میرے وجود کا سحر اور سفید مور کا رقص ۔۔۔۔نذر محمد چوہان

لیتھونیا کا ایک پولش زبان کا شاعر چیسلو میلوز ۱۹۱۱میں پولینڈ میں پیدا ہوا اور ۲۰۰۴،میں پولینڈ میں ہی انتقال کر گیا ۔ میلوز نے اپنی زندگی کے آخری پچاس سال امریکہ میں گزارے اور برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا میں ادب کا پروفیسر رہا ۔ میلوز نے دونوں عالمی جنگیں دیکھیں اور ان سے وابستہ بہت سارے دُکھ بھی ۔ دوسری جنگ عظیم میں وہ پیرس اور واشنگٹن ڈی سی میں کلچرل قونصلر  رہا اور ۱۹۵۱ میں امریکہ آ گیا اور ۱۹۷۰ میں امریکی شہر یت لے لی ۔ میلوز کی جب دوسری اہلیہ جو اس سے ۳۰ سال چھوٹی تھی کا ۲۰۰۲ میں کینسر سے انتقال ہوا تو میلوز کی زندگی بھی مُرجھا گئی اور ٹھیک دو سال بعد دنیا سے کُوچ کر گیا ۔ برکلے سوسائیٹی نے ۲۰۱۱ میں اس کی ایک سوویں سالگرہ پر اس کی شاعری اور تحریروں پر مبنی ایک انگریزی میں کتاب چھاپی جو بہت مقبول ہوئی  ۔ میلوز جب امریکہ میں مقیم تھا تو زیادہ تر شاعری انگریزی میں کی ۔ اس پولش امریکی شاعر ، سفارتکار اور مترجم کو ۱۹۸۰ میں ادب کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا ۔
میلوز کی انسانیت پر مبنی نظمیں اور تحریریں ہمیشہ یاد رہیں گی ۔ ایک نظم میں وہ steppes کے پہاڑ پر بیٹھے ایک نوجوان فوجی کے دل کا منظر نامہ پیش کرتا ہے جس کا پاؤں جنگ میں شدید زخمی ہوتا ہے ۔ وہ اپنے پاؤں پر پٹی باندھتے باندھتے سوچوں میں کہیں بہت دور چلا جاتا ہے۔ وادی کی ہریالی اس کا دل بھاتی ہے اور وہ سوچتا ہے کے اس دھرتی پر کنٹرول کی کوششیں کیوں ہوتی ہیں ؟ میلوز سٹیلن کے بھی بہت شدید خلاف تھا ۔ امن کے لیے میلوز کا علامتی پرندہ سفید مور تھا جس کا وہ اکثر اپنی تحریروں میں تزکرہ کرتا ہے ۔ ایک اور مشہور انگریزی لکھاری ڈی ایچ لارنس نے بھی اپنا پہلا ناول ہی white peacock کے نام سے لکھا تھا ۔ اس کو لارنس نے ۲۰۰۶ میں شروع کیا اور تین دفعہ rewrite کیا اور ۱۹۱۱ میں چھپا جس سال چیسلو میلوز پیدا ہوا ۔ ڈی ایچ لارنس بھی انسانی قدروں اور قدرتی پیار محبت پر بہت یقین رکھتا تھا ۔ یہ دونوں ادیب مادیت کے شدید خلاف تھے اور دونوں نے ہی اس پاداش میں بہت روح پرور ، دل بھری داستانیں اور شاعری داغی ۔ دونوں بہت زیادہ عام آدمیوں کی زندگیوں کے بارے میں پریشان رہتے تھے ۔ میلوز کہتا؛
The poet has to be there with ordinary crowd..
ان دونوں کا نظریہ کافی حد تک روحانیت کے شاعر ولیم بلیک سے بھی ملتا تھا جو کہتا تھا کے ؛
Without contraries there can be no progression ..
دراصل یہ سارا معاملہ ہی تقلید کو ختم کرنے کا ہے ۔ تضادات یا contradictions ہی اصل roots یا جڑوں کا تعین کرتی ہیں ۔ جڑ تو ایک ہی ہے ، آدم ، اس کے بعد تو ہر روح ایک اسی میں سے پُھوٹی مختلف شاخ جس کو ہی قرآن شریف نے بھی قبائل میں تقسیم شناخت کی خاطر کا کہا ۔ قبالا والے کہتے تھے کے حضرت آدم کی روح سب سے پہلے ساٹھ ہزار حصوں میں split ہوئی  اور اس کے بعد ہر دن ہوتی رہی۔ ہر انسان اور روح اس اعتبار سے منفرد ہے کے ہر کا ایک اپنا رنگ یا flavor ہے ، ایک اپنا رقص ، ایک اپنی خوبصورتی اور رعنائی ۔ کہاں سے آ گئے یہ سب انسانوں کو ایک ہی رنگ میں رنگنے والے ؟ کیمونزم ، کیپٹلزم اور نجانے کیا کیا ۔ چیسلو میلوز نے تو اس ظلم کی وجہ سے ڈھائے گئے دکھ اور درد کو بھی بہت ہی خوبصورت دلیل سے justify کیا ہے ۔ اس کے نزدیک ؛
World of pain and troubles was to school the intelligence and make it a soul ..
ان دکھ اور درد کے زریعے ہی ہم نے اس خوشی کی منزل کو چُھونا ہے جو ابدی ہے ۔
۱۹۷۸ میں برکلے یونیورسٹی میں ایک خطاب کے دوران اس نے کہا کے میں چرچ کی پچھلے دو ہزار سال کی تاریخ سے یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کے یہ ہے کیا ؟
‏for two thousand years I have been trying to understand what it was
میلوز کے نزدیک رب کی ضرورت کمزوری یا دکھوں کے مداوے کے لیے کیوں پڑتی ہے ؟ ہم اپنے خدا کو state of bliss میں کیوں نہیں یاد کرتے ؟ یہ بھی بہت روحانی نقطہ ہے ؛
we needed God in loving us in our weakness and not in the glory of beatitude ..
ایک اور دھوکہ جس میں ہم اکثر چلے جاتے ہیں اس کو بھی میلوز نے کیا خوب بیان کیا ، اس کے مطابق خوبصورتی ہمیشہ کہیں اور کیوں ہوتی ہے اور ہمیشہ خیالی ؟
beauty is always elsewhere and always delusive ..
پھر مزید زندگی کو سمجھنے کا فلسفہ میلوز کے نزدیک یہ ہے کے صرف اپنے آپ کو ہی اس دنیا کی خوبصورتی کا مرکز کیوں سمجھا جاتا ہے ؟ وہ کہتا ہے کے میرے علاوہ بھی جہاں بہت خوبصورت ہے ؛
I was not necessary, for if not I, then some one else would be walking here, trying to understand his age.
یہ تو ایک جاری و ساری ابدی سلسلہ ہے جو حال میں چل رہا ہے ۔ اسے نہیں روکا جا سکتا ، صرف اسی حالت میں enjoy کیا جا سکتا ہے ۔
Had I died long ago nothing would have changed. The same stars, cities and countries would have been seen with other eyes. The world and its labor goes on as they do ..
ہمیں اپنے رقص سے مطلب ہے ۔ اپنی خوشیاں تلاش کرنی ہے ، اپنی قدرت سے شادی کی رسمیں منانی ہیں ۔ میرے گیت میرے ہیں صرف میرے ، آپ کا ان سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ، کیونکہ ہمارا کوئی  مقابلہ نہیں ۔ آپ بھی اسی خالق کے ساتھ co creator ہیں جس کے رقص کا میں بھی حصہ ہوں ۔ اپنے ڈانس کا ہر کوئی  خود کوریوگرافر ۔ یہ وہ اسٹیج اور مقام ہے جہاں سب چیزیں ایک ہو جاتی ہیں اور پھر انسان بقول میلوز کہتا ہے ؛
it’s not up to me to judge the calling of men…
میلوز نے تو یہاں تک کہ دیا کے وہ کہتی ہے کے تم پولش زبان میں اس لیے لکھتیے ہو کے اپنے گناہ چھپاؤ تو میلوز پھر کہتا ہے چلو پھر یہ بھی درست ہے ۔
سفید مور کی خوبصورتی اور بھی بڑھ گئی  جب اس نے پر کھلائے ۔ یہ سفید مور ہی روح کی روشنی ہے اگر اس کے رقص میں شامل ہونا ہے تو اپنے وجود کے سحر سے نکلیں ۔ اپنی ہستی کو مٹا دیں اور پوری کائنات کی ہستی میں جزب کر دیں ، پھر دیکھیں رب کی چاہت ، وہ ہے ابدی لُطف ۔ جان چھڑائیں ، تقلید ، جنگ اور مقابلہ سے ۔ اپنی زندگیاں اپنی موج اور مستی میں گزاریں ۔ بہت خوش رہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply