ذہنی توازن ایک کا خراب -پاگل سارا جہان۔۔تنویر سجیل

دو روز پہلے  ایک انتہائی دالخراش واقعہ پیش آیا جس میں ایک مشتعل ہجوم نے بڑی بے رحمی سے ایک ایسے انسان کو نہ صرف قتل کر دیا بلکہ اپنی ہوس ناک جبلت کی تسکین کے لیے اس کی لاش کا اتنے بھدے انداز میں مذاق اڑایا کہ انسانیت بھی شرم سے سر جھکائے انسانوں کی عقل کا ماتم کر تی رہی, کہ اے ابنِ آدم و اشرف المخلوقات و مسجودِ ملائک اتنا بھیانک روپ بھی ہے تیرا؟

تعجب کی بات تو یہ تھی کہ مرنے والے کا انصاف کرنے والے اتنے عقل کے اندھے تھے کہ انہوں نے صرف اس للکار کو ہی سچ مان لیا جس للکار کی انہوں نے تصدیق تک نہ کی تھا اور ہجوم در ہجوم ایسی جھتہ فورس بن کر خونخوار ہو گئے کہ ان کے سامنے دنیا کے تمام ریاستی، مذہبی ، سماجی اور معاشرتی قوانین پست پڑ گئے اور انصاف کے تمام تقاضے اپنےہاتھوں میں لیکر خون سے ایسے شخص کی تقدیر کا فیصلہ کیا جس کے بارے میں ان کو ذرا بھی علم نہیں تھا کہ یہ خونخوار حماقت انسانیت کی تذلیل کی مثال بن جائیگی ۔

ملک خداداد میں ایسے واقعات اتنے معمول کے ساتھ ہونے لگ گئے ہیں جن کی بڑھتی ہولناکی خوف کھانے پر مجبور کئے جارہی  ہے ، کہ جانے کب کون کہاں نعرہ تکبیر کہتے ہوئے ٹوٹ پڑے اور ایک ایسے ایمان سے عاری الزام کی پاداش (جو کیا ہی نہیں) میں بے رحم موت کا پروانہ لکھ دیں اور لاش کی وہ تذلیل کریں کہ خونخواری کی ایک نئی مثال قائم کردیں۔

مذکورہ شخص جو جہالت اور درندگی کی نذر  ہو گیا، جو بظاہر ذہنی طور پر غیر متوازن دکھائی دے رہا تھا ،کا جرم یہی تھا کہ وہ ایسے پاگلوں کے ہاتھوں چڑھ گیا جن کو یہ زعم تھا کہ وہ اسلام کے متوالے ہیں اور شعائر اسلام کی گستاخی کرنے والے کو اپنے ہاتھوں جہنم واصل کر کے جنت کما لیں گے اور خدائے بزرگ و برتر اور رحمت العالمین کے دین کے رکھوالے بن جائیں گے ،مگر یہ زعم بھی ایک ایسا نفسیاتی خلل بن گیا ہے کہ لوگ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ صرف ان کی اپنی سوچ ہی فیصلہ کرے گی کہ کون گستاخ ہے ، کون کافر ہے ۔ نہ کہ دین اسلام کی تعلیمات یہ طے کریں گی اور رہنمائی کریں گی کہ ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے ان کے پاس کیا اختیار اور حق ہے کہ وہ کسی کی جان لے لیں ۔

جیسا کہ اس واقعہ کے رونما ہونے کے ساتھ ایک لفظ ہر زبان پر واضح تھا کہ مقتول کا ذہنی توازن درست نہیں تھا اور جس شخص کا ذہنی توازن درست نہ ہو تو کیا اس سے کوئی بھی عقلمندی ، معقول طرز کی توقع کرنے والوں کی جسارت کرنے والوں کے ذہنی توازن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔؟

ذہنی توازن کیا ہوتا ہے اور کون یہ فیصلہ کرے گا کہ ذہنی توازن درست ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں کسی شخص کا کیا طرز عمل ہو گا اور اگر وہ طرز عمل کسی کو ناپسند ٹھہرے تو اسکی سزا کون تجویز کرے گا۔؟

ان سب باتوں کا تعلق دو باتوں سے گہرا ہے ،اوّل تو ذہنی بیماریوں کے حوالے سے مکمل معلومات کا ہونا اور دوسرا بطور ریاست کے شہری ہونے کے ہمارے کیا حقوق و فرائض ہیں ۔

جہاں تک بات ہے ذہنی بیماریوں کی معلومات کی تو اس بارے جہالت بہت عروج پر ہے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ذہنی بیماری میں مبتلا شخص ان کے ہی جیسا نارمل سوچتے ہیں نارمل عمل کرتے ہیں جبکہ یہ غلط فہمی خود کو دھوکہ دینے کے لیے کافی ہے ۔ کیونکہ بہت سے  ایسے  ذہنی امراض ہیں جن میں مبتلا شخص اپنی پیغمبری کا دعویٰ کر سکتے ہیں اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں نبی، ولی اور کوئی بھی معتبر شخص سمجھ کر کچھ بھی بول سکتے ہیں اور کر سکتے ہیں مگر یہ عمل ایک ذہنی مرض میں مبتلا شخص کا ذاتی عمل نہیں ہو گا بلکہ اس ذہنی مرض کی موجودگی کے زیر ِ اثر وہ یہ عمل کر تا ہے کیونکہ ذہنی بیماری کا تعلق بھی ذہن سے ہوتا ہے اور یہ ذہن کے ان بنیادی افعال جن کا تعلق سوچنے، سمجھنے، ادراک اور عقل و فہم سے ہوتاہے اس کو ہائی جیک کر لیتا ہے جس وجہ سے ذہنی مرض میں مبتلا شخص کچھ بھی کر سکتا ہے خدائی دعویٰ سےلیکر کسی شخص کا بلا وجہ قتل بھی کر سکتاہے اور جب یہ بات ایک ذہنی متوازن شخص کو سمجھ آ جائے کہ وہ ایک ذہنی طور پر غیر متوازن شخص کے قول و فعل کو سن اور دیکھ رہا ہے تو ذہنی متوازن ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ اس شخص کو کسی بھی طور پر نقصان نہ پہنچائے اور اس کی حفاظت کے لیے ممکنہ اقدامات اٹھائے۔ تا کہ کوئی بھی شعور سے عاری فرد اس کو نقصان نہ پہنچا سکے ۔

حالیہ واقعہ اور گزشتہ واقعات جو گستاخی کی نذر ہوئے ان میں یکساں بات یہی ہے کہ لوگ ہجوم اور گروہ میں اکٹھے ہو کر کسی گستاخ کی زندگی کا فیصلہ کرنے لگتے ہیں تو اُس وقت ان کی ذہنی حالت بھی اس شخص جیسی ہو جاتی ہے جو ذہنی توازن درست نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی نا معقول احمقانہ کام کرے اور ماہرین اس کی ذہنی حالت کو ہی ان نا معقول حرکات کا ذمہ دار قرار دیں نہ کہ اس کے عمل کو ذاتی حیثیت میں کیا گیا عمل سمجھیں ۔

ماہرین نفسیات کے مطابق گروہی نفسیات اور ذاتی نفسیات میں اتنا فرق ہو تا ہے کہ لوگ گروہ کی شکل میں جمع ہو کر کوئی بھی احمقانہ عمل کر جاتے ہیں جو کہ وہ ذاتی حیثیت میں نہ کر سکتے ہوں یہی وجہ ہے کہ بعض سماجی دہشت گرد ایسی باتوں کا جال بچھاتے ہیں جس کے زیر اثر گروہ مجتمع ہوتاہے اور ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بطور ریاست کا شہری ہونے کے ہمارا اولین فرض ہے کہ اپنی اور دوسروں کی جان کی حفاظت اور احترام کو یقینی بنایا جائے اور کوئی سماجی عنصر ایسے افعال میں ملوث بھی ہو جو سماجی ، مذہبی اور قانونی طور  پر نا قابلِ  برادشت ہوں تو اس کا طریقہ کار یہی ہے کہ ریاستی اداروں کو اس کی اطلاع دے کر اپنا فرض ادا کریں نہ کہ احمقانہ حرکت میں شامل ہو کر پاگل پن کی ایسی مثال بنا دیں جس سے انسانیت خود شرما جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply