قومی اتفاق رائے ناگزیر۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل آج پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا ہے اور امید واثق ہے کہ یہ تحریر شائع ہونے تک یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے متفقہ طور پر منظور ہونے کے یا تو قریب ہو گا یا منظور ہو چکا ہو گا۔

اس بل کے سلسلے میں گزشتہ روز سے حکومت اچانک کافی متحرک دکھائی دی اور ن لیگ سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کیساتھ رابطے بھی کیے گئے کیونکہ حکومت کی یہ خواہش تھی کہ یہ بل متفقہ طور پر منظور کروایا جائے۔ اس سلسلے میں ن لیگ کے اہم رہنما رانا ثناء اللہ کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ ن لیگ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آرمی ایکٹ کی ترامیم کے لیے حکومت کیساتھ غیر مشروط تعاون کیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ  میں ایک ذمہ دار ترجمان ہونے کے ناطے یہ بات پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ ن لیگ اس قانون سازی میں مکمل تعاون کرے گی۔ رانا ثناء اللہ کے اس بیان سے یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ یہ فیصلہ پارٹی کی قیادت کا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے دوسری بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی سے بھی رابطہ کیا۔ انھوں نے بھی کسی بھی قسم کا مزاحمتی بیان نہیں دیا۔ بلکہ پیپلز پارٹی کے ترجمان کی طرف سے بیان آیا کہ اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق اس بل کو اسمبلی میں لایا جائے۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے بھی اس ترمیم کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ بعض ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی ترجمان کے بیانات سے لگتا ہے کہ انھوں نے بھی معنوی طور پر آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کیلئے آمادگی ظاہر کی ہے۔ کیونکہ جب ن لیگ نے غیر مشروط طور پر حمایت کا اعلان کردیا تھا تو پیپلز پارٹی کیلئے اس کی مخالفت کرنا مشکل تھا۔ اگر صرف قانون پاس کروانا ہے تو دونوں بڑی جماعتوں کی سپورٹ ہی کافی ہے۔ لہٰذا پیپلزپارٹی بھی اس ترمیم میں حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ اس سے قبل بھی اگر ہم دیکھیں تو پارلیمانی جماعتوں نے اپنے اپنے ادوار میں گزشتہ آرمی چیفس کو توسیع بھی دی ہے۔ اب اگر پارلیمنٹ میں اس سلسلے میں قانون سازی بھی ہوتی ہے تو یہ کوئی انہونی نہیں ہے کہ جس پر  مزاحمت کی جائے۔ ویسے بھی ایک قومی معاملے پر تمام جماعتوں کا ایک پیچ پر ہونا اچھا شگون ہے۔ اس معاملے کو ویسے بھی جلد از جلد حل ہو جانا چاہیے تھا۔

اگر ہم مندرجہ بالا ساری بحث کو ایک طرف رکھ دیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے لے کر اب تک اپوزیشن کے بیانات کو دیکھیں تو انھوں نے آج تک واضح طور پر ایک بھی مزاحمتی بیان نہیں دیا اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی تنقیدی بیان سامنے آیا۔ اپوزیشن ہمیشہ سے ہی اس معاملے میں نرم گوشہ رکھتی تھی شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک قومی ادارے کا معاملہ ہے اور بہت حساس مسئلہ ہے جس پر زیادہ بیان بازی مناسب بھی نہیں ہے۔ مشرف کیس میں سزائے موت کا غیر معمولی فیصلہ آنے کے بعد بھی اپوزیشن کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ 2013 میں یہ کیس ن لیگ حکومت کی جانب سے ہی دائر کیا گیا۔ لیکن اب جبکہ اس کیس کا فیصلہ آیا تو ن لیگ مکمل طور پر خاموش تھی۔ ان کا اس سلسلے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا تو اسی بات سے یہ لگ رہا تھا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم پر بھی مزاحمت کا سامنا نہیں ہو گا۔ اس معاملے سے ہٹ کر اگر ہم اب تک اپوزیشن کے اسمبلی کے اندر رویہ کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کو کبھی بھی اس طرح سے ٹف ٹائم نہیں دیا جیسا کہ پی ٹی آئی اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایک بھرپور اپوزیشن جماعت کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اگر میں حالیہ اپوزیشن کی بات کروں تو شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے جھمیلوں سے ہی نکل نہیں پا رہے۔ لیڈرشپ پر عدالتی کیسز بھی چل رہے ہیں۔ ان کے لیڈران کبھی جیل میں ہوتے ہیں کبھی عدالت میں۔

گزشتہ دنوں وزیراعظم نے بیوروکریسی سے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کا نام اتفاق رائے اور ساتھ مل کر چلنا ہے۔

کاش کہ یہ بات خان صاحب کو سوا سال پہلے ہی سمجھ میں آ گئی ہوتی۔ ریاست کا کاروبار چلانا حکومت کا کام ہوتا ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ ہر طرح کے معاملات کیلئے اپوزیشن کو بھی ساتھ رکھے۔ تبھی جا کر ریاستی امور انجام پاتے ہیں۔ ورنہ کھینچا تانی ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ خاص طور پر اگر ہم پی ٹی آئی کو دیکھیں کہ واضح عددی برتری نہ ہونے کے باعث پارلیمنٹ میں کوئی بھی قانون سازی کرنے کیلئے اتحادی جماعتوں کیساتھ ساتھ بعض قوانین کیلئے اپوزیشن کی حمایت بھی درکار ہوتی ہے۔ اس ساری صورتحال سے قطع نظر بھی جمہوری ممالک میں قانون سازی کیلئے حکومتی جماعت ہمیشہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ عارضی طور پر ڈیڈ لاک ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اپوزیشن اور حکومت کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ ہمیشہ قائم رہنا چاہیے۔ کچھ معاملات پر سختی تو کچھ معاملات پر نرم رویہ بھی دکھانا ہوتا ہے۔ لیکن اگر پارلیمنٹ کے اندر اب تک کا حکومتی رویہ دیکھیں تو حکومت کا اپوزیشن کیساتھ ایک تناؤ نظر آتا ہے۔ ایک عدم تعاون کی سی کیفیت ہے۔ آپس میں بات چیت کا فقدان ہے۔ اللہ کرے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد بھی حکومت اور اپوزیشن میں ایسے ہی تعاون کی فضا قائم رہ سکے لیکن ابھی ایسے آثار نظر نہیں آ رہے۔ گالم گلوچ اور سخت نوعیت کے بیانات حکومت اور اپوزیشن میں دوریاں بڑھاتے ہیں جس سے عوامی نوعیت کے معاملات پر قانون سازی کا عمل پس ِپشت چلا جاتا ہے اور سیاسی نورا کشتی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے جو پاکستان جیسے ملک کیلئے سخت نقصان دہ ہے جہاں ابھی سیاسی شعور اس قدر نہیں ہے جس قدر دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہے۔ اگر ہم نے ملک کو آگے لے کر چلنا ہے تو حکومت کو دیگر قومی اور عوامی نوعیت کے معاملات میں بھی اپوزیشن کیساتھ ایک تعاون کی فضا قائم کرنا ہو گی اور دونوں اطراف سے رویوں میں نرمی لانا ہو گی۔ تاکہ عوامی مسائل کے متعلق بھی متفقہ طور پر قانون سازی کی جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply