کس طرح مَیں سمیٹوں / رفیق سندیلوی

کس طرح مَیں سمیٹوں

مرے بازوؤں کا یہ حلقہ بہت تنگ ہے
پُھول ہی پُھول ہیں
میرے چاروں طرف
طشت ہی طشت ہیں
جن میں لعل و جواہر کے انبار ہیں
کیا خزانے ہیں
یہ کیسی دُنیا کے آثار ہیں
کس علاقے کا نقشہ ہے یہ
کن بہشتوں کے باغات ہیں
ہر روَش پر اَنار اور مہتابیاں
اطلسی جالیوں میں
خطوطِ بدن کے حجابات ہیں
شہ جھروکوں میں
زلفوں کے سائے ہیں
پورب کہ پچھم سے اُڑ کر
سیہ، نقرئی ابر کے
چھوٹے چھوٹے سے ٹکڑے یہاں
کس پہاڑی کے پیچھے سے آئے ہیں
کتنی سجاوٹ ہے
کیسی یہ تزئین ہے
راستوں میں بچھا دُور تک
ایک ابریشمیں، سُرخ قالین ہے
کیسا گہرا ترنّم ہے
جھرنے کی آواز میں
کوئی اَسرار سا ہے
پرندوں کی پرواز میں
رس کی بو ندیں
ٹپکتی ہیں شاخوں سے
پوروں سے
سونے کے ذرّات جھڑتے ہیں
مدہوشیوں میں
قدم آسمانوں میں پڑتے ہیں
کیسی کشش چشمِ رویا میں ہے
آگ کس نوع کی
آئینے میں دہکتی ہے
بجلی کے کوندے میں
کس کی شباہت چمکتی ہے
اے آسمانی دھنک!
تیرے پیکر میں
یہ کون سا رنگ ہے
کس طرح میں سمیٹوں
مرے بازوؤں کا یہ حلقہ بہت تنگ ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

کیا گھنی رات ہے
وقت یک سُو ہے
ٹھہرے ہُوئے پانیوں میں
ستاروں کی جِھلمِل ہے
اے لا مکاں!
تیرے سینے میں
جیسے دھڑکتا ہُوا کوئی دِل ہے
ازل سے کوئی چاند روشن ہے
مئے کے پیالے میں
خُوشبُو کے ہالے میں
صرف ایک مَیں
اور صرف ایک تُو ہے
عجب سِحر ہے
ایک جادو ہے
اے زندگی!
تیرے سارے قصَص
تیری سب داستانوں کے اندر
بہت حُسن ہے
الغرض اِن زمینوں زمانوں کے اندر
بہت حُسن ہے
ایک لَے
ایک سُر تال ہے
ایک آہنگ ہے
کس طرح میں سمیٹوں
مرے بازوؤں کا یہ حلقہ بہت تنگ ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply