غزل پلس(11)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

چیز چمکیلی سی بیٹھی تھی مر ے پھن میں تنی
سنگ اسود کا کوئی ٹکڑا تھا یا پارس منی

کھٹکھٹائیں کس کا در اس شہر کے دریوزہ گر
گانٹھ کے پکے ہیں دونوں، شُوم کیا اور کیا غنی

اک زمرد اب اگلنا ہی پڑے گا وقت پر
بھول سے وہ کیوں نگل بیٹھی تھی ہیرے کی کنی

رات کس کے بخت جاگے تھے، بتا، اے نازنین
آنکھ بھی ہے سوئی سوئی، زلف بھی ہے ان منی

اک اٹھنی بھی نہیں، جیبیں الٹ کر دیکھ لیں
یوں تو اپنے رام ہیں ہر شام قسمت کے دھنی

اک نُچی سی فاختہ تھی صبح کو وہ فاحشہ
رات بیٹھی تھی وہ کوٹھے پر سجی ، سنوری، بنی

(ق)
گھر کی ہر اک اینٹ جیسے روکتی ہی رہ گئی
“جاؤ مت، اس وقت، دیکھو، رات ہے کتنی گھنی”
سنگدل تھا پر کپل وستو کا شہزادہ، جسے
روک کب سکتے تھے بچہ اور جیون سنگنی

ہر طرف ہے ہُو کا عالم، شہر سب چپ چاپ ہے
الاماں! کیسی ہے گورستان سی یہ سنسنی

Advertisements
julia rana solicitors

پڑھنے والوں کا بھی سینہ چھید ڈالے گی غزل
لفظ ہر اک یوں تنا ہے جیسے نیزے کی اَنی!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply