گھاس، گھمن اور بھڑاس۔۔۔ شاد مردانوی 

١٤ جولائی ١٧٨٦ انقلابِ فرانس کا دن.

ہجوم کی نفسیات کا دن.

انصاف میں انتہا پسندی کا دن.

ظلم جب ہجوم کے ہاتھوں ہوتا ہے تب اہل خرد اس کو جواز دیتے ہوئے اپنا تحفظ کرنے میں دیر نہیں لگاتے.

جس کے ہاتھوں میں نرمی دیکھی گئی تھی اس کے گلے پر خنجر پھیرا گیا تھا.

کروڑہا انسان ایک قاتل اکائی بن گئی

ہجوم عقل نہیں جذبات کو اپنا رہنما مانتا ہے. جنگ جدل میں انسانوں کی اکائیاں قومیت نہیں ہجوم میں بدل جایا کرتی ہیں. اور ایسے موقعے پر عقل مند اور صاحب بصیرت قائد کی نہیں جذباتی قائد کی سنی جاتی ہے.

فرانس کے انقلاب سے پہلے فرانس کے شاہ کے مشیر روہان نے کہا تھا

“فرانس میں اتنی گھاس اگا کرتی ہے یہ بھوکی عوام گھاس کیوں نہیں کھالیتی؟ “

١٤ جولائی کو جب جذبات کی، جبر کی ستائی عوام کی عدالت لگائی گئی اسی روہان کو بپھری عوام نے گھاس کھلا کھلا کر مارا تھا.

زمانہ بدلا انسان نہ بدلا. انسان واحد حیوان ہے جو جذبات کے مکمل اور بھرپور استعمال پر قدرت رکھتا ہے. یہ اسی انسانی روییے کا تسلسل ہے کہ گھر، گلی، قوم، وطن، زبان، نسل کی چپقلش اور لڑائیاں جب سائبر ورلڈ پر پہنچی یہاں انہی رویوں کو دہرایا گیا جو حقیقی زندگی میں انسان نباہتا آیا ہے.

جبر اور استحصال کی جگہ پر جہل اور عناد کو رکھ دیکھئے امارت اور اقتدار کی جگہ پر علم اور حقیقی مسائل سے صاحبان علم کی لاپروائی کو رکھئے.

انقلاب فرانس میں مقتدر طبقہ عوام کے حقیقی مسائل سے لاتعلق رہا. اور کیک کھانے کا مشورہ دیتا رہا گھاس کھانے کا طنز کرتا رہا. سائبر دنیا میں صاحبان علم عوام کی حقیقی پیاس سے بیخبر رہ کر تراویح کی تعداد، تیرہ سو سالہ پرانی تاریخ میں جج کا کردار نباہنے، حیات و ممات کے لاطائل بحثوں میں الجھانے کی کوششیں اور بے حیا، مغرب زدہ، مادر پدر آزاد کے طعنوں میں گلے گلے تک غرق ہیں.

نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے. نوجوان نسل کو صاحبان علم کی صفوں کے ایک فرد کا عیب ہاتھ لگا اور وہ لڑکپنے سے نوجوانی اور جوانی تک کی ساری بھڑاس جو منبر و محراب سے لیکر علماء دین کی سائبر تحریروں تک سے جمع ہوئی تھی وہ تحریریں جو اپنے لکھاری کی تقدس، پاکدامنی اور فرشتہ خصلتی کا چیختا چنگاڑتا اشتہار اور ہر پڑھنے والے کی بے حیائی، اخلاق باختگی اور مغرب زدہ ہونے کا کھلا اعلان تھیں. وہ تمام بھڑاس صاحبان علم کی صفوں کے اس ایک فرد پر نکالنے لگی..

روہان کو گھاس کھلاکر مارا گیا تھا اس کا جرم ایک طعنہ تھا. جو اس نے دیا تھا.

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم الیاس گھمن کو بے حیائی کے طعنے دے کر ماریں گے اس کا جرم ایک الزام ہے. جو اس پر لگ چکا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply