کار دنیا تم سے پہلے بھی تھا ۔۔سیّد مہدی بخاری

کبھی کبھی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جس زندگی میں مقصدیت اور خوشیاں بھرنے کے لیے ہم سب بیل بنے ہوئے ہیں اور بے سمت دوڑ رہے ہیں ایسی زندگی کس کام کی ؟ ۔ہم سے بہتر فیملی لائف تو جانوروں کی ہے جو زیادہ تر وقت ایک ساتھ گزارتے ہیں اور انہیں کوئی عجلت بھی نہیں کیونکہ وہ اپنے ایجاد کردہ وقت اور تقسیم کار کے قیدی نہیں بلکہ فطرت کے بنائے ہوئے ٹائم ٹیبل کے تحت زندگی سے نباہ کر رہے ہیں۔

بُرا ہو ترقی کا جس نے اشیا اور لالچ تو عطا کردی مگر کوالٹی ٹائم چھین لیا۔اگر اپنی زندگی کا جائزہ لوں تو رائیگانی کا سوچ سوچ کے جھرجھری سی آجاتی ہے۔ہندوستان پاکستان میں بسنے والوں یعنی ہماری اوسط عمر ستر برس کے لگ بھگ ہے یعنی پچیس ہزار پانچ سو پچاس دن۔

اب ان ستر برسوں کو آپ مختلف خانوں میں تقسیم کر کے دیکھیں۔لگ بھگ ایک تہائی عمر یعنی تیئس برس نیند میں گزر جاتے ہیں۔باقی سینتالیس میں سے اکیس برس بیٹھ کر کام کرنے ، ٹی وی دیکھنے ، سستانے ، فون یا انٹرنیٹ پر ، جلنے کڑھنے یا تصوراتی دنیا میں صَرف ہوجاتے ہیں۔اب بچے چھبیس برس۔ان میں سے اوسطاً پندرہ برس ہوش سنبھالنے سیکھنے سکھانے اور کام کی تلاش میں گزر جاتے ہیں۔اب باقی رہ گئے گیارہ برس۔

ان گیارہ برسوں میں سے بہت ہی کوئی طرّم خان ہوا اور اسے زندگی کی مشقت نے مہلت دی تو چار برس اپنی مرضی کے کام ( لکھنا ، پڑھنا ، کھیلنا ، سیاحت ، فنونِ لطیفہ ) میں بسر کرنے کا موقع مل گیا۔مگر یہ سب کرنا ہمیں اکثر تب یاد آتا ہے جب بقول ساقی امروہوی
میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا
مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے

یہ زندگی جسے ہم یادادشت کی کمزوری کے سبب لافانی سمجھ کے جینے کی کوشش کرتے ہیں کیا واقعی ہم جینے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر زندگی ہمیں بسر کرتی ہوئی سامنے سے گزر جاتی ہے۔

ہم اپنے بچوں کو کتنا معیاری وقت دیتے ہیں اور سنگل فیملیوں کے انٹرنیٹ زدہ بچے آپ کے ساتھ کتنا معیاری وقت گزارتے ہیں۔ہم جن بہن بھائیوں کے ساتھ بچپن میں دن رات بسر کرتے تھے اور کبھی تصور بھی نہ کرتے تھے کہ سفاک زندگی کس کو کہاں لے جائے گی۔ان کا ایک دوسرے سے آج کتنا رابطہ ہے ؟ دن میں کتنا ان کا خیال یا تصویر یا ان کے ساتھ گذرا کوئی لمحہ بلبلے کی طرح دل میں ابھرتا ہے اور پھوٹ جاتا ہے ؟۔ جو ماں آپ کے ساتھ تب سے ہے جب آپ خود سے کروٹ بھی نہیں لے پاتے تھے اور جو باپ آپ کے ساتھ تب سے ہے جب آپ نے اس کی انگلی پکڑ کے پہلا قدم بھرا تھا۔آج ان کے ساتھ کس قدر کمیونیکیشن باقی ہے (میں سلام دعا اور عزت افزائی اور سرجھکا کے بات سن لینے کی بات نہیں کر رہا۔کمیونیکیشن کی بات کر رہا ہوں )۔

کیا آج بھی آپ کے والدین آپ سے بے ساختہ کوئی بھی بات کرنے کا حق استعمال کرتے ہیں یا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب آپ ان کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں یا کب آپ کا موڈ اتنا اچھا ہوتا ہے کہ وہ آپ سے دل کی بات کہنے کی جرات کر سکیں۔کہنا شاید  میں یہ چاہ رہا ہوں کہ دائمی زندگی کے چکر میں عارضی زندگی تباہ نہ کریں اور بطور انسان آپ کو جو چند کارآمد سال قدرت عطا کرتی ہے انہیں اپنی بساط کے مطابق معیاری اور مثبت انداز میں کھپانے میں لگائیں۔اس عیاشی کے لیے بے تحاشا وسائل یا پیسہ ہونا شرط نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری ہائی فائی سوسائٹی جہاں میری رہائش ہے اس کے بغل میں ایک گاؤں ہے جہاں خلیل موچی بستا ہے۔ میں اس کی چھوٹی سی دنیا کی سیدھی سادی گفتگو کی جھونپڑی میں کچھ دیر بیٹھ کر اس کے بے ضرر قصّے اور زمانے کے بارے میں اس کا نقطہ نظر بِلا ٹوکے سنتا رہتا ہوں اور وہ لوگوں کے جوتے بھی گانٹھتا رہتا ہے۔آج تک خلیل نے کسی کے بارے میں کوئی غیبت کی اور نہ ہی اپنی محرومیوں کا چارٹ اپنے چہرے پر چسپاں کیا۔اسی لیے پینسٹھ برس کی عمر میں بھی اس کا چہرہ مسکراہٹ کی گرمی سے تمتماتا رہتا ہے۔ کار دنیا تم سے پہلے بھی تھا بعد میں بھی رہے گا۔رونا دھونا تمہاری عمر نہیں بڑھا سکتا ،کم کر سکتا ہے ،تو پھر ہنس بول کے سفر کاٹنے میں کیا مسئلہ ہے ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply