مفت کا مفتی۔۔حسان عالمگیر عباسی

ایمان اندر کی کیفیت اور باہری و ظاہری صورت سے جھلکنے  والی شے ہے۔ قوی صاحب کے ساتھ مفت میں مفتی پری فکس کرنا اچھنبے سے کسی بھی صورت کم نہیں اور بظاہر پرہیز گاروں کو ہم مکتب کی کلاس لگانے سے بالکل بھی پرہیز نہیں کرنا چاہیے۔ فتویٰ جب زبان پہ ہے تو اپنے ہی ہم نوالہ و پیالہ کے لیے زبان بندی ظاہر کر رہا ہے کہ یہ صرف نکٹائی والوں کی ٹھکائی کی فیکٹری ہے۔ طاہر اشرفی صاحب کے ساتھ شوقیہ مولانا جوڑنا بھی جوڑ نہیں کھا رہا کیونکہ سکرین نے انہیں متنازع  بنانے میں آگے بڑھ کے کردار نبھایا ہے۔

قوی صاحب جو کر رہے ہیں وہی ہے جو سب کر رہے ہیں لہذا کرنے میں انھیں خود اگر کوئی ملال نہیں ہے تو قانون کی گرفت نہ ہونے تک روک ٹوک عام آدمی کا کام نہیں ہے لیکن جو لبادہ اوڑھ کے سرعام ہو رہا ہے تو ایک فرد قوی سے کہیں زیادہ مفتی اور مولانا جیسے القابات مجروح و مکروہ ہو رہے ہیں۔

اس معاشرے میں حوا کی بیٹیوں کو مظلومیت کی چادر اوڑھا دی گئی ہے اور حریم شاہ کی کرنیوں کو اس کے گھر کے گھٹن زدہ ماحول کی وجہ سے بغاوت کا نام دے کر آر پار بھیجنا فنڈڈ تقاضے ہیں۔ عورت اور مرد کے معاملات کو لے کے بلا شبہ معاشرتی اونچ نیچ موجود ہے, اور پیٹری آر کی (patriarchy)، آدمیت، میل ڈومیننسی (male dominance) جیسی اصطلاحات کی موجودگی معاملات کی گھمبیر صورتحال کا پتہ دے رہی ہیں لیکن مبالغہ آرائی (exaggeration) نے عورت یا خاتون کو ضرورت سے بڑھ کے مجبور و مظلوم بنا دیا ہے۔

اگر حالات کا سچا جائزہ لیا جائے تو وقت کا مرد بھی دھکے ہی کھا رہا ہے۔ غامدی صاحب کی گفتگو سے ایک چیز اخذ کی ہے کہ گو کہ بر صغیر میں دوسری شادی حقیقتاً و عملاً ‘آ بیل مجھے مار’ کی طرح ہے لیکن بیل سے بچنے کا طریقہ یہ بتا  دیا کہ عورت کو دوسری شادی کی صورت میں نیا بندوبست کرنا چاہیے کیونکہ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا لہذا ہتھوڑا ہاتھ میں لیے ہر چیز کیل مانتے ہوئے ٹھکائی سے بہتر ہے خوشگوار ماحول کے ذریعے یا کمپرومائزز کے سہارے بیل کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دینا چاہیے یعنی دو بیویوں کا میل کھا لینا دو بیویوں کی لڑائی سے بہت بہتر ہے۔

بات قوی صاحب سے غامدی صاحب تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ کہیں مزید آگے بڑھنے لگے ،کہنے لگا ہوں کہ قوی صاحب کی حرکات و سکنات سے اگر ان کو شرم نہیں آ رہی تو بلا مبالغہ جب شرم و حیا نہ رہے تو جو مرضی کرنے کی اجازت ہے لیکن انھیں وہ علامات (symbols) جو براہ راست ہمارے معاشرے میں علما  اور مولانا حضرات کی وراثت میں سے ہیں کو اپنے سے اتنا دور رکھنا چاہیے جتنے وہ اسلام کی بنیادی شرم و حیا کے اسباق سے دور ہیں۔ مفتیان کرام کو ان کی کلاس لیتے ہوئے ان سے یہ سب چھین لینا چاہیے اگر وہ خود سے انھیں اتارنے کی زحمت نہیں فرماتے تو مذمت اور فتوؤں کا صحیح اور درست استعمال یہاں ہی بنتا محسوس کر رہا ہوں۔

یہاں کی خواتین ہر دو صورتوں میں مظلوم ہیں۔ مرد اپنی تمام تر اچھائیوں کے ساتھ ایک ظالم و جابر شخص ہے۔ مذمت ہوگی تو صرف مرد کی ہو گی اور دوہری ذمہ داریوں کے ساتھ مرد برداشت بھی کرنے کا عادی ہو چکا ہے لہذا حقیقت کی عینک یہ بتا رہی ہے کہ عورت کو جرم کے ہوتے ہوئے بھی مجرم ثابت کرنا وقت کا ضیاع ہے لہذا مرد کو ذمہ دارنہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ رسا کشی معاملات کی بربادی ہے۔

قوی صاحب کے پگھلنے کی کمزوری مفتی و غیر مفتی کسی میں بھی ہو سکتی ہے لہذا ایمان کی اندرون و باہری دونوں صورتوں کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور اس کمزوری کا علاج اسلام کا عادلانہ خاندانی نظام ہے۔ قوی صاحب کی حرکات کی وجہ سے شریف علما  پہ صرف ان کی ظاہری صورت کے ہوتے ہوئے کیچڑ اچھالنا انتہا کی جہالت ہے۔ بحیثیت مسلمان حیا و شرم کے اصول و ضوابط کا اطلاق برابر علما  اور عوام پہ ہوتا ہے۔ کسی کی ظاہری صورت کو بنیاد مان کے ایماندار ڈکلیئر (declare) کر دینا اس لیے ناقص ہے کیونکہ ایمان اندر کی کیفیت بھی قرار دی گئی ہے۔ اگر کوئی بظاہر ایمانی صورت نہیں رکھتا تو من میں موجود ایمان بھی ڈگمگانے کی صورت میں اسی طرح ان گالیوں کا حقدار ہے جیسے کسی شخص کو ظاہری صورت کے ہوتے ہوئے کسی غلطی پہ سنائی جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

قوی صاحب ایک طبقے کے نمائندے کی حیثیت سے ضرور قابل مذمت ہیں کیونکہ ان کی فضولیات نے فرد یعنی ایک قوی نہیں بلکہ ملت کے پاسبانوں اور علما کو براہ راست نقصان دے دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علما  کا فتویٰ تبھی عزت پائے گا جب ظاہری صورتوں کو دیکھتے یا قبائلی و ہم مکتب ہونے کے ناطے بخشش نہیں دی جائے گی۔ اصول و ضوابط طے شدہ ہیں اور ان کا برابر اطلاق قوی کی جرات میں رخنہ ڈالنے کی صورت پیدا کر سکتا ہے۔ پہلے قوموں کی تباہی اسی لیے ہوئی کیونکہ اطلاق کے معاملے میں انھوں کے انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔ جب حضور ص چوری پہ حضرت فاطمہ رض کا ہاتھ بھی کاٹنے کی بات کر رہے اور صحابی کریم زنا پہ اپنے ہی فرزند کو بھی سزا دے رہے ہیں تو یہ نا انصافی بھی علماکو سوچنے اور سمجھنے کی دعوت دے رہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply