہو تو زبان کا رس بھی سوکھ جاتا ہے پر یہ ابھاگن اس پر بھی
احسان مند کہ ” بے نمو” کو چھپر چھاؤ تو میسر ہے اور وہ زمانے کی سرد و گرم سے محفوظ ہے۔ کیا ہوا جو تن من کا سکھ نہیں ؟
سانس کا رشتہ تو عزت سے بحال ہے۔ اسی حال

میں بہترے سوکھے ساون اور چاند کی آتشی چودھویں گزرتی چلی گئی۔

شادی کو تیرھواں برس لگا تھا کہ ایک شام چائے کی چسکی لیتے ہوئے میاں نے اطلاع دی کہ ان کا ایک دوست کچھ دنوں کے لئے ان کے گھر قیام کرے گا کہ اس کا کچھ کورٹ کچھری کا کام پھنسا ہوا ہے۔
خوش رو کو یہ خیال کچھ جچا تو نہیں کہ تنہائی کی اتنی عادی تھی کہ اب دوئی کا خیال بھی جنجال تھا پر بولنے کا یارا کس میں ؟ برسوں سے جو سر شمالن جنوبن جھکتا آیا تھا اب پینڈولم کیسے بن جاتا۔ ایک شام جب سرتاج دفتر ہی تھے کہ اکبری منزل کے پھاٹک پر رکشا پھٹپھٹاتا ہوا رکا، اطلاعی گھنٹی بجی اور موصوف وارد ہوئے۔ منحنی سی جان، اڑے اڑے بال اور جھلسا ہوا رنگ۔ پورے سراپے میں واحد زندہ چیز آنکھیں ہی تھیں، کچھ کھوجتی ہوئی،
کچھ کہتی ہوئی۔ ان کو مہمان خانے کی راہ

دکھائی اور ابھی چائے تیاری کے مرحلے ہی میں تھی کہ میاں صاحب تشریف لے آئے اور گھر کے در و دیوار نے طویل عرصے کے بعد ان کو ہنستے بولتے سنا۔ خوش رو کو بھی یہ تبدیلی بھلی لگی۔ گو مہمان کی آمد سے اس کی مصروفیات میں اضافہ ہوا مگر گھر میں زندگی کی چہل پہل بھلی لگی۔

تیسرے دن مہمان موصوف کو اپنے کپڑے دھونے تھے اور وہ مشین لگانے ہی والی تھی سو کہا کہ کپڑے دے دیجیے۔ پھر روکھے کپڑے دیتے ہوئے لحاظ لگا تو کپڑے استری بھی کر دیے۔ اس پر موصوف بہت شرمندہ مگر انتہائی انتہائی شکر گزار ہوئے۔ اس کے لئے یہ ایک غیر متوقع اور حیران کن بات تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خوشگوار حیرت سے دو چار ہوئی کہ گھر کے کام کاج بھی لائق تحسین ہوتے ہیں؟
یہ معمولی معولی سے کام بھی کسی کے لیے خوشی کا باعث ہو سکتے ہیں ! یہ اس کے لیے

ایک عجیب سنسنا دینے والا تجربہ تھا۔ انجانے میں اس نے کھانے پر مزید توجہ اور اہتمام شروع کردیا۔ جب وہ میاں سے کھانے کے زائقے کی تعریف کرتا کہ بھنا گوشت بہت مزے کا ہے یا کباب کی گلاوٹ بہترین تو اسے بہت اچھا لگتا۔ ایک توانائی سی ملتی۔ دن میں وہ جب تک گھر پر ہوتے اپنے کمرے تک محدود رہتے اور وہ بھی احتیاط کا پلو تھامے گھر کے کاموں میں مشغول رہتی۔ جب موصوف کہیں جانے لگتے تو اسے دروازہ بند کرنے کی تاکید کرتے اور چلتے چلتے کھانے کی تعریف یا کپڑے دھونے اور استری کرنے پر شکریہ ادا کرنا نہ بھولتے اور اسے لگتا کہ محنت وصول ہو گئ ہے۔
ایک رات جانے کیسے اس سے سالن میں نمک تیز ہو گیا، پھر تو اللہ دے اور بندہ لے۔ ویسے بھی بہت دن سے میاں کی زبان سان نہیں چڑھی تھی سو انہوں نے اگلی پچھلی تمام کسر پوری کر دی۔ وہ کم نصیب تو عادی تھی ان دشنام طرازیوں کی گو کہ مہمان کی برکت سے زبانی سنگ باری

میں وقفہ آگیا تھا مگر اس رات ایک غیر کے سامنے اپنی ہتک نے دل کو بہت زخما دیا۔ موصوف نے میاں کو کافی لتاڑا اور سمجھایا بھی کہ میاں قدر کرو کہ ایسی سگھڑ، خدمت گزار اور بےزبان بیوی ملی ہے۔ جواب میں میاں نے اس برھن کے دل پر گویا تیزاب ہی انڈیل دیا کہنے لگے “بانجھ ہے اپنی کمزوری کے باعث چپ ہے ورنہ ایسی پتی ورتا نہیں”۔
کمرے میں مرگ جیسی خاموشی چھا گئی۔
اگلی صبح دروازے کو بند کرنے کی تاکید کرتے ہوئے وہ ٹھٹک گئے اور اس کے چہرے پہ کھنڈی زردی نے ان کو مزید ملول کر دیا اور نظر جھکائے جھکائے کہنے لگے کہ
“وہ بدنصیب ہے اس لیے ہیرے کا قدر دان نہیں ورنہ آپ تو قدرت کا انعام ہیں۔ صحرا زندگی کا حسین نخلستان۔ جس کو آپ کی چھاؤں میسر آ جائے وہ توجنت کا بھی طلب گار نہ رہے۔”
اتنا کہا اور تیزی سے مڑ کر چلے گئے۔
سہ پہر لوٹتے ہوئے سرخ سرخ بیر لیکر آئے۔ بیروں

کو دھویا اور نمک مرچ الگ پرچ میں رکھ کر اسے پیش کیا۔ اتنی دلداری اور پزیرائی کا دل نابکار کب متحمل تھا۔ صبح چلتے سمے ان کی کہی گئی باتوں کی دھمک نے دل میں ویسے ہی ادھم مچایا ہوا تھا۔ اب تو مانو لینڈ سلاڈینگ ہی ہو گئ۔ دھڑکنیں جو عرصے سے فی منٹ ستر بہتر کے ریاض پر کاربند تھیں اتھل پتھل ہو کر رہ گئی اور ایسا باڑھ آیا کہ میاں خس و خاشاک کی طرح بہ گئے اور دل سنگھا سن پر موصوف پوری طرح براجمان ہو گئے۔

ظاہر کی آنکھ سے دیکھو تو میاں اور موصوف کا کوئی مقابلہ نہ تھا ۔ میاں چھ فٹے اور بہترین کھلائی پلائی کے صدقے بھر پور۔ یہ منحنی اور کمزور، ہوٹلوں کے کھانے کھا کھا کر معدہ ابتر۔ شکل بھی کمتر مگر کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ مرد آنکھوں سے اور عورت کانوں سے محبت کرتی ہے۔ عورت کے کانوں میں مدھر پریم رس انڈلتے جاؤ اور وہ انمول بن مول داسی بنتی

چلی جائے گی، جان تو معمولی شہ ہے وہ تو ایمان تک تج دے۔

خوش رو کی زندگی بھی دوراہے پر آ گئی تھی۔ دل اور فرض کی کشاکش تھی۔ تین دن کی کشمکش کے بعد فیصلے پر پہنچی اور ناشتے کے بعد گھر سے باہر جاتے ہوئے جب موصوف نے دروازہ بند کرنے کی تاکید کی تو اس نے ہمت کی اور کہا کہ لوٹ کر مت آئیے گا یہ دروازہ اب بند ہی رہے گا کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ دنیا کا دوستی پر سے اعتبار اٹھ جائے اور دوست، دوست پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں اس لئے یہ دروازہ اب ہمیشہ مقفل ہی رہے گا۔ اب آپ کے لیے وآپسی کی راہ نہیں۔

اس طرح یہ کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔ مگر اس کی خاموشی دن بہ دن گہری ہوتی چلی گئ جیسے وہ چپ کے بن میں کھو گئی ہے۔ میاں کو خوش رو بالکل ہی باولی لگنے لگی کہ وہ

گھنٹوں جائے نماز پر ہاتھوں میں بیر کی گٹھلیاں لیے ساکت بیٹھی رہتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دوسری کی کتھا بھی سن لو۔

اس پری پیکر پر تو بنگال کا جادو بھی نثار تھا۔ ٹیگور کی تمام کی تمام شاعری اس پر واری جا سکتی تھی۔ ملاحت ایسی کہ خوبصورتی رشک کرے اور حسن ایسا کہ حواس سلب کر لے۔ جس دن بر دکھوا تھا۔ اس کی ضد تھی کہ وہ بھی دولہا دیکھیے گی۔ سہیلی نے بتایا کہ ہونے والے دولہا نے بادامی رنگ کی شرٹ پہنی ہے۔ اس نے بڑی چاہ سے بیٹھک کی جھری سے جھانکا۔ دولہا عین سیدھ میں بیٹھا تھا اور جانے کیسے اس نے محسوس کر لیا تھا کہ بند کواڑ کی جھری سے کوئی جھانک رہا ہے، بڑے غور سے جھری کو تاکا اور مسکرا دیا۔ اسی لمحے مانو دل اس کے ہاتھوں سے گیا۔ پری پیکر اپنی شادی سے بہت خوش تھی اور اس نے رچ کر شادی کی تیاریوں

میں حصہ لیا ۔ شریک سفر من پسند ہو تو خوشی دونی ہو جاتی ہے اور ہونٹ آپو آپ ہی مسکاتے ہیں اور انگ انگ رقصاں رہتا ہے۔

شادی کی رسومات کے دوران لڑکے والوں کی طرف سے ایک شوخ آواز مسلسل دلچسپ فقرے چست کر رہی تھی۔ اسے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا وہ بہت خوش تھی کہ زندہ دل سسرال ملی ہے۔
آرسی مصحف کی دوران بھی اس آواز نے جملہ کسا کہ “بھئ یہ کیا ہم بھی تو جلوہ دیکھیں؟”
اچانک آئینے کی چمکتی سطح پر دو فسوں کار آنکھیں نمودار ہوئی اور اس کی آنکھیں ان آنکھوں میں الجھ کر رہ گئی۔ رخصتی اور پھر سسرال میں کھیر کھلائی کی رسم کے بعد حجلہ عروسی میں پہنچائی گئی۔ جب میاں نے گھونگھٹ اٹھایا تو دل دھک سے رہ گیا کہ یہ تو وہ بادمی شرٹ والے نہیں! نین نقش ضرور ملتے جلتے ہیں پر یہ وہ نہیں۔

دل بجھ سا گیا۔ ایک انی سی دل میں گڑی رہ گئی۔ صبح ناشتے کے بعد گھر والوں سے تعارف ہوا تو اس نے جانا کہ وہ چنچل جملوں اور متوالی آنکھوں کا حامل جادو گر اس کا دیور تھا۔ پچھتاوا سوا ہوا مگر ظالم نصیب اپنا داؤ چل چکا تھا۔ دل کو تو سنبھالنا ہی تھا سو بدقت تمام انوکھے لاڈلے کو قابو کیا کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ صد شکر کہ دیور ڈھاکہ میں کام کرتا تھا اور بھائی کی شادی میں شرکت کے لئے چھٹی لیکر جیسور آیا تھا۔ اس کی دوری باعث اطمینان تھی اور خیال یہی تھا کہ نظر اوجھل پہاڑ
اوجھل۔ مگر زندگی کی ایک مصیبت یہ بھی تو ہے کہ سب کچھ حسب آرزو نہیں ہوتا۔
ابتدائی دولہناپے کے دن گزرنے کے بعد جب کھلی آنکھوں سے میاں کو جانچا تو ان کے نمبر مزید کم ہو گئے کہ چاکری بھی اوسط تھی اور وہ نہ طرح دار تھے اور نہ ہی دل دار ۔ سونے پہ سہاگہ کہ متلون مزاج بھی۔ دل مسوس کر رہ گئی۔

شروع کے کچھ عرصے تو میاں کا پلو سے بندھے رہنا رومانی لگا مگر ایک بچے کے بعد دال روٹی زیادہ اہم ہو
گئ۔ میاں کی قربت بے زار کرنے لگی۔ میاں آئے دن نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتے تھے۔ اس مارے گھر میں دانتاکل شروع گئ کہ وہاں تو پہلے ہی ساون ہرے نہ بھادوں سوکھے ۔ پری پیکر کی طبیعت میں غصہ اور بےزاری بڑھتی گئی ۔ ساس اور نند بھی جب محاذ آرائی پر
کمر بستہ ہو گئی تو حالات بجائے سنبھلنے کے دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ شادی کے تیسرے ہی سال دوسرے بچے کی آمد تھی اور آپس کی چخ چخ اور غیر مقوی غذا نے صحت اور جوبن دونوں ہی کو گہنا دیا تھا۔ دل میں میاں کے لیے جو تھوڑا بہت خیال یا پیار تھا وہ بھی حالات کی سختی میں بخارات بن کر اڑ گیا اور شادی خوشی تو کیا دیتی الٹا حبس بےجا لگنے لگی تھی۔
دوسرے بچے کی پیدائش سر پر تھی اور حسب عادت میاں اپنی تنک مزاجی کے سبب نوکری

چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے۔
اس آڑے وقت میں دیور آگے آیا اور بھائی بھاوج کو اپنے پاس ڈھاکہ بلا لیا کہ بڑا شہر ہے نوکری کے مواقع بھی زیادہ۔ ان کو اپنے گھر مکین کیا۔ دیور سول انجنیئر اور اس کی چاکری بہت بڑھیا ۔ اس کا کرائے کا گھر “اکبری منزل”
بہت شاندار اور کشادہ۔ اس بڑے گھر کے عیش و آسائش نے پری پیکر کا دل میاں کی طرف سے مزید کھٹا کر دیا۔ جیسے جیسےاس کی میاں سے شکایت اور دوری بڑھتی چلی گئی، ویسے ہی ویسے دیور کی عنایات اور تسلی کا رنگ و لہجہ بھی بدلتا چلا گیا۔ دیور کے پاس کھلا پیسہ تو تھا ہی دل کا بھی دیالو تھا۔ سب سے بڑی بات دل اس کا بھی بے ایمان کہ آرسی مصحف کی رسم میں اس چمکتے چاند پر وہ بھی اپنا دل ہار چکا تھا۔ اس نے دل پر بڑے پہرے لگائے، بند باندھا مگر وہ دل ہی کیا جو قابو میں آ جائے۔

عِشق خاک نہ کر دے تو عشق خاک ہوا۔

وہ بھی جلوے کی تابانی سے خاک ہو چکا تھا۔ اب اس قربت نے مانو فتیلہ ہی جلا دیا۔ سنمیا ہو شاپنگ ہو یا کوئی اور تفریح ہر ہر جگہ دیور ساتھ۔ وہ کھل کر خرچ کرتے اور رچ کر بھاوج کو سراہتے کہ وہ لفظوں کی ساحری کے سامری تھے۔ پری پیکر کو دیور کا سراہنا من بھاتا اور دیور کو بھابھی کا روپ سروپ اور ہاتھوں کا کھاجا۔ وہ جوں جوں دیور کی اسیر ہوتی گئیں توں توں میاں منظر سے
دھندلاتے گئے۔ میاں مٹی کے مادھو بنے رہے نہ تو بیوی کو روکا اور نہ ہی بھائی کو ٹوکا۔ شیطان کب گھات میں نہیں ہوتا؟
اس نے پورا زور لگا کر دونوں کے نفس کی بھٹی کو دہکایا اور یوں تنہائی و یکجائی نے ہر حد پار کرلی۔ میاں نے جو پانی سر سے اونچا ہوتے دیکھا تو خاموشی سے بیوی کو تین لفظ بول کر دنیا کی بھیڑ میں گم ہو گئے۔ میکہ سسرال سب نے لعن طعن کی اور ان دونوں سے تعلقات منقطع کر

لئے پر وہ دونوں مدہوش اپنی دنیا میں مست تھے۔ چار دن دنیا نے باتیں کیں پھر سب اپنی اپنی روش پر رواں دواں ہو ئے۔ ان دونوں نے نکاح کر لیا اور وہ ایک دوسرے کا ساتھ پا کر بہت خوش تھے۔ دونوں دل کی بازی جیتے جانے پر نازاں و فرحاں تھے۔ ان کی تو دنیا ہی جنت تھی۔ ہنستے کھلکھلاتے خوشی کا ایک لمبا عرصہ ساتھ گزرا اور چار بچے مزید ہو گے۔ دو پہلے گھر سے اور چار دوسرے میاں سے۔
وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا رہا۔
گزرتے وقت کی بے آواز چاپ نے حسن سے خراج وصول کیا سو روپ بھی ڈھلا اور جزبات کی شوریدہ سری بھی اعتدال پزیر ہوئی۔ شادی کے بائیس سال بعد اتفاق کچھ ایسا ہوا کہ میاں کا آب و دانہ پردیس میں مقدر ہوا۔ یہ ان دونوں کے مابین پہلی جدائی تھی۔ میاں سات سمندر پار گئے تو پہلی بار پری پیکر کو تنہائی اور یکسوئی میسر آئی۔ دو بیٹیاں تعلیم سے فارغ ہو چکیں تھیں اور ان کو بیاہنے کی فکر بھی دامن گیر

تھی۔ پری پیکر عرصے سے اپنی چھوٹی سی بسائی ہوئی دنیا میں گم تھی، کنبہ برادری سے قطع تعلق۔ اب جو حقیقی دنیا میں واپس آئی تو دور دور تک کوئی مونس و غم خوار نہ تھا۔ دو چار جگہ بیٹیوں کے رشتے کی بات چلانے کی کوشش کی تو لوگ شیش محل کا آئینہ بن گئے۔ سارا ماضی جیتا جاگتا سامنے آ گیا۔ تنہائی بڑی ظالم شہہ ہے، وہ انسان کا اندرون برہنہ کر کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔ انسان سب سے زیادہ اپنا سامنا کرنے سے گھبراتا ہے، آئینہ دیکھنے سے گریزاں رہتا ہے۔ اپنے کڑوے سچ کا سامنا تو بڑے بڑے سورما نہیں کر سکتے پری پیکر کی کیا اوقات تھی۔ اپنی سیاہ کاریوں کا ادراک اور اولاد کی آنکھوں میں لکھی تحقیر نے پری پیکر کے دل کو ایسی چوٹ لگائی کہ وہ اوندھے منہ جائے نماز پر گری۔ اس کو اپنی سنگ دلی اور غلطیوں کا شدت سے احساس ہوا مگر افسوس! کہ مداوا ممکن نہیں تھا اور حاصل محض پچتاوا ہی پچتاوا۔

پہلے میاں کی کوئی خیر خبر نہ تھی۔ بس اڑتی اڑتی خبریں ملتی کہ کسی نے سلہٹ میں بابا جلال کے دربارمیں دیکھا تو کسی نے سندربن میں جٹادھاری۔ انہوں نے کبھی کسی سے رابطہ نہیں کیا نہ ہی خاندان میں سے کوئی ان کی تلاش میں نکلا۔ ہاں ان کا بیٹا جوان ہونے کے بعد ضرور ان کی تلاش میں سرگرداں پھرا مگر باپ کی دید سے محروم ہی رہا۔ وہ ماں سے برگشتہ اور بدگمان ہو کر گھر چھوڑ کر جا چکا تھا۔ بڑے بیٹے کی جدائی نے پری پیکر کو توڑ کر رکھ دیا ، اسے اپنا آپ بڑا کمتر اور گھناؤنا لگتا، ایسے میں ہمت بڑھانے کو پاس دلدار میاں بھی نہیں تھے دونوں کے
درمیان اب سات سمندر کی دوری حائل تھی۔ تنہائی نے جب سوچ کو یکسوئی فراہم کی تو دل کی دنیا ہی پلٹ گئی۔ گناہ کے احساس اور شرمندگی نے دنیا ہی چھڑوا دی۔ پھر تو پری پیکر نے دنیا سے اور اپنی بسائی ہوئی جنت سے منہ ہی موڑ لیا، بس وہ تھی اور جائے نماز پر اس

کی گریہ زاریاں ۔ آخیر عمر تک وہ احساس جرم میں مبتلا رہی اور اپنے آپ کو صرف اپنے کمرے تک محدود کر لیا۔ دنیا تیاگی اور ایسی تیاگی کہ پھر کھلا آسمان نہیں دیکھا ۔ سب بچوں کی شادیاں ہوئیں ، بہویں آئیں، داماد آئے۔ بچوں کے بچے ہوئے مگر پری پیکر نے پھر کمرے کی چوکھٹ نہیں پھلانگی۔ آخری سانس تک اپنی لے تجویز کردہ سزا پر قائم رہی اور ایک رات اسی خاموشی اور تنہائی میں دوسرے جہان کو عازم سفر ہوئی۔

لوگ کہتے ہیں اکبری منزل منحوس ہے کسی کو بسنے نہیں دیتی۔ اب بھلا بتاؤ اس میں، میں کیسے سے قصور وار ہوئی؟۔ میرے مکینوں کے دکھ نے میرے اندر گھاؤ کی فصل اگا دی ہے۔ میں اپنے مکینوں کے دکھوں کی ناظر ان کی ناتمام آرزوؤں کے بھابھنڑ میں سلگتی رہتی ہوں ۔ ان کی آہیں اور سسکیاں پپڑی کی طرح میری دیواروں پر ثبت ہیں۔ میری تو نیؤ میرے باسیوں

Advertisements
julia rana solicitors london

کے آنسوؤں سے تر ہے۔
ان کے آنسوؤں کے نمک نے میری بنیاد کو شور زدہ کر دیا ہے اور میری سنتی سہتی دیواریں دیواریں کہاں ہیں!
یہ تو “دیوار گریہ” ہیں۔
میں
“اکبری منزل”
مکان نمبر۔ ٨
گلی نمبر۔ ٣
محلہ۔ آرام باغ
ڈھاکہ۔
میں اپنے مکینوں کے دکھ میں بلکتی، اجاڑ اور ڈھنڈر ہو گئ ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دیوار گریہ۔۔شاہین کمال

  1. GOOD NARRATIVE OF THE LOVE AND THE LOVED.
    BUT MORE IS THE MIXING OF THE MEVATI AND ROHTAKI LANGUAGE THAT MADE THE SITUATION MORE ATTRACTIVE TO READ SO I WAS FORCED TO READ THE ARTICLE IN FULL.
    HOWEVER, GENDER PSYCHOLOGY DOES NOT AGREE WITH YOUR PROPOSITIONS AND BELIEVES IN, EVERY THING WE DO IN THE SOCIETY IN THE DAILY BUSINESS IS REACTIONARY AND WE IN CASE OF SOME ONE’S ACTION ACCEPT IT,REJECT IT OR PROPOSE THE ALTERNATIVE ONE.
    SO ACCORDING TO THIS FORMULA EVERYTHING IS PERFORMED AND IT IS CALLED THE LIFE CYCLE.
    MOSTLY, WOMEN DO WRITE THEIR UNTOLD AND THE UNSAID AND THE SAME SAME AND NEVER T ALK ABOUT THE IR SOCIAL AGENDA ,SOME ARE FOND OF ENTERTAINMENT TV CHANNELS TO BURN THEIR LIVING AND BURY THEIR FAMILY SYSTEM IN THE NAME OF HAVING ACCESS TO JUSTICE AS THE EQUAL GENDER WITH EQUAL RIGHTS AND RESPECT AND GET RID OF BLOODY JOINT FAMILY SYSTEM.
    YOU MUST WRITE ONE REPORT ON THE BENEFITS OF THE TV CHANNELS THAT PRESENT THE ENTERTAINMENT FOR THE MAJORITY WOMEN AND THEIR GAINING BY THESE PROGRAMMES.
    THESE PROGRAMMES ARE VERY GOOD TO RUIN THE FAMILY SYSTEMS, RESPECT OF THE ELDERS,MAKING THE KIDS,THE YOUTH RUBBISH,SHOUTING, HOOTING,ROARING,CRYING,PROTESTING AND RESULTANTLY ABUSING THE JOINT FAMILY SYSTEM AND POSING AT LARGE TO CHOOSE THE NUCLEAR FAMILY SYSTEM TO HAVE PEACE.

Leave a Reply