• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پی ٹی آئی کی سیاسی تنظیم نو کی ضرورت اور آئندہ انتخابات کی حکمت عملی/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

پی ٹی آئی کی سیاسی تنظیم نو کی ضرورت اور آئندہ انتخابات کی حکمت عملی/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

سیاست تنظیم کا کھیل ہے۔ ایک منظم اور موثر تنظیم کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے اہداف اور مقاصد حاصل نہیں کر سکتی۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف  پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے جو عوام کی امنگوں کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔

 

 

 

 

تاہم حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کو کئی چیلنجز اور اسکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے اس کی تنظیمی ساخت، طاقت اور کارکردگی کو متاثر کیا ہے۔ انتخابی دھاندلی اور کرپشن کے الزامات سے لے کر اندرونی اختلافات تک پی ٹی آئی اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس مضمون میں ہم سیاسی حرکیات میں تنظیم کے کردار، پی ٹی آئی کی تنظیم کو درپیش چیلنجز، غیر دانشمندانہ فیصلوں کے نتائج، پی ٹی آئی کی تنظیم نو کی اہمیت اور اس کے مخالفین کی جانب سے پی ٹی آئی کی تنظیم کو کمزور کرنے کے منصوبوں کا تجزیہ کریں گے۔ ہم پی ٹی آئی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور آئندہ انتخابات کی تیاری کے لئے کچھ حکمت عملی بھی تجویز کریں گے۔

یہ یقین کیا جاتا ہے کہ تنظیم کسی بھی سیاسی جماعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ طریقہ کار ہوتا ہے جس کے ذریعے ایک پارٹی اپنے وژن کا اظہار کرتی ہے، اپنے حامیوں کو متحرک کرتی ہے، اپنی پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے، اور چیلنجز کا جواب دیتی ہے۔ ایک اچھی طرح سے منظم تنظیم ایک پارٹی کو مختلف علاقوں اور طبقوں کی سیاسی حرکیات کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنے پیغام اور اقدامات کو پہنچانے اور ان کو تیار کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی منظم تنظیم ایک پارٹی کو مقامی سے لے کر قومی سطح تک مختلف سطحوں پر اپنی سرگرمیوں کو مربوط کرنے اور اپنی صفوں کے اندر احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔

میرا ماننا ہے کہ تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں تبدیلی اور انصاف کا مضبوط بیانیہ تخلیق کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ عمران خان کی کرشماتی شخصیت نے مختلف پس منظر اور نظریات سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں کو ان کی تحریک میں شامل ہونے کی طرف راغب کیا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی کچھ پالیسیوں اور اصلاحات کو پاکستان کے صوبوں جیسے خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں نافذ کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے جہاں اس نے حکومتیں تشکیل دی، تاہم، یہ کامیابیاں پارٹی کی طاقت اور مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لئے کافی نہیں تھی۔ پی ٹی آئی کو ایک مضبوط تنظیم کی ضرورت ہے جو اس کے بیانیے کو عملی جامہ پہنا سکے اور مختلف محاذوں پر درپیش چیلنجز اور مسائل سے نمٹ سکے۔

ایک پارٹی تنظیم کے بغیر سیاست کرسکتی ہے اور نہ ہی سیاسی حرکیات کو سمجھ سکتی ہے۔ حالیہ اسٹیبلشمنٹ کے تیار کردہ اسکینڈلز کی وجہ سے پی ٹی آئی کی تنظیم غیر موثر ہو چکی ہے۔ عمران خان پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ملک بھر سے عمران خان کے حامی ایک بہتر تنظیم کیلئے پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔ بیانیہ عمران خان تیار کرتا ہے اور اس پر عملی طور پر  عمل درآمد کارکنان کرتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی تنظیم کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جس نے اس کی طاقت اور کارکردگی کو متاثر کیا ہے۔ ان میں سے کچھ چیلنجز بیرونی ہیں جبکہ کچھ چیلنجز اندرونی ہیں۔ جس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ بیرونی چیلنجز میں سے ایک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے شروع کیا گیا پروپیگنڈا اور پی ٹی آئی کے راہنماؤں خاص کر عمران خان کیخلاف غلط، ناجائز اور بے بنیاد مہم ہے۔ حکمران جماعتوں کے اتحاد، جس کا مقصد پی ٹی آئی کی جماعت غیر فعال کرنا، عمران خان کی نااہلی اور پارٹی کو دہشت گرد تنظیم ثابت کرکے سیاسی میدان سے ہٹانا ہے۔ پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ہونے اور اس کی حمایت سے 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ پی ڈی ایم نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نااہل، بدعنوان اور عوام دشمن ہے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پی ٹی آئی غیر ملکی دشمن طاقتوں کے آلہ کار ہے۔ اس نسبت کئی ایک مواقع پر پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لئے ملک بھر میں متعدد ریلیاں اور مظاہرے بھی کیے ہیں۔ اور پی ڈی ایم کی جماعتیں میڈیا کے جھوٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کے حامیوں میں غلط فہمیاں پیدا کر رہی ہیں۔ ان کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ آئندہ انتخابات میں دھاندلی کرکے ووٹ حاصل کرسکیں۔

میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو ایک اور بیرونی چیلنج یہ ہے کہ پارٹی کے اہم رہنماؤں اور ارکان کو غیر قانونی طور، سرکاری ایجنسیوں ، قانون اور عدالتی دباؤ کے ذریعے حراساں کرکے ان کو ٹارچر سیلوں اور جیلوں میں بند کیاجاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو بدعنوانی، منی لانڈرنگ، اختیارات کے غلط استعمال اور انتخابی دھاندلی کے الزامات پر گرفتار کیا گیا ہے۔ اور ان کو پریس کانفرنس کراکر بزور منحرف کیا گیا ہے ۔ ان منحرف ارکین کی انحراف کی وجہ پی ٹی آئی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے اور پارٹی کے اندر مزید تقسیم بھی پیدا کی ہے۔

ایک اندرونی چیلنج پی ٹی آئی کی تنظیم کے اندر مناسب ڈھانچے اور انتظام کا فقدان ہے۔ پی ٹی آئی کی بنیاد 1996 میں عمران خان نے روایتی سیاسی جماعت کے بجائے ایک سماجی تحریک کے طور پر رکھی تھی۔ پارٹی کے ارکان کے درمیان کردار اور ذمہ داریوں کی واضح درجہ بندی یا تقسیم موجود نہیں تھی۔ پارٹی نے حامیوں اور ووٹروں کو راغب کرنے کے لئے عمران خان کے کرشماتی شخصیت اور ان کی مقبولیت پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے۔ تاہم، جیسے جیسے وقت کے ساتھ پارٹی کا حجم اور دائرہ کار بڑھتا گیا، رسمی تنظیم کے بغیر اس کے معاملات کو سنبھالنا مشکل ہو گیا یے۔ پارٹی کو دوسری جماعتوں یا گروہوں سے شامل ہونے والے نئے ممبروں کو ضم کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ان حالات سے پہلے بھی عمران خان اور کرتا دھرتا مقتدرہ کی ایماء پر سلیکٹرز کی باہمی رضامندی کے مطابق پی ٹی آئی کی تنظیم بنائی گئی تھی جو عمران خان کو قائد سمجھ کر ان سے منسلک تھے۔ ان حالات میں اس وقت یہ ممکن تھا کہ تنظیم کا غلط طور سلیکشن کے ذریعے ذاتی خواہش اور پسند اور ناپسند کی  بنیاد پر کچھ افراد کو پارٹی کا انتظام حوالہ کیا جائے۔ اب یہ ممکن نہیں ہے۔ حالیہ طور پر پی ٹی آئی کی تنظیم کو اس کی قیادت یا ارکان کی جانب سے کیے گئے کچھ غیر دانشمندانہ فیصلوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان فیصلوں کے پارٹی کے امیج اور کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ایسا ہی ایک فیصلہ 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کے طور پر 2014-15 میں پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے یا مستعفی ہونے کا تھا۔ پی ٹی آئی نے جوڈیشل انکوائری اور دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا۔ تاہم، یہ اقدام الٹا ثابت ہوا کیونکہ پی ٹی آئی نے اپنی پارلیمانی موجودگی اور اثر و رسوخ کھو دیا، اور اپنے کچھ اتحادیوں اور حامیوں کو بھی الگ تھلگ کر دیا۔ پی ٹی آئی عدالتوں یا الیکشن کمیشن میں دھاندلی کے اپنے الزامات ثابت کرنے میں بھی ناکام رہی۔

اس طرح کا ایک اور فیصلہ میرٹ یا اہلیت کے بجائے ذاتی ترجیحات یا وفاداریوں کی بنیاد پر سال 2018 کے انتخابات کے بعد حکومت میں رہ کر کچھ نادیدہ قوتوں کے ایماء پر غیر دانشمندانہ فیصلوں کے ذریعے کچھ افراد کو مقرر کرنا تھا۔ پی ٹی آئی پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو اہم عہدے اور قلمدان دے رہی ہے جو کہ ناتجربہ کار، نااہل اور متنازعہ ہیں۔ اس کی فہرست کافی لمبی ہے لیکن کچھ مثالیں عثمان بزدار، محمود خان، زلفی بخاری اور فیصل واوڈا وغیرہ ہیں۔ ان تقرریوں نے پی ٹی آئی کے میرٹ اور احتساب کے عزم پر سوالات اکھڑے کردئیے ہیں اور پارٹی کے کچھ مستحق اور قابل ارکان میں ناراضگی بھی پیدا کی ہے۔

اس طرح کا تیسرا فیصلہ پارٹی کے اندر موقع پرستوں کو پروان چڑھانے کی اجازت دینا تھا جو نظریاتی وجوہات کے بجائے ذاتی فائدے کے لئے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل یا بعد میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے والے دیگر جماعتوں کے بہت سے سیاستدانوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ ان سیاست دانوں کو پی ٹی آئی کے ناقدین اور مخالفین اکثر “لوٹے کنگز” یا “الیکٹیبلز” کہتے ہیں۔ ان پر بے وفا، بدعنوان یا اقتدار کے بھوکے ہونے اور پی ٹی آئی کی بنیادی اقدار اور اصولوں کو پامال کرنے کا الزام ہے۔ ان پر پارٹی کے اندر دھڑے بندی اور تنازعات پیدا کرنے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ یہ ان غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی کی قیادت میں جن لٹیروں کو پیراشوٹ کے ذریعے لایا اور طاقت دیا گیا تھا اس وقت وہ کہاں کھڑے تھے اور ان کی حیثیت کیا تھی اور آج انہی لوگوں نے اپنی ڈیڑھ فٹ کی مساجد تعمیر کی ہیں۔

ان چیلنجز اور غیر متوقع تنظیمی نتائج پر قابو پانے کے لیے پی ٹی آئی کی تنظیم کو ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کو جمہوری، شفاف، جوابدہ اور موثر بنانے کے لئے اپنی تنظیم کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔

پی ٹی آئی کو اسکے علاوہ مقامی سے لے کر قومی سطح تک ہر سطح پر اپنے عہدیداروں اور نمائندوں کا انتخاب کرنے کے لئے انٹرا پارٹی انتخابات کروانے چاہئیں ۔ انٹرا پارٹی انتخابات سے پارٹی کی تنظیم کو بحال کرنے اور اس کے ارکان کو بااختیار بنانے میں مدد ملے گی۔ اس سے ان وفادار اور نظریاتی کارکنوں کی شناخت کرنے اور انہیں مستحق گرداننے میں بھی مدد ملے گی جنہوں نے پارٹی کی ہر مشکل وقت میں حمایت کی ہے۔ اس سے موقع پرستوں اور الیکٹیبلز کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی جنہوں نے پارٹی کے امیج اور ساکھ کو بری طرح متاثر کرکے نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انتخابی مہم سے پہلے تنظیم نو کرکے انتخابات کی تیاری شروع کی جائے۔ تنظیم کو دفاعی حالت سے احتجاجی حالت میں تبدیل کیا جائیں۔ پی ٹی آئی تنظیم کی تنظیم نو وقت کی اشد ضرورت ہے۔

ایک اور قدم جو پی ٹی آئی کو اٹھانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ملک اور عوام کو درپیش موجودہ مسائل اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنی پالیسیوں اور پروگراموں پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ پی ٹی آئی کو اپنے منشور اور وژن دستاویز کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے بدلتے ہوئے اندرونی اور بیرونی حالات، حقائق اور عوامی امنگوں کی عکاسی کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ پارٹی کو معاشی ترقی، سماجی انصاف، ادارہ جاتی اصلاحات اور خارجہ پالیسی کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کو اپنی کامیابیوں اور منصوبوں کو مختلف میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے عوام تک مؤثر طریقے سے پہنچانے کی بھی ضرورت ہے۔

تیسرا قدم جو پی ٹی آئی کو اٹھانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات اور تنازعات کو خوش اسلوبی اور تعمیری طریقے سے حل کرے۔ پارٹی کو اپنے ارکان کے درمیان مکالمے، مشاورت اور اتفاق رائے کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کو اپنی صفوں میں رائے اور نقطہ نظر کے تنوع کا احترام کرنے اور ذاتی حملوں یا الزامات سے بچنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کو اپنی صوبائی اور علاقائی شاخوں کی خودمختاری اور اختیار کا احترام کرنے اور ان کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔

پی ٹی آئی کی تنظیم کو نہ صرف اندر سے بلکہ باہر سے بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے مختلف ہتھکنڈے اور حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی تنظیم کو کمزور اور تباہ کرنے کا منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ ان میں سے ایک حربہ پی ٹی آئی کی کارکردگی اور پالیسیوں کے بارے میں پروپیگنڈا اور غلط معلومات پھیلانا ہے۔ پی ڈی ایم اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈال کر عوام میں پی ٹی آئی حکومت کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم الزام لگا کر عوام میں پی ٹی آئی کی قانونی حیثیت اور ساکھ کے بارے میں شکوک و شبہات اور الجھن پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دھاندلی اور جوڑ توڑ کے ذریعے اقتدار میں آئی تھی۔

ایک اور حربہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور ارکان پر قانونی اور عدالتی دباؤ ڈالنا ہے۔ پی ڈی ایم عدالتوں، الیکشن کمیشن، احتساب بیورو وغیرہ جیسے مختلف فورمز کا استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور اراکین کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات درج کرتی رہی ہے۔ پی ڈی ایم کی دھمکیوں اور طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے پارٹی کے ارکان کو ملوث کرنے کیلئے مقدمات میں ججوں یا دیگر اعلی عہدیداروں پر اثر انداز ہونے یا ڈرانے دھمکانے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔

تیسرا حربہ پی ٹی آئی کی تنظیم کے اندر تقسیم اور انحراف پیدا کرنا ہے۔ پی ڈی ایم پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں یا ارکان کو اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے یا اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کے لئے لالچ دینے یا مجبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم ترغیبات یا وعدے کرکے پی ٹی آئی کی تنظیم کے اندر موجود اختلافات یا شکایات کا فائدہ اٹھانے یا بھڑکانے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔
اس وقت یہ سوچ بھی موجود ہے کہ اس وقت ٹی آئی کی تنظیم نو کے بارے میں بات کرنے کا وقت نہیں ہے، لیکن یہ ریکارڈ پر ہے کہ جمہوری اصولوں کی پرواہ کیے بغیر قائم ہونے والی پارٹی کا دیرپا اثر نہیں ہوتا ہے۔پارٹی کے اندرایک جانے انجانے نامعلوم خوف کو پھیلایا گیا تھا۔ تاکہ کسی پی ٹی آئی کو اگلے انتخابات سے باہر نکالا جا سکے۔ پی ٹی آئی دفاعی موڈ میں ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں احتجاجی حالت میں آنے کے لیے انٹرا پارٹی بروقت انتخابات از حد ضروری ہیں۔

9 مئی کے واقعات اس وجہ سے ہوئے کہ تنظیمی ڈھانچہ غیر فعال تھا۔ ایک بار جب ناراض حامیوں کو واپس نہ آنے کی حد تک لے جایا جاتا ہے، تو پھر ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پارٹی رہنماؤں میں دراڑ پیدا کیا جاسکیں۔

کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق، 9 مئی کے حملے پی ٹی آئی کو فوج کے خلاف کھڑا کرنے اور ملک میں افراتفری پیدا کرنے کی سازش تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سازش کے پیچھے پی ڈی ایم حکومت اور بیوروکریٹک اسٹیبلشمنٹ کے اندر کچھ عناصر کا ہاتھ ہے اور انہوں نے پرامن مظاہرین میں دراندازی اور تشدد بھڑکانے کے لیے اپنے آلہ کار اور مسلح انارکسٹوں کا استعمال کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ عناصر پی ٹی آئی کی مقبولیت اور ساکھ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور جمہوریت اور ملکی خودمختاری کے محافظ کے طور پر فوج کا امیج بھی خراب کرنا چاہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پی ٹی آئی کی تنظیم پارٹی کی بقا اور کامیابی کے لئے ایک اہم اثاثہ ہے۔ یہ پارٹی کے دشمنوں کے لئے بھی ایک ہدف ہے جو اسے ناکام اور زوال پذیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا پی ٹی آئی کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوری اور موثر انداز میں اپنی تنظیم نو کرے۔ پارٹی میں فوری طورپر انٹرا پارٹی الیکشن کرانے، اپنی پالیسیوں اور پروگراموں کا جائزہ لے، اپنے اندرونی اختلافات کو حل کرے، پروپیگنڈے اور غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور قانونی اور عدالتی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کو آئندہ انتخابات کی تیاری کے لئے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو بھی حکمت عملی اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس خود کو تبدیلی اور انصاف کی جماعت ثابت کرنے اور اپنے حامیوں اور ووٹروں کی توقعات پر پورا اترنے کا سنہری موقع ہے۔ پی ٹی آئی کی تنظیم اس مقصد کے حصول کیلئے بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply