ہر فکر کو دھویں میں اڑاتا چلا گیا/اظہر علی

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھویں میں اڑاتا چلا گیا

 

 

 

صرف ایک سگریٹ اُردو دنیا کے چیخوف راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ہے۔ یہ کہانی چوبیسوں گھنٹوں پر مشتمل ہے جو سنت رام اور اس کے بیوی بچوں کی خانگی مسائل، نفسیاتی الجھن اور اندرونی کشمکش کی روداد بیان کرتی ہے، کہانی کی ابتداء  صبح چار بجے سے شروع ہوتی ہے اور اگلی صبح کے چار بجے پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ سنت رام صبح کے چار بجے اٹھتا ہے اور اپنے رب کو یاد کرنے سے پہلے سگریٹ نوش فرماتا ہے، اس کی بیوی دیبی جسے وہ پیار سے دھوبن کہتا ہے ہر وقت گھر کے کاموں میں مصروف ہوتی ہے،کوئی پہر ایسا نہیں گزرتا جب اسے کسی کام سے فرصت حاصل ہو۔ اس کا بیٹا پال نئے خیالوں کا مالک ہے اور شراب پینے کا عادی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس دور جدید میں ماں باپ کی عزت اس پر لازم نہیں ہے۔ بڑی بیٹی لاڈو اپنے سسرال مطلب اپنے خاوند سے ناراض ہو کر میکے آئی ہے۔

اس دن بھی سنت رام جلدی سے اٹھ جاتا ہے اور سگریٹ پینے کی شدید طلب محسوس  کرتا ہے، سگریٹ پینا اس کے نزدیک صرف لَت نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے وہ اپنی  نفسیاتی کشمکش اور الجھنوں کی  گرہیں کھولتا ہے۔ کہانی کا تانا بانا سنت رام کی ذہنی کشمکش اور سگریٹ کے مابین تعلق پر باندھا گیا ہے۔ سگریٹ ہی وہ واحد چیز ہے جو انسان کے جملہ ذہنی عوارض اور نفسیاتی مسائل کو نقطہ اتصال پر لاتی ہے اور زندگی میں اٹھنے والے طوفانوں کے طلاطم کو کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر سیسہ پلائی دیوار کے جیسے مزاحمت کرتی ثابت ہوتی ہے۔ اس کے پاس چونکہ سگریٹ نہیں ہوتی وہ اپنے بیٹے پال کے کمرے میں چلا جاتا ہے اور سٹیٹ ایکسپریس کے ڈبے سے ڈرتے ڈرتے سگریٹ نکالتا ہے۔ وہ اس حرکت سے بہت ڈر اور ندامت محسوس کرتا ہے مگر ‘اپنا خون ہے’ والے خیال سے اپنے منفی جذبات کو پرے دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے مگر بے سود۔۔ اپنے کاروباری اور اقتصادی خساروں اور ساتھ ساتھ بیوی بچوں کے روز کے طعنے سنتے ہوئے کہانی آگے بڑھتی ہے اور بالآخر پُرکشش اور خوشگوار احساس پر ختم ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

راجندر سنگھ بیدی کے بارے میں منٹو نے کہیں ایک جگہ کہا تھا کہ تم سوچتے بہت ہو، لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، بیچ میں سوچتے ہو، اور بعد میں سوچتے ہو‘‘۔بیدی کی یہی خوبی باقی افسانہ نگاروں سے منفرد ہے کہ وہ خود قلم کی نوک کی تقلید کرنے کے برعکس قلم کو میکانکی انداز سے حرکت دیتے ہیں اور کہانیوں کا جالا سادہ فہم انداز سے بُنتے ہیں اور چُھپے  اور پوشیدہ جذبات کو بآسانی پیش کرنے میں یکتا ہنر رکھتے ہیں۔ مذکورہ افسانہ “صرف ایک سگریٹ” اس طرز کے اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔ بیدی کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اطہر پرویز لکھتے ہیں کہ بیدی کسی اور افسانہ نگار کی طرح کردار تخلیق نہیں کرتے۔ انہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بنے بنائے، ڈھلے ڈھلائے، دیکھے دکھائے کردار مل جاتے ہیں اور وہ ان کو لفظوں میں منتقل کر دیتے ہیں اور جو تبدیلی کرتے ہیں وہ فنکارانہ ہوتی ہے، جس میں ہم ان کی آرزومندی کی جھلک بھی دیکھ سکتے ہیں۔ دنیائے اردو میں پریم چند کے بعد افسانہ نگاری میں جو بڑے نام یکے بعد دیگرے آتے ہیں وہ کرشن چندر، منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply