کوئی ایک امید افزا شعبہ بتائیں؟/یاسر جواد

بچوں سے یونیورسٹیوں میں چار سال تک لاکھوں روپے سالانہ فیس لینے کے بعد جب ٹرانسکرپٹ (رزلٹ کارڈ) لینے کا وقت آتا ہے تو دوبارہ پندرہ پندرہ روپے لیے جاتے ہیں۔ آگے داخلے کے لیے بھی کئی قسم کے ٹیسٹ اور فیسیں رکھ دی گئی ہیں۔ دوسری طرف اسسٹنٹ کمشنروں کے لیے بڑی بڑی اور مہنگی گاڑیاں سرکاری خرچ پر ایشو کی جا رہی ہیں۔ اِس سے ہماری ترجیحات کا ایک دفعہ پھر اظہار ہوتا ہے۔ ریاستِ خداداد میں کوئی پہلو تسلی بخش نہیں۔ آپ ہی کوئی ایک امید افزا شعبہ بتا دیں؟ تھانے میں رپورٹ درج کروانے جانا ہو تو سٹیشنری کا خرچ تک دینا پڑتا ہے۔ شہریوں کو جتھوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ عدالتیں رنگ بازی کے سوا کچھ نہیں کرتیں۔

 

 

 

اکثر لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ یورپ تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’ہمیں‘‘ تاریخ میں نیچا دکھاتا ہے اور ’’ہماری‘‘ عظمتوں کو بیان نہیں کیا جاتا۔ آپ کو یہ تک تو معلوم نہیں کہ ’’ہم‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا اس ہم میں امت مسلمہ شامل ہے، یا سارا مشرق (بشمول چین و جاپان)، کیا ہم سے مراد 75 سالہ تاریخ والا قلعہ نما ملک شامل ہے یا ہم کوئی تصوراتی کامل قوم ہے جسے بس ذرا سی نمی‘‘ کی ہی ضرورت ہے؟

مجھے ایتھنز کا سولون یاد آتا ہے بار بار جو تاریخی ارتقا اور انسانی شعوری ترقی کی تمام تھیوریز کو شکست دیتا ہوا لگتا ہے۔ عجیب آدمی تھا۔ جب وہ مصر گیا تو بادشاہ کریسس نے اُس سے پوچھا کہ کیا اُس کے خیال میں وہ (یعنی) مسرور ہے؟ سولون نے کہا، ’’یہ بتانا ایسا ہی ہو گا، جیسے کشتی ہونے کے دوران ہی کسی کے فاتح ہونے کافیصلہ دے دیا جائے۔‘‘ اقوام بھی اسی طرح متواتر کشتی کے عمل سے گزرتی رہتی ہیں، لیکن کم سے کم مُکا چلانا تو آتا ہو، راؤنڈز کے اصول تو معلوم ہوں۔ یا صرف نعرے مارنا ہی کافی ہو گا؟

سولون ڈکٹیٹر تھا، لیکن 2600 سال پہلے کے ایتھنز میں ڈکٹیٹر ہر سال منتخب ہونے والا عہدیدار تھا۔ زندگی کے آخر میں نئے ڈکٹیٹر پسی سٹراٹس نے قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے اپنا مصنوعی زخم دکھایا اور تقاضا کیا کہ اُسے باڈی گارڈز دیے جائیں۔ سولون نے کہا کہ ’’اے ایتھنز والو، میں تم سے زیادہ عقل مند ہوں، اور دوسروں سے زیادہ بہادر بھی: تم میں اُن لوگوں سے زیادہ عقل مند جو پِسی سٹراٹس کی مکاری کا ادراک نہیں رکھتے، اور اُن سے زیادہ بہادر جو اِس سے آگاہ ہیں مگر خوف کے مارے خاموش بیٹھے ہیں۔‘‘ پھر بھی اُسے پندرہ باڈی گارڈز کی منظوری دے دی گئی، اور اُس نے چار سو گارڈز کا دستہ بنا لیا۔ پھر بھی سولون کی بنائی ہوئی روایات اتنی مستحکم تھیں کہ پسی سٹراٹس بھی انحراف نہ کر سکا۔

مملکت خداداد کی تاریخ میں کوئی بھی ایسی مثال ڈھونڈنا محال ہے جو درست یا غلط تو بعد کی بات ہے، اپنی بات پر قائم تو رہے۔ اندر سے سب کے سب تماش بین اور بزدار جیسی اہلیت کے مالک ہیں۔

جہلاء طلبا کو ڈگریاں ’عطا‘ کرتے ہیں حالانکہ اُنھوں نے بہت سی رقم ادا کی ہوتی ہے۔ ہر گلی نے اپنے گارڈز پالے ہوئے ہیں، حالانکہ ریاست ٹیکس لیتی ہے۔ سولون کے بارے میں آج ول ڈیورانٹ پڑھتے ہوئے بہت سے نکمے خیالات آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری مایوسی دور کریں اور مجھے کسی قابل پاکستانی حکمران کے متعلق بتائیں!

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply