بحیثیت قوم ہمارا قنوطی پن/عامر الیاس

ہم بحیثیت قوم قنوطی ہوچکے ہیں۔
پچھلے چند ماہ وطن عزیز میں شورِ ماتم بپا رہا کہ ہمیں آئی ایم ایف سے قرض نہیں ملے گا اور یوں ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس آہ و بکا میں میرا ایک دوست جو شاید اس معاشرے کا واحد رجائیت پسند یا optimistic انسان ہے، صرف اسی کا ایمان تھا کہ گرچہ آئی ایم ایف کسی حسینہ کی طرح مکر ضرور کر رہا ہے ، لیکن آخر شب انکار نہیں کرے گا۔یہ ہمیں قرضہ ضرور دے گا اور اس کے بعد دنیا کے سامنے ہمارا سر فخر سے بلند بھی ہوگا۔

جب کوئی دوست اس سے استفسار کرتا کہ تمہاری اس خوش فہمی کا سبب کیا ہے؟ تو وہ بے اعتنائی سے جواب دیتا، “غم نہ کر، جس دن ہم ادھار کے ڈالر پکڑ لیں گے، اس دن بتاؤں گا”۔

خدا خدا کر کے بالآخر وہ دن بھی آن پہنچا جس دن کا خودی میں نام پیدا کرنے والوں کو شدت سے انتظار تھا ۔ یہ وہ سعید دن تھا جس دن منتوں، ترلوں اور ہمارے ناک رگڑنے کے بعد آئی ایم ایف نے “نکی جئی ہاں “ کردی۔ لہذا آج شام ہم سب دوست اس دور اندیش خوش فہم کے آستانے پر گئے اور اپنے دیرینہ سوال کے جواب کے طلب گار ہوئے۔

اس نے ہمیں جو بتایا وہ سب آپ سے شیئر کرنا مقصود ہے تاکہ آئندہ جب بھی ایسا کٹھن وقت آئے تو آپ اپنے ملنے والوں کو دلاسہ دیتے ہوئے کہ سکیں ، “ غم نہ کر، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ “

اس سے پہلے کہ میں اپنے دوست کا جواب آپ کو بتاؤں، پہلے اس کا تعارف کرانا ضروری ہے۔

میرا یہ دوست انتہائی مثبت سوچ رکھتا ہے اور بُرے سے بُرے حالات میں بھی اچھائی کے پہلو ڈھونڈ  لاتا ہے۔ وہ ہماری محفل کا واحد optimistic شخص ہے لہذا اسی مناسبت سے ہم اسے کافی عرصہ پیار سے opium کہتے رہے۔ پھر ایک دن ہمیں محسوس ہوا کہ لفظ “اوپیم” اس کی شخصیت کا صحیح احاطہ نہیں کر تا اس لیے ہم نے اس دن کے بعد اسے پیار سے “افیمی” کہنا اور پکارنا شروع کر دیا۔
اس کے نام کی تبدیلی کا واقعہ بھی سُن لیں۔ یہ چند سال پہلے کی  بات ہے ایک دن ہم سب دوست چائے پر اکٹھے ہوئے ۔ ہمارے ایک دوست نے ذکر کیا کہ اس کے سب گھر والے سخت پریشان ہیں ۔ ڈاکٹر نے اس کے والد کو بتایا ہے کہ ان کے دل کو خون مہیا کرنے والی شریانیں بند ہیں۔ اس لیے انہیں دل کے دورے کا احتمال ہے۔
یہ سنتے ہی افیمی فوراً بولا، “غم نہ کر! شکر کرو کینسر نہیں ہے ۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کینسر سے دل کے دورے کی نسبت زیادہ اذیت ناک موت واقع ہوتی ہے۔”
ہمیں افیمی کی یہ بات اس لیے بُری نہیں لگی کیوں کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ ایک مثبت طبیعت کا حامل شخص ہے۔

ہاں مجھے یاد آیا ان پچھلے پندرہ بیس سالوں میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے جب ہمیں اس پر سخت غصہ آیا ۔ اس دن ہم سب نے اس سے دست بستہ عرض کی کہ اللہ کا نام ہے اپنی رجائیت پسندی ترک کرو اور ہمیں زندہ رہنے دو۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک جاننے والے نے اپنے پانچ سالہ بیٹے کی تصویر اپنی فیس بک کی دیوار پر آویزاں کی۔ اس تصویر کو سینکڑوں لوگوں نے پسند کیا۔ بیسیوں لوگوں نے اس تصویر پر اپنی رائے دے کر اس کی پذیرائی کی۔
افیمی نے البتہ اس تصویر پر ایک عجیب سا کمنٹ کیا۔ اس نے لکھا ، “تمہاری خود اعتمادی کو سلام ہے ۔ اگر تم زندہ رہے تو تم دیکھو گے کہ تمہارا یہ بیٹا بڑا ہو کر ڈرماٹولوجسٹ بنے گا۔”
بچے کے باپ نے خوشی سے سوال کیا کہ ، “تمہیں میرے بیٹے کے شاندار مستقبل کا کیسے اندازہ ہوا ہے؟”
افیمی نے جواب دیا، “میری پھوپھی جس امراضِ جلد کے ماہر ڈاکٹر سے اپنی دائمی خارش کا علاج کرواتی تھیں وہ بھی ایسا ہی بدصورت تھا۔”

ہم نے افیمی کو سمجھایا کہ جن بچوں کے والدین ان کی تصویریں فیس بک اور انسٹا گرام پر لٹکاتے ہیں وہ سب بچے اپنے والدین کی نظر میں خوب صورت ہوتے ہیں ۔ لیکن فرض کرو اگر تمہیں لگا بھی کہ بچہ قبول صورت ہے تو ضروری نہیں تھا کہ تم اپنی مثبت سوچ کا اظہار کرو۔ اپنی سوچ اپنے پاس رکھا کرو۔

افیمی کا جواب تھا، “غم نہ کر! جس دن اس نے ایف سی پی ایس کیا اس دن آپ لوگ مجھ سے ضرور ملنا”

میں معذرت خواہ ہوں، افیمی کا تعارف لمبا ہو گیا ہے۔ خیر آج شام اس نے ہم دوستوں کو بتایا کہ اس کی خوش گمانی بلا وجہ نہیں تھی۔
افیمی گویا ہوا، “ پہلی بات یہ ہے کہ جب کوئی مقروض ڈوبتا ہے تو اس کا پہلے لیا گیا قرضہ بھی اس کے ساتھ ہی ڈوب جاتا ہے اور دنیا کا کوئی سمجھ دار قرض خواہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے مقروض کی جیب خالی ہو جائے۔ اس لیے  مجھے یقین تھا کہ ہم اس بار بھی سرخرو ٹھہریں گے۔ “

افیمی کے نزدیک ہماری کامیابی کی دوسری اہم وجہ ہمارا تجربہ ہے۔ اس کا کہنا ہے، “ ہمیں قرض لینے کا ایسا منفرد تجربہ ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ، بینک یا تنظیم ہو جس سے ہم نے قرضہ لینے کا تہیہ کیا ہو اور پھر ہمیں ناکامی ہوئی ہو ۔ ادھار لینے میں ناکامی ہماری لغت میں شامل نہیں ہے۔ ہم نے اپنی پچھتر سال سے زائد زندگی میں ایسے آئی ایم ایف کئی دفعہ بھگتائے ہیں اس لیے  میرا ایمان تھا کہ ہم ناکام نہیں ہوں گے۔ “

ہمیں افیمی نے مزید بتایا کہ اس کی مثبت سوچ کی تیسری وجہ ایٹم بم ہے ۔ دنیا کو معلوم ہے کہ اگر ان کے ہاتھ پھیلانے پر ہم نے کہہ  دیا ، “معاف کرو” تو انہوں نے دنیا کے کسی چوک میں ریڑھی لگا کر اس پر اپنا بم رکھنا ہے اور اسے بیچنا شروع کردینا ہے۔لہذا عافیت اسی میں ہے کہ انہیں ادھار دے دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تیسری وجہ سنتے ہی ہم سب دوستوں نے اٹھ کر افیمی کے پاؤں چھوئے اور پھر ان سے سوال کیا ، “پیر و مرشد ہمارے ملک میں آخر سکون کب ہوگا؟”
افیمی نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور بولا، “غم نہ کر، سکون قبر میں ہی ملے گا”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply