ایکسٹینشن کی روایت ۔۔۔طارق احمد

اس روایت کا ایک حصہ یہ ہے۔ بطور آرمی چیف اپنی مدت ملازمت میں اضافہ کروانا یا یہ اضافہ حاصل کرنا۔ اس روایت کا آغاز جنرل ایوب خان نے کیا۔ جنرل ایوب کو 1951 میں بطور آرمی چیف تعینات کیا گیا۔ 1958 میں جنرل ایوب نے ملک پر مارشل لاء نافذ کر دیا۔ اس سے پہلے جنرل ایوب ایک ایکسٹینشن لے چکے تھے۔ ایک طویل دور حکومت کے بعد 1969 میں جنرل یحیی خان نے بزور طاقت جنرل ایوب سے استفعی لے لیا۔ ملک پر مارشل لاء نافذ کر دیا۔ اور صدر پاکستان بن گئے۔ تاریخ کے اس دور سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ جو بعد میں ایک ایسی روایت کی بنیاد بن گئے۔ جس پر تقریبا پر آرمی چیف نے عمل کیا۔
جنرل ایوب نے بطور آرمی چیف سات سال طاقت کو انجوائے کیا۔ اس طاقت کو انجوائے کرنے میں گورنر جنرل ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا ان کے ساتھ تھے۔
جنرل ایوب نے سرد جنگ میں خود کو روس کے خلاف امریکہ کا اتحادی بنایا ۔ اور بدلے میں امریکی ڈالر ، امریکی اسلحہ اور امریکی فوجی ٹریننگ حاصل کی۔ اور اپنے لیے انٹرنیشنل قبولیت حاصل کی۔
جنرل ایوب نے امریکہ کو یقین دلایا۔ جمہوریت پاکستان کے لوگوں کے لیے مناسب نہیں۔ وہ اس کے اہل نہیں۔ پاکستان کے لوگ امریکہ مخالف ہیں۔ جبکہ پاک اسٹیبلشمنٹ اور پینٹاگون باہم مل کر امریکی مفادات کو زیادہ بہتر تحفظ دے سکتی ہے۔
یعنی آرمی چیف کو اپنا اختیار قائم رکھنے کے لیے ملک کے انتظامی و آئینی سربراہ کی حمایت کی ضرورت تھی۔ امریکی مدد کی ضرورت تھی۔ اور جوابا امریکہ کی خدمت مشروط تھی۔
ایک روایت یہ رہی  کہ ملکی سیاستدانوں کے خلاف کرپشن اور لوٹ مار اور نااہلی کا پروپیگنڈہ کیا جائے۔ اور پاپولر سیاستدانوں کو فارغ کر دیا جائے۔ ۔وجہ اس کی یہ تھی  کہ اسٹیبلشمنٹ صرف ایسے سیاستدانوں کو اپنا حریف سمجھتی تھی۔
جب ملک کے آئینی سربراہ نے آرمی چیف کو ہٹانے یا اس کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی،جیسا کہ اسکندر مرزا نے کی۔ آرمی چیف نے ملک پر مارشل لاء لگا دیا۔
اور اپنے اقتدار کو طویل کرنے کے لیے صدارت بھی حاصل کر لی۔
جنرل ایوب سات سال آرمی چیف رہے۔ اور گیارہ سال صدر رہے، گویا کل ملا کر اٹھارہ  سال  لیکن اقتدار اور اختیار سے ان کا دل نہ بھرا اور جنرل یحیی نے گن پوائنٹ پر ان سے استفعی لیا۔
پاکستان کے پہلے آرمی چیف نے اٹھارہ  سال اتھارٹی استعمال کی۔
جنرل یحیی خان نے ایوب خان کی روایات پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ اور چین کے تعلقات میں مدد کی  لیکن طویل اقتدار کے چکر میں ملک دولخت کروا لیا۔
جنرل ضیاءالحق بارا سال گزار گئے۔ گرم جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ ڈالر اور اسلحہ لیا  لیکن ملک کی خلاصی نہیں ہو رہی۔
جنرل مشرف دوسری افغان جنگ میں بے شمار اسلحہ اور ڈالر لے اڑے۔ دس سال اختیار انجوائے کیا۔ جنرل کیانی نے نکالا لیکن خود جنرل کیانی خود ایک ایکسٹینشن کے حقدار ٹھہرے ۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ اب بھی جاری ہے۔ جنرل راحیل شریف بوجہ ایکسٹینشن نہیں لے سکے۔ لیکن اب معروف صحافی عارف نظامی نے کہا ہے۔ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن مل رہی ہے۔
گویا آپ غور کریں۔ جنرل ایوب خان نے جن عسکری روایات کی داغ بیل ڈالی تھی۔ ان پر من و عن آج بھی عمل ہو رہا ہے۔ لیکن وقت پلٹا کھا رہا ہے۔ زمان و مکان میں تبدیلی آ رہی ہے۔ وہ کیا ہے۔ وہ اگلے کالم میں ۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply