ڈنکی/ابو جون رضا

خبر ملی کہ یونان جاتے ہوئے کچھ تارکین وطن راستے میں کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہوگئے ۔ جن میں تقریباً  300پاکستانی افراد شامل تھے۔ یہ اس سال کا سب سے بڑا حادثہ قرار دیا جارہا ہے جس میں ہلاکتوں کی تعداد چھ سو کے قریب پہنچنے کا خدشہ ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔

یہ خبر سن کر ماضی کی کچھ یادیں تازہ ہوگئیں۔ میں کراچی کے ایک غریب علاقے میں رہتا تھا وہاں بہت سے نوجوان لڑکوں کے خواب بیرون ملک جاکر پیسہ کمانے کے تھے۔ یورپ امریکہ کو وہ جنت سمجھا کرتے تھے۔ اس کے لیے وہ ڈنکی فلائٹ کا رسک لینے کو بھی تیار رہتے تھے ۔ ڈنکی یا ڈونکی فلائٹ غیر قانونی طریقے سے کسی دوسرے ملک میں داخلہ ہونے کے طریقہ کو کہا جاتا ہے۔

میرے ایک اسکول کے دوست کو ہمیشہ سے شوق تھا کہ وہ پاکستان سے کسی طریقے سے باہر چلا جائے۔ اس کا ماننا تھا کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا۔ مستقبل بنانا ہے تو انسان یورپ کے کسی ملک کی طرف نکل جائے۔

اس نے بہت کوششیں کیں مگر پیسوں کی وجہ سے مجبور ہوجاتا تھا۔ وہ کراچی میں اپنے چچا کے پاس رہتا تھا اور وہ ہولی فیملی ہسپتال میں ڈرائیور تھے۔

تقریباً سن 2000کے آس پاس کی بات ہے میرے دوست کو غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہونے کے بارے میں علم ہوا۔ جو لوگ یہ کام کرتے تھے وہ اس کے دور پار کے رشتہ دار تھے۔ ان کی رہائش پہلے ہمارے علاقے میں ہی تھی اور ان کا لکڑی کا فرنیچر بنانے کا کارخانہ تھا۔

انہوں نے اپنی کشتی خریدی تھی اور وہ یورپ میں غیر قانونی طریقے سے لوگوں کو اسمگل کیا کرتے تھے ۔ مجھے صرف اتنا پتا چلا تھا کہ ان صاحب کے وہ دو لڑکے باہر چلے گئے ہیں جو کارخانہ چلاتے تھے ۔ کارخانہ تو بند ہوگیا ہے مگر سب سے چھوٹا بیٹا کرولا میں گھومنے لگا تھا۔ ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی کہ کہاں سے یکایک اتنا پیسہ آرہا ہے؟

جب میرا دوست یورپ جارہا تھا تو اس نے مجھے بتایا کہ اس کے چچا نے ہسپتال سے قرضہ لیکر ان لوگوں کو پیسہ دے دیا ہے اور وہ غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہوگا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ خطرناک کام ہے۔ اگر پکڑے گئے یا کوئی حادثہ پیش آگیا تو کوئی مدد نہیں کرسکے گا ۔ لیکن بقول اس کے، اتنے لوگ جاچکے ہیں ، کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور رسک تو لینا پڑے گا اگر زندگی اچھی گزارنی ہے۔

پھر کچھ عرصے بعد خبر آئی کہ جو صاحب غیر قانونی طریقے سے ہیومن ٹریفکنگ کا دھندہ سالوں سے کامیابی سے چلا رہے تھے ان کی کشتی کو حادثہ پیش آگیا۔ اور تقریباً سارے افراد جو کشتی میں سوار تھے وہ ڈوب گئے ۔ اس کشتی میں ان صاحب کے دو جوان بیٹے بھی شامل تھے۔ ان کے گھر پر ایف آئی اے کا چھاپہ  پڑا اور چھوٹے بیٹے کو پولیس پکڑ کر لے گئی جو بہت پیسہ کھلا کر رہا ہُوا۔ اس کی ماں دو جوان بچوں کے غم میں پاگل ہوگئی اور باپ کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ ہنستا بستا گھر اُجڑ گیا اور ساتھ میں کتنے گھروں میں اداسی کے ڈیرے ڈال گیا۔

مجھے ان صاحب کے قریبی ذرائع نے بتایاجس رات یہ کشتی ڈوبی وہ ان لوگوں کا آخری چکر تھا۔ رات بہت سرد تھی اور سمندر طوفانی لگ رہا تھا۔ کشتی میں پچیس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی لیکن ان میں تقریباً پچاس افراد بھر لیے گئے تھے۔ ان صاحب کے بیٹوں نے احتجاج کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ آخری ٹرپ ہے۔ اس کے بعد یہ کام ختم کرو اور تم بھی یورپ نکل جاؤ اور وہیں رہنا۔ پیسہ بہت کما لیا۔ اب عیش کرو۔ اسی رات طوفان آیا اور کشتی الٹ گئی ۔ کوئی ایک شخص زندہ نہیں بچا۔

ڈنکی طریقے سے کشتیوں میں یورپ جاتے ہوئے بھی کم از کم پچیس تیس لاکھ روپے لگ جاتے ہیں، جان جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور پھر دس بیس سال یورپ میں غیر قانونی شہری کی طرح چھپ کر رہنا پڑتا ہے. آدھی تنخواہ پر کام ملتا ہے اور ذلت الگ اٹھانی پڑتی ہے۔

اس سے بہتر ہے انسان روکھی سوکھی کھالے یا پھر تمام اثاثہ جات بیچ کر قرض ادھار کر کے قانونی طریقے سے کسی ملک میں داخل ہو۔ تاکہ جان کو خطرہ نہ ہو اور بوڑھے والدین یا بیوی بچوں کو ڈیڈ باڈی کے لیے وزارت خارجہ کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ ہمارے ملک پر اور ہمارے نوجوانوں پر  رحم فرمائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply