ذہانت (16) ۔ رِسک/وہاراامباکر

الگورتھم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کون قصوروار ہے۔ یہ دفاع اور استغاثہ کے دلائل کے وزن کو نہیں جانچ سکتے، شواہد کا تجزیہ نہیں کر سکتے اور یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ آیا ملزم اپنے کئے پر واقعی نادم ہے یا نہیں۔ یہ کام جج کے پاس ہی رہے گا۔ لیکن الگورتھم کچھ اور کام کر سکتے ہیں۔ یہ اس خطرے کا حساب لگا سکتے ہیں کہ کسی فرد کا اپنے جرم کو دہرانے کا کتنا امکان ہے۔ اور سزا کے فیصلوں میں یہ اہم فیکٹر ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

ڈیٹا اور الگورتھم کو کمرہ انصاف میں ایک صدی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ میں مجرموں کو قید کی سزا ملتی تھی۔ اس کا ایک وقت گزر جانے کے بعد وہ پیرول لے سکتے ہیں۔ اور بہت سے قیدی اس بنیاد پر جلد چھوٹ جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن کئی نہیں۔ یہ ایک نیچرل تجربہ ہے۔ کیا آپ اس کی پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ کونسا فرد اپنی پیرول کی خلاف ورزی کرے گا؟
اس سوال کے جواب پر 1920 کی دہائی میں کینیڈا کے ارنسٹ برگس نے کام کیا۔ ان کی مہارت ڈیٹا کی بنیاد پر پیشگوئی میں تھی اور 1928 میں انہوں نے اپنا الگورتھم بنا لیا جو اس کا حساب لگاتا تھا کہ کونسا فرد کتنا بڑا خطرہ ہے کہ وہ جرم دوبارہ کرے۔
اس کے لئے انہوں نے تین جیلوں سے تین ہزار مجرموں کا ڈیٹا استعمال کیا۔ اکیس عوامل کی نشاندہی کی جس اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں کہ کس کا جرم دوبارہ کرنے کا کیا امکان ہے۔ اس میں جرم کی نوعیت، جیل میں مدت، مجرم کی سماجی حیثیت جیسے عوامل تھے۔
برگس نے سب پر صفر سے ایک تک کا سکور دیا۔ وہ لوگ جن کا سکور زیادہ تھا (16 سے 21 کے درمیان)، ان سے دوبارہ جرم میں ملوث ہونے کا خطرہ کم تھا۔ جبکہ جن کا سکور صفر سے چار کے درمیان تھا ان کا خطرہ زیادہ تھا۔
جب ان مجرم جیل سے چھوٹے تو برگس ٹیسٹ کر سکتے تھے کہ ان کی پیشگوئی کتنی موثر تھی۔ بنیادی تجزیہ بتاتا تھا کہ اس سکور سے اچھی پیشگوئی ہو جاتی تھی۔ کم رسک والے گروپ میں سے 98 فیصد تھے جنہوں نے پیرول کی خلاف ورزی نہیں کی۔ جبکہ ہائی رسک میں سے صرف ایک تہائی۔ سادہ شماریاتی ماڈل بھی ماہرین سے بہتر پیشگوئی کر لیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ان کے کام پر کئی اعتراضات ہوئے لیکن پھر بھی یہ اتنا متاثر کن تھا کہ 1935 میں اس کو الینوائے ریاست میں پیرول کے فیصلوں کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ اور صدی کے آخر تک اس کے آگے نکالے گئے ریاضیاتی ماڈل دنیا کے کئی ممالک میں استعمال ہو رہے تھے۔
آج ایسے خطرے کی پیمائش کے ایسے جدیدالگورتھم موجود ہیں جو کہ پیرول کے فیصلوں میں مدد کرتے ہیں اور ان کو کئی جگہ پر ضمانت کے فیصلوں میں اور سزا سنے کے لئے جج کی مدد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بنیادی اصول وہی ہے کہ ملزم کے بارے میں کچھ ڈیٹا جیسا کہ عمر، جرم کا ریکارڈ، جرم کی نوعیت وغیرہ دی جاتی ہے اور یہ اس کی پیشگوئی کرتا ہے کہ کس کو آزاد چھوڑنے میں کتنا خطرہ ہے۔
یہ کام کیسے کرتے ہیں؟ ان کو کھول کر دیکھیں تو ان کی تکنیک random forest کہلاتی ہے۔
اصل دنیا میں ان کے فیصلوں کا موازنہ ماہرین سے کرنے کی تحقیق نیویارک کے پانچ سالہ ڈیٹا پر کی گئی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply