خطے کا عمومی رویہ/علی نقوی

اپنی دھرتی سے غیر مطمئن ہونا اس خطے کا پرانا رویہ ہے، اپنے ملک، اپنے علاقے، اپنی زبان، اپنی خوراک، اپنے لباس کو ہیچ سمجھنا اور دوسرے کی ہر چیز سے متاثر ہو جانا ہمارا عمومی سماجی رویہ ہے، جس طرح سے فارن کلچر کو ہم اپناتے ہیں دنیا میں کم ہی اقوام اس میں ہمارا مقابلہ کر سکتی ہیں، اس معاشرے میں جب بھی کوئی مشرقی روایات کی بات کرتا ہے اور مغربی طرز زندگی پر سوال اٹھاتا ہے تو میں دل ہی دل میں ہنس دیتا ہوں اور دل کرتا ہے کہ کاش انکو بتاؤں کہ یہ جنگ آپ کو ہارے ہوئے بھی پچاس ساٹھ سال ہو چکے ہیں یہ بچے جو جینز پہنتے ہیں، کولے پیتے ہیں، برگر کھاتے ہیں، کیا یہ آپ کے بچے ہیں ؟؟

آپ کے ستو کو تو کب کا کیڑا لگ چکا، آپکی مکئی کی روٹی پکانے والے بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں، آپکا ساگ بھورا ہو رہا ہے، گندم کالی تو کپاس مٹیالی، آپ کی ململ گھٹیا تو آپ کی کھدر کھردری، آپ کے شیخ چلی کی قبر کا نشان بھی آپ کے بچوں کو نہیں معلوم، آپکے جگے اور ملاں نصیر الدین کی موت تو ٹارزن کے ہاتھوں چالیس پچاس سال پہلے ہو چکی تھی اب تو بات بے بی شارک اور کوکو میلن تک پہنچ چکی ہے، اینی میٹڈ فلم کی دنیا نے بچوں کو وہ خواب دکھا دئیے ہیں کہ جن کا تصور انسانی وہم سے بھی پرے ہے۔۔میکڈونلڈ کا M ہی آپکی سکھائی گئی تمام مشرقی روایات پر بھاری ہے، KFC کے بابے کو بچے اپنے دادا سے زیادہ عزیز جانتے ہیں، ایسے میں ہم لوگ ان لانچ میں سوار پاکستانیوں کی موت کا سوگ منائیں تو مجھے عجیب لگتا ہے۔۔

ہمارے ملک میں لوگوں کو یہی لگتا ہے کہ باہر بہت عیاشی ہے یا کم از کم پاکستان سے ہر ملک بہتر ہے، میں اپنے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان (جب کہ وہ ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے) آج بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے کام کرنے کے سرکاری ذرائع یقیناً کم ہیں لیکن اگر سچ پوچھیں تو یہاں کام کرنے والا بندہ نہیں ملتا ہم میں سے بیشتر کام کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں آپ سب چھوڑیں یہاں کا مزدور اگر اگلے دن کے گزارے کے پیسے رکھتا ہو تو مجال ہے کہ وہ کام کر لے، ٹیکس کی پوچھ گچھ نہیں، کوئی کوالٹی مینٹین نہیں کرنی، منافع کی شرح آپکی مرضی کی، بس آپ نے اداروں اور افسران سے بنا کر رکھنی ہے اور شاید یہی سب پوری دنیا میں ہوتا ہے نوعیت اور شدت کا فرق بہر حال رہتا ہوگا۔یہ  تصاویر اس خطے کی ذہنی کیفیت کی عکاس ہیں کہ کس طرح ہمیں یہ سمجھا دیا گیا کہ عافیت اسی میں ہے کہ یہاں سے بھاگ جایا جائے چاہے وہ جہاز میں بیٹھ کر ممکن ہو یا اسکے پہیے سے لٹک کر یا لانچ میں بیٹھ کر یا رات کے اندھیرے میں کسی سرنگ کے ذریعے باڈر کراس کر کے ،جو لوگ امریکہ یورپ یا کہیں بھی یہ سوچ کر چلے جاتے ہیں کہ کہیں کچھ کرنے کو نہ ملا تو گیس اسٹیشن پر تو کھڑے ہو ہی جائیں گے وہ اپنے ملک کے پیٹرول پمپ پر کام کرنا کیوں پسند نہیں کرتے ؟؟ کیا آپ یا میں ایک پیٹرول پمپ پر کھڑے آدمی کو نیچ سمجھتے ہیں ؟؟ اسکا جواب یقیناً نہیں ہے اگر کوئی دو چار اس ذہنیت کے لوگ ہوں بھی تو وہ مریض ہیں نہ کہ کسی معاشرے کی نمائیندے۔

یہ رویہ ان بیجوں میں سے ایک ہے کہ جو انگریز نے یہاں بویا کہ اس خطے کے لوگوں نے اپنی ہر شئے کو نیچ سمجھنا شروع کر دیا ،سامراج یہی کرتا ہے اب یہ کام آرمی، جیوڈیشری اور بیوروکریسی کرتی ہے فوجی آپکو بتاتا ہے کہ سول کام، اپروچ اور مسائل سب گھٹیا ہیں اعلیٰ وہی ہے جو افواج سوچتی ہیں، جیوڈیشری سے اختلاف کا مطلب تو سیدھا سیدھا توہینِ عدالت ہے جو کہ قابلِ سزا جرم ہے۔

مجال ہے کہ آپ کسی فوجی، کسی جج یا کسی بڑے بیوروکریٹ کے پاس بیٹھے ہوں اور آپ ملک کے متعلق کوئی مثبت بات سُن سکیں یہ تمام لوگ عموماً سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کیوں ؟؟ اسی لیے کہ انکی ٹریننگ انگریز نے کی ہی جمہور مخالف جذبات پر تھی کہ عوام حاکم نہیں محکوم ہیں تو جب عوام محکوم ہیں تو انکے منتخب کیے گئے نمائیندے کیسے حکم چلا سکتے ہیں ؟؟

Advertisements
julia rana solicitors london

کبھی مجھ سے ایک جملہ سرزد ہوا تھا کہ “بر صغیر تقسیم ہو گیا لیکن عام آدمی کی زندگی پر اتنا فرق پڑا کہ جو کل تک بلڈی انڈین تھا بلڈی سویلین ہو گیا باقی اسکی زندگی میں کچھ نہیں بدلا”۔
جو ریاستیں اپنے شہریوں کے ساتھ باہم متصادم ہوتی ہیں انکے یہاں یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply