وڈھ “تصفیہ” ایک غلط روایت/ذوالفقار علی زلفی

ڈیرہ بگٹی، کاہان اور وڈھ بلوچ مزاحمت کے تین اہم مراکز رہے ہیں، ـ بلوچ مزاحمتی سیاست کی سمت ہمیشہ انہی مراکز سے متعین ہوا کرتی تھی ـ۔پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ نے ان مراکز کو توڑنے اور منتشر کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے ـ نواب اکبر خان بگٹی کے خلاف کلپر لائے گئے ـ بابا خیر بخش مری کو الجھانے کے لئے بجارانی تراشے گئے جب کہ سردار عطا اللہ مینگل کا راستہ روکنے کے لئے نصیر مینگل کو توانائی فراہم کی گئی ـ۔

 

 

 

 

بابا خیر بخش مری اپنے تینوں ہم عصروں کی نسبت زیادہ سیاسی ثابت ہوئے، ـ انہوں نے قبائلی جھگڑوں میں الجھنے کی بجائے پورے بلوچستان کو کاہان بنا کر نوآبادکاروں کو نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیل دیا ،ـ نواب اکبر خان بگٹی اوائل میں ایک ضدی اور انا پرست قبائلی سردار کی صورت سامنے آئے ـ، انہوں نے کلپر مسئلے کو قبائلی انداز میں نمٹانے کی کوشش کی مگر جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ یہ ان کا قد گھٹانے کی سازش ہے ،ـ اس احساس کے بعد انہوں نے بابا مری کا راستہ اختیار کرکے خود کو ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔ ـ

سردار عطا اللہ مینگل نے درمیانی راستہ اختیار کیا ۔ـ انہوں نے سیاسی و قبائلی دونوں طریقوں سے نوآبادکار کی سازش کا سامنا کرنے کی کو شش  کی ـ، سردار کی حکمت عملی کسی حد تک کامیاب رہی مگر مسئلہ مکمل طور پر حل نہ ہوسکا ـ سردار کی وراثت اختر مینگل کو منتقل ہوئی اور پاکستان کی چاپلوسی کی نشست شفیق مینگل نے سنبھال لی۔ ـ

شفیق مینگل نہایت ہی بے رحم ثابت ہوئے ـ انہوں نے بلوچ سیاست کے خلاف مذہب کا استعمال کیا، مزاحمت کاروں سے ہمدردی رکھنے والوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا، بلوچ کلچرل پروگراموں پر پرتشدد حملے کروائے، بھتہ خوری، رہزنی اور بلیک میلنگ جیسے حربوں کا کھل کر استعمال کرکے عام آدمی پر اپنی دہشت بٹھائی ـ۔

سردار اختر مینگل کی شناخت پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں رہ کر مزاحمتی سیاست دان کی رہی ہے ـ ،اس حوالے سے چند اختلافات کے باوجود ان کا کردار شان دار رہا ہے ـ تاہم انہوں نے اپنے آبائی خطے کے مخصوص سیاسی مزاج کو بدلنے پر کوئی توجہ نہیں دی، ـ وڈھ اور گرد و نواح میں ان کا فکر و عمل قبائلی سردار کی حد تک محدود رہا، ـ انہوں نے شفیق مینگل اور اس کے خاکی سرپرستوں کے خلاف عوامی مزاحمت تشکیل دینے کی بجائے فرسودہ قبائلی طور طریقوں پر انحصار کیا ـ۔

سردار کی یہ حکمت عملی تباہ کن ثابت ہوئی ـ ،اس سے شفیق مینگل کا قومی مجرمانہ کردار محدود ہوگیا اور وہ ایک سردار مخالف مینگل بن کر ابھرے ـ ایک ایسا مینگل جو سرداری نظام کے خلاف مسلح مزاحمت کر رہا ہے ـ گویا جھلاوان کی حد تک سردار اختر مینگل اور شفیق مینگل برابر کے فریق بن گئے ـ اختر مینگل کی شناخت ایک قومی رہنما کی ہے مگر شفیق کو عیار نوآبادکار کا آلہِ کار مان کر ان کے خلاف قومی مزاحمتی سوچ پیدا کرنے کی بجائے انہوں نے قبائلی راستہ اختیار کیا ـ یہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ـ۔

ممکن ہے اختر مینگل جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع، عمران خان کے خلاف پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی حالیہ پھرتیوں اور پی ڈی ایم حکومت کی حمایت کے باعث سمجھ رہے تھے کہ شاید عسکری اشرافیہ شفیق مینگل کو ان کے راستے سے ہٹا دے گی ـ اگر سردار اس نہج پر سوچ رہے تھے تو ان کے سیاسی تجربے و مشاہدے کا ماتم بنتا ہے ـ پاکستان کی فوجی اشرافیہ کسی بھی صورت ایک ایسے سیاسی خانوادے کے لئے اپنے کارآمد پراکسی کی بھینٹ نہیں چڑھائے گی جو بلوچ مزاحمت کا مینار رہا ہے ـ۔

اختر مینگل کی اس غلطی کے باعث شفیق مینگل کو زبردست قبائلی پروٹوکول مل گیا ـ پورا بلوچ قبائلی نظام “تصفیے” میں جت گیا ـ خان آف قلات چوں کہ خودساختہ جلاوطنی اختیار کئے ہوئے ہیں اس لئے “تصفیے” کی ذمہ داری چیف آف جھلاوان نواب ثنا اللہ زہری پر عائد ہوگئی ـ زہری مینگل قبائلی تنازع کے باعث زہری قابلِ قبول نہ تھے ـ ناچار خان آف قلات کے بعد دوسرے اہم قبائلی عہدے دار چیف آف ساراوان کو مداخلت کرنی پڑی ـ۔

چیف آف ساراوان نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں ایک وفد نے وڈھ جا کر فریقین سے طویل مزاکرات کئے ـ فرسودہ قبائلی رسوم رواج کے تحت فی الوقت دونوں کا تصفیہ کروا دیا ـ۔

بظاہر نواب رئیسانی کا کردار مثبت نظر آتا ہے مگر درحقیقت اس ثالثی سے بلوچ قومی سیاست پر نہایت ہی منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں ـ اس ثالثی نے شفیق مینگل کو ایک طاقت ور اور ناقابلِ نظر انداز فریق کی حیثیت دلا دی ہے ـ وہ ایک ایسی شخصیت بن چکے ہیں جس سے چیف آف ساراوان بنفسِ نفیس مذاکرات کرنے آتا ہے ـ اس نے بلوچ محنت کش کے خلاف جو بھیانک جرائم کئے ہیں ان کی پاداش میں اس کا قومی محاسبہ ہونا چاہیے تھا ـ اس کے پنڈی نشین سرپرستوں کے خلاف عوامی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے تھا ـ بجائے ایسا کرنے کے اسے ایک معتبر حیثیت دی گئی ـ۔

عوام کو سیاسی پلیٹ فارم پر منظم کرنے میں نہ سردار اختر مینگل کا مفاد ہے اور نہ ہی یہ نواب اسلم رئیسانی کے طبقاتی مفادات سے مطابقت رکھتا ہے ـ۔

یاد رہے بابا مری نے نہ صرف مری محنت کش بلکہ تمام بلوچوں کو قومی آزادی کے نظریے سے لیس کرکے مسلح جدوجہد کا راستہ دکھایا ـ دوسری جانب سردار اختر مینگل نے نظریے کو لات مار کر مینگل قبائلی عصبیت کا استعمال کرکے عام محنت کش مینگل کو بندوق تھما کر اسے دوسرے گمراہ مینگل کے خلاف کھڑا کردیا ـ اس گمراہ کن مشق کا حاصل یہ نکلا کہ ایک قومی مجرم محترم و معتبر قبائلی شخصیت میں ڈھل گیا ـ۔

شفیق مینگل اپنی اس نئی شناخت کا مکمل استعمال کریں گے ـ عین ممکن ہے آئندہ انتخابات میں وہ سردار مینگل کے قبائلی مسائل میں مزید اضافہ کرے ـ اس کے ساتھ ساتھ وہ مدت تک پاکستانی نوآبادکار کی آشیرباد سے بلوچ گردن پر بھی سوار رہے گا ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سردار اگر “سردار” رہے تو یہی ہوگا!

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply