خلع اور طلاق کا معنیٰ و مفہوم/عدیل ایزد/پہلا حصّہ

خلع کا لغوی معنیٰ :

“خلع کے لغوی معنی  ہیں اتارنا، زائل کرنا، جدا کر دینا”

قرآن کی روشنی میں:

قرآن مجید میں خلع کا معنیٰ کچھ اس طرح آیا ہے

إِنِّىٓ أَنَا۠ رَبُّكَ فَٱخْلَعْ نَعْلَيْكَ  إِنَّكَ بِٱلْوَادِ ٱلْمُقَدَّسِ طُوًى

ترجمہ: ( میں ہی تیرا رب ہوں جوتیاں اتار دے تو وادی مقدس طویٰ میں ہے)

قرآن کی آیت سے بھی خلع کا لغوی معنی جدا کرنا، الگ کرنا، اتار دینا کے معنوں میں آیا ہے۔

حدیث کی روشنی میں:

حدیث میں اس کے معنیٰ کو ان الفاظ میں سمجھا جا سکتا ہے

من فارق الجماعةَ قَيْدَ شِبرٍ فقد خلع رِبقةَ الإسلامِ من عُنُقِهِ

ترجمہ: (جو شخص ایک بالشت برابر بھی اسلامی اجتماعیت سے نکل گیا تو اس نے اسلام کا قلادہ اپنے گلے سے اتار پھینکا)

حدیث کے الفاظ سے بھی خلع کا معنیٰ اتار پھینکنا ثابت ہو رہا ہے۔ یعنی کسی چیز کو خود سے  جدا  کردینا۔

عرف عام میں زوجین کے مابین تفریق کرانا ان کا نکاح کے بندھن کو اتار پھینکنا اور  دونوں کو جدا کر دینا خلع کہلاتا ہے۔

اصطلاحی معنی:

امام ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں۔

إزالة ملك النكاح الصحيح بلفظ الخلع

بدل یا معاوضہ کے ذریعے خلع کے لفظ کے ساتھ ملک نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں۔

اسلام میں پہلی خلع:

اسلام میں خلع کا جو پہلا واقعہ پیش آیا وہ احادیث میں درج ہیں ۔ حق خلع کا استعمال سب سے پہلے حضرت ثابت بن قیس ؓ کی زوجہ نے استعمال کیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ  سے مروی ہے کہ

“أنَّ امرأةَ ثابتِ بنِ قيسٍ أتتِ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ، فقالَت : يا رسولَ اللَّهِ ! ثابتُ بنُ قيسٍ ، ما أعيبُ عليهِ في خُلُقٍ ولا دينٍ، ولَكِنِّي أكْرَهُ الكُفرَ في الإسلامِ، فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ: أتردِّينَ عليهِ حديقتَهُ؟ قالَت : نعَم قالَ رسولُ اللَّهِ : اقبَلِ الحديقةَ وطلِّقها تَطليقةً”

ترجمہ: ( حضرت ثابت بن قیس ؓ   کی اہلیہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں: یارسول الله ﷺ! میں کسی بات کی بنا پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ ان کے اخلاق سے اور نہ ان کے دین سے لیکن میں مسلمان ہو کر احسان فراموش بننا پسند نہیں کرتی۔  نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو۔  وہ عرض گزار ہوئیں، جی ہاں ۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان کا باغ دے دو اور ان سے ایک طلاق لے لو۔)

خلع کی ضرورت و اہمیت:

اپنی اصل کے اعتبار سے طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ لیکن جب کبھی زوجین میں حالات و واقعات اس نہج پہ پہنچ جائیں کہ دونوں کا ایک چھت تلے رہنا ممکن نہ رہے تو علیحدگی اختیار کر لینا لازمی امر ثابت ہوتا ہے۔

اگرچہ اسلام میں میاں بیوی کے رشتے کو جوڑے رکھنے کی حمایت کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے۔

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ

ترجمہ: اور ان کے ساتھ مناسب طریقے سے زندگی  گزارو۔

معاملہ اگر اس کے برعکس ہو تو دونوں کو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے کا اور ایک تلخ رشتے میں بندھے رہنے کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اور شریعت اس کی حمایت نہیں کرتی۔  جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے ۔

الظُّلْمَ ظُلُماتٌ يَومَ القِيامَةِ

ترجمہ: دنیا میں کیا ہوا ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا سبب بنے گا۔

خلع کا تصور اسلام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجود ہے ۔ جس کی مثال اسلام میں پہلی خلع کے کیس سے ثابت ہے۔ نکاح کے بندھن میں بندھ جانے سے دو انجان لوگ ایک ایسے رشتے سے منسلک ہو جاتے ہیں جس سے انہیں خاندانوں اور نسلوں کی بنیاد ڈالنا ہوتی ہے اور اگر اس رشتے میں محبت و مودت کے جذبات موجود نہیں ہوں گے تو پھر اس کھیت کی فصل جو اولاد کی صورت میں معاشرے کا ایک لازمی جزو ہے وہ کسی طور پر بھی معاشرے کے لیے مثبت پہلو ثابت نہ ہوگی ۔ کیونکہ جس گھر میں گھریلو جھگڑے اور فساد ہوں گے اس گھر میں بچوں کے ذہن میں تشدد اور فساد پرورش پائے گا ۔ اس طرح کی صورتحال میں عقل و دانش اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دونوں کو اپنے راستے جدا کر لینے چاہئیں۔

  خلع کا شرعی طریقہ

خلع کی شرعی حیثیت:

خلع کی شرعی حیثیت پر فقا و مجتہدین کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس بارے میں

“حضرت عمر فاروقؓ، حضرت علیؓ،  حضرت عبد الله بن مسعودؓ، حضرت سعید بن مسیبؓ، حسن بصریؒ ، شعبی ابراہیم نخعیؒ، جابر بن زیدؓ، امام مالکؒ، امام ابو حنیفہؒ، سفیان ثوریؒ، امام اوزاعیؒ اور صحیح قول کے مطابق امام شافعیؒ کا مسلک بھی یہی ہے کہ خلع طلاق ہے۔”

خلع کا شرعی طریقہ:

خلع مرد اور عورت دونوں کی رضامندی سے عقد نکاح کے معاہدے کو توڑنے کا نام ہے۔

“خلع کا معاملہ زوجین از خود کر سکتے  ہیں، بعض ٖفقہاء نے اس کے لیے عدالت سے رجوع کرنا ضروری قرار دیا ہے، لیکن آئمہ اربعہ اور جمہور  ٖفقہاء کے نزدیک یہ معاملہ باہمی رضامندی سے ہو سکتا ہے۔ عدالت میں جانے کی ضرورت نہیں۔”

خلع کا معاوضہ:

نکاح ایک شرعی معاملہ ہے جو کہ ایجاب و قبول سے انجام پاتا ہے اسی طرح خلع بھی ایجاب و قبول کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔

خلع عورت کی طرف سے نکاح کے بندھن کو توڑنے کا مطالبہ ہوتا ہے اور عورت ہی نکاح کو فسخ کرانا چاہے تو اسے معاوضہ کے طور پر مرد کو بدل دینا ہوتا ہے جو کہ مہر معاف کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔

“اگر زیادتی عورت ہی کی جانب ہو تو اس صورت میں مرد کے لیے معاوضہ لینا جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ معاوضہ مہر کی مقدار سے زائد نہ ہو ”

صغیرہ بیوی کی خلع :

صغیره و کم سن بیوی جو اپنی بلوغت کو نہ پہنچی  ہو اگر اپنے عاقل شوہر سے خلع قبول کر لیتی ہے تو اس پر خلع واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن اس صورت میں مال کی ادائیگی ساقط ہو جائے گی۔

“لیکن والد اگر اس کی ضمانت ہے تو اس پر خلع کا متعینہ عوض لازم ہو گا اور اسے یہ اختیار نہیں ہو گا کہ خلع کے بدل کے طور پر اپنی بیٹی کا مہر شوہر سے معاف کرائے۔”

خلع کے احکام: صبی شوہر کی طرف سے خلع

“صبی  شوہر یا نا بالغ کی خلع معتبر نہیں بلکہ باطل ہے ۔”

اس بارے میں امام سرخسیؒ فرماتے ہیں ۔

قال السرخسی : “وخلع الصبي وطلاقه باطل؛ لأنه ليس له قصد معتبر شرعًا”

یعنی نابلاغ کی خلع باطل ہے۔

امام محمدؒ فرماتے ہیں۔

“اگر بالغ شوہر کسی نابالغ بچے کو اپنی بیوی کے خلع کا وکیل بنا  دے جائز ہے۔”

ان توكيل الصبى والمعتوه عن البالغ والعاقل

خلق کے احکام: خلع کا جواب

“عورت نے شوہر سے کہا میں نے اپنے نفس کو تجھ سے خلع کر دیا اور شوہر نے کہا کہ میں نے تجھے طلاق دے دی۔ تو بعض نے کہا کہ خلع پورا ہو گیا اور بعض نے کہا کہ ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی اور بعض نے کہا شوہر کی نیت دریافت کی جائے گی۔ ”

خلع کی شرعی حیثیت جیسا  کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ طلاق بائن کی ہے ۔ جس پر آپ ﷺ  کی حدیث بھی موجود ہے ۔ خلع کی شرعی حیثیت میں آئمہ و مجتہدین کا اختلاف موجود ہے۔

 خلع کے مسائل

خلع میں طلاق ثلاثہ کی نیت:

خلع میں طلاق ثلاثہ کی نیت کر لینا شوہر کی طرف سے اس ارادے سے خلع کو تسلیم کرنا طلاق ثلاثہ کا وقوع ہے۔

اس بارے میں الہند یہ میں ہے۔

كما في الهندية “تصح نيته الثلاث فيه”

یعنی، خلع دیتے وقت شوہر نے طلاق ثلاثہ کی نیت کرلی تو یہ تین طلاق واقع ہو جائیں گی۔

خلع کا ارادہ و نیت کرنا

خلع ایجاب و قبول کا معاملہ ہے ۔ محض ارادہ کر لینے  سے  خلع یا طلاق واقع نہیں ہوتا ۔

“صرف ارادہ ظاہر کرنے سے خلع واقع نہیں ہوتا”

یہی اصول وعدہ کے لیے بھی ہے۔ خلع و طلاق کا وعدہ وقوع طلاق نہیں ہے جب تک قول سے اظہار نہ ہو۔

والدین کے اصرار پر خلع

جس طرح نکاح و طلاق میں والدین کی رضامندی اس عقد کو قائم کرنے اور توڑنے میں موثر نہیں اسی طرح خلع کے معاملہ میں بھی عورت صرف والدین کے مطالبے پر خلع نہیں  لے سکتی جب تک اس کی ذاتی مرضی شامل نہ ہو۔

جب عورت یہ محسوس کرے کہ اس کا شوہر کے ساتھ نباہ ممکن نہیں تو خلع کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔

امداد الاحکام میں ہے :

“محض والدین کے کہنے پر عورت کا خلع لینا جائز نہیں بلکہ، اس وقت جائز ہے جب کہ عورت یہ جان لے کہ مجھے اس شوہر کے ساتھ موافقت اور نباہ نہیں ہو سکتا۔”

صغیرہ لڑکی کی خلع:

کم سن و نابالغ لڑکی اپنی خلع کا وکیل اپنے باپ کو بنا سکتی ہے مگر اس صورت میں لڑکی کا مہر ساقط نہ ہو گا اور طلاق بائن واقع ہو جائے گی ۔

اس بارے میں الہندایہ میں ہے :

“جس نے اپنی چھوٹی لڑکی کا اس کے مال کے بدلے خلع کروایا، اس پر مال لازم نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس صورت میں لڑکی پر کوئی شفقت نہیں ہے، چوں کہ خلع کی صورت میں نکاح سے نکلنے کی صورت بضع غیر متقوم ہے، جب کہ اس کا بدل متقوم ہے۔”

خلع کا شرعی طریقہ:

جیسا کہ خلع کا معنیٰ خروج ہے یعنی باہر آنا توڑ دینا، اتار دینا اور عقد نکاح کو ختم کرنا خلع کہلاتا ہے، اور خلع کا اختیار یا حق اللہ نے عورت کو دیا ہے تاکہ اگر وہ اپنے رشتے میں مطمئن اور خوش نہ ہو تو بجائے اس کے کہ ایک تکلیف دہ بندھن کو ساری عمر گلے کا طوق بنا کر برداشت کرتی رہے اسے خلع کا حق دیتا کہ وہ اس بندھن سے آزادی حاصل کر سکے ۔

خلع کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرد عورت سے کچھ معاوضہ کے عوض اسے آزادی کا پروانہ دے دے۔  یہ معاوضہ حق مہر کی واپسی یا پھر بدل کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

جس طرح طلاق مرد کے اختیار میں ہے لیکن مرد پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ اس کا بے جا استعمال نہ کرے اور بیوی کو رنج اور تکلیف پہنچانے کے لیے طلاق کا استعمال نہ کرے اسی طرح عورت بھی اس حق کا غلط استعمال نہ کرے ۔

ایک عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بنا کسی شرعی عذر کے طلاق مانگے ۔  لیکن اگر عورت ازدواجی رشتے سے خوش و مطمئن نہ ہو تو اس حق کا استعمال کر سکتی ہے۔ قرآن و سنت دونوں ہی اسے اس حق کو استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے ۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ

ترجمہ: طلاق دو بار ہے ۔ پھر یا تو بیوی کو اچھے طریقے زوجیت میں روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔  اور تمھارے لیے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو برقرار نہ رکھ سکیں گے ۔  پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ بیوی خود کچھ بدلہ دے کر اس تکلیف دہ بندھن سے آزادی لے  لے ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اللہ کی حدود تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں۔

خلع کے بعد رجوع کا حکم:

خلع کے بعد رجعت ثابت نہیں ہوتی۔ اور اکثر علماء کا اس پر اتفاق ثابت ہے جیسے امام شافعیؒ، امام مالکؒ، حسن بصریؒ، امام اوزاعیؒ  اور امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب

ایک دوسری رائے میں ابو ثور فرماتے ہیں کہ

” اگر خلع لفظ طلاق سے ہو تو پھر رجعت کا حق ساقط نہ ہو گا خواہ عوض لیا ہو جیسے کہ گلو خلاصی (آزادی) کے باوجود ولا ساقط نہیں ہوتا”

حالت حیض اور طہر میں خلع:

خلع خواہ حیض کی حالت میں ہو یا طہر کی حالت میں دونوں صورتوں میں درست ہے۔ حیض کی حالت میں طلاق کی ممانعت کی وجہ اور علت عورت سے اس ضرر کو زائل کرنا ہے جو عدت کی طوالت سے اس پر لازم ہے۔ جب کہ خلع کی مشروعیت اس ضرر کو زائل کرنے کے لیے ہوتی ہے جو عورت کو شوہر کی بدخوئی اور اس کے ساتھ نباہ کے مشکل ہونے کی وجہ سے اور اس کے ساتھ رہنے کی ناگواری کی وجہ سے پیش آتا ہے ۔ اور یہ ضرر عدت کی طوالت کے ضرر سے زیادہ ہے۔

خلع یافتہ کی عدت:

امام مالکؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا مذہب یہ ہے کہ خلع یافتہ عورت اگر وہ بالغہ حائفہ ہے تو عام مطلقہ عورتوں کی طرح اس کی عدت تین قرؤ  (حیض) ہے ۔ صحابہ میں سے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابن عمر کا یہی قول ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ “اکثر اہل علم کا یہی قول ہے صحابہ اور بعد والوں میں سے اور قول کی دلیل و ماخذ یہ ہے کہ خلع طلاق ہے لہذا خلع یافتہ عورت دیگر مطلقہ عورتوں کی طرح ہی عدت گزارے گی یعنی (تین حیض)۔

دوسرا قول یہ ہے کہ خلع یافتہ عورت ایک حیض کے ساتھ عدت گزارے گی جس کا مقصد فقط استبراء رحم ہے۔ چنانچہ اس قول کی دلیل میں مصنف ابن ابی شیبہ نے حضرت  ابن عمرؓ  کا ایک قول نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں “ربیع بنت معوذ نے اپنے شوہر سے خلع لیا (ان کے چچا حضرت معاذ بن عفراءؓ) حضرت عثمانؓ کے پاس آئے۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے ”

بغیر کسی جواز کے خلع لینا:

جس طرح بغیر جواز کے طلاق دینا عورت پر ظلم  و زیادتی ہے اسی طرح خلع اگر بغیر کسی جواز کے لیا جائے تو یہ بھی ظلم و زیادتی کہلائے گا۔ بغیر سی عذر کے خلع کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔ آپ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی، اور اس کی وعید میں یہ الفاظ کے حضرت ثوبانؓ سے مروی ہے کہ :

أيُّما امرأةٍ سألَتْ زوجَها طلاقَها في غيرِ ما بَأْسٍ ؛ فحرامٌ عليها رائِحَةُ الجنةِ

ترجمہ: ( جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کیا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔)

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply