• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ ششم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ ششم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

چنانچہ ان تمام مباحث سے جہاں رضا سے خارج استحصال کی بحث نکلتی ہے تو وہ ہر جگہ بدی پر مبنی ہوتی ہے چاہے لبرل اداروں میں  ملتی ہو یا مذہبی اداروں میں پائی جاتی ہو  ،مگر اتنا طے ہے کہ لوگوں کا مذہبی قائد و رہنما بننے  کے دعوے دار افراد  پر اس ضمن میں دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ  وہ اپنے اندر کی کالی بھیڑوں کو پہچان کر انکے خلاف مسلسل غیر مختتم کاروائیاں جاری رکھیں  ۔بالخصوص امتحانی اعداد کے حصول کے لئے جو کچھ لادینی اداروں میں ہونا  استحصال کی دنیا میں عام  قصہ جانا جاتا  ہے اسکا چلن مذہبی اداروں میں  ڈلنا   کچھ اچھا نہیں ہے کا اظہار ہے، لہذا اہل مدرس کو ماننا پڑے گا جس غلطی کے متحمل لبرل کلچر کے افراد ہوسکتے ہیں اس غلطی کے متحمل مذہبی رجحان کے دعوے دار  افراد نہیں ہوسکتے ہیں،اسی طرح ان جاہل مُلا اور مذہبی جذباتی لوگوں  کو بھی ذرا جذباتیت اور  بلیم گیم سے نکل کر لبرلز کے خلاف بھونکنے سے پہلے اپنے  اور اپنے  ہم عقیدہ اور ہم خیال افراد  پر زیادہ بھونکنا چاہیے تاکہ  ہر گروہ اپنے مجرموں کا خود احتساب کرے  اور کہے کہ تم نے ایسا  گھناؤنا جرم کیوں کیا ہے؟

جب تک ہر فریق انصاف سے کام نہیں لیگا،اپنے گھر میں جھاڑو لیکر  صفائی نہیں  کرے  گا ،تب تک اس ضمن میں  بس زبانی  کلامی باتیں ہوتی رہیں گی،  دیکھا تو یہ گیا ہے کہ جہاں اہل مذہب پر سماج کا  دباؤ پڑتا ہے تو بجائے اصلاح و اعتراف کے وہ لوگ ماسوائے چند ایک مثالوں کے  اپنے والوں  کو بچانے پہنچ جاتے ہیں ،انکا یہ کہنا و ماننا ہوتا ہے کہ انکے ہم قبیلہ سے ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ، یہ بیانیہ یہاں ایک نئی قسم کی نو معصومیت پیدا کرتا  ہے۔ حالانکہ یہ انکا صریحاً خودمغالطہ ہے کیونکہ نہ تو مُلا  معصوم الخطا ہے اور  نہ  اہلِ  مدرسہ میں سے کوئی دودھ کا دھلا   معصوم  اور محفوظ ہے ،وہ بھی  شریعت و قانون کی نگاہ میں زیرِ  احتساب ہے اور مسٹر لبرل بھی زیرِ  احتساب ہے،حساب  کی چرخی سب کے لئے ایک  ہے،جبھی جب وہ لبرلز پر جوابی حملہ کرتے ہیں تو مشبہ اور مشبہ بہ کا فرق و قیاس تک فراموش کرجاتے ہیں۔

لہذا  جب تک علمی جہالتوں کی مبادیت نہیں سمجھی جائیگی ،موضوع کی روح اور جوہری تفریق مد نظر نہیں رکھی جائیگی تب تک بس فضول یوٹیوبی ویڈیوز،بھانت بھانت کے یوٹیوبرز اور کلب آپکی رہنمائی کرکے آپکو بھٹکاتے رہیں گے، ہماری عام اور خاص کلاس سب اب تحقیق اور مطالعے سے دور ہوچکے ہیں ،اور موٹیویشنل اسپیکرز کی باتوں کی دھند  میں کھوچکے ہیں  اور آج کا مطالعہ بھی بس سرسری اور فرقہ وارانہ نوعیت کا حامل  محدود  یک رخی  معلوم پڑتا ہے یہاں فرقہ سے مراد سب مذہبی اور غیر مذہبی فرقہ جات  اور اسکول آف ٹھاٹس میری تنقید کی نوک پر ہیں ،پانی کی بلی اور کنویں کا مینڈک بننے سے بچیں  اور جاہلانہ تقلید کی روش سے باہر آئیں۔

میں نے ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ کہہ رہے تھے ہم کتاب سے دور ہوچکے ہیں، حلانکہ انکا خود کا  ذاتی محدود مطالعہ خود اپنے نسبتی گروہ کی کتب سے خارج کچھ نہیں ہے،زیادہ تر نیٹ سے سرچ کرکے موضوع کا مواد ڈھو نڈتے ہیں،  ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ میاں جی ! ،کیا آپ نے جامع الصفات متغیر ذخیرہ الکتب سے اپنا زاویہ بدلنے اور اپنے ورلڈ ویو کی خود تشکیل اور تعمیر کی کوشش کی  ہے؟  دیکھا گیا ہے کہ جامعت کے محققین،سوشل سائینٹسٹ  اور ریسرچ اسکالرز کی جگہ  سوشل انجینئرنگ  پر رائے اب  موٹیویشنل اسپیکرز  اور مذہبی بقراطیت جھاڑنے والے دینے  لگے ہیں ،  دیکھا گیا ہے کہ ان اسپیکرز کا  انداز بیاں اور ایکٹنگ دلفریب ہوتی ہے  مگر باطن کونسیپریسی تھیوریز اور بزنس ایڈمنسٹریشن کی ،behaviourial science  کے نظریات  مذہب کے تڑکے کے ساتھ انکی گفتگو میں جا بجا ملتے ہیں۔

آج کل ہر طرف جدھر دیکھو لوگوں کی بلا تحقیق  زبان چل رہی ہے،قلم نیٹ کلچر کا اسیر ہوچکا ہے،نیٹ  سے سرچ کرکے مطالعہ کامداوا کرتے پھرتے  ہیں، جامعات و مدارس کے اساتذہ کرام  سالوں سے گھسے پٹے لیکچرز دیکر بس  خانہ پری کر رہے  ہیں،کم محنت زیادہ کمائی پر یقین رکھنے لگے ہیں ،استاد و شاگرد اب تابع و متبوع ہونے کی جگہ حریف بن چکے ہیں،یار لوگ تمام متنازع  موضوعات سرچ کرکے ایک  وش لسٹ بنا کر ویڈیو کا ٹائٹل سیٹ کرکے ویو رز کو راغب کرنے کے لئے ویڈیو بنا دیتے ہیں ،بلا تحقیق اور علم تبصرہ کرنے لگتے ہیں،یہاں اس علمی دنیا میں ہر طرف ریسرچ کا بلاتکار چل رہا ہے،ریسرچ پیپر ایک سائینسدانوں،عالموں،فاضلوں،محققوں کی دنیا کا ایک تحقیقی کاوش کا نام ہے ،اسکو لکھنے کا ایک خاص رنگ ڈھنگ ہوتا ہے،اس میں حوالہ دینے کے لئے ایک معیار قائم کرکے اسکی پیروی کرتی پڑتی ہے،اسکا تجزیہ ماہرین فن کے دو جید افراد(پییر ریویو) کرتے ہیں تب  جاکر وہ جریدہ (ریسرچ جرنل) میں چھپتا ہے ،اب فوٹو اسٹیٹ کو بھی   ریسرچ پیپر کہا جانے لگا ہے(جیسے مرزا علی کا دوسرے کی تحریر کو اپنا ریسرچ پیپر کہنا)،پرانی تحقیقات کو نئی ذاتی تحقیق  کےنام  پیش کیا جارہا ہے۔

اس اصطلاح کو  اب ہر کوئی للو پتھو ،نتھو خیرا استعمال کر رہا ہے،جعلی ڈگری والے خود کو پی۔ایچ۔ڈی ڈاکٹر کہلواتے ہیں میڈیا سب جان کر بھی انکا لاحقہ وہی تحریر کرتا پھرتا ہے،اس ضمن میں عائشہ ٹک ٹاکر کا معاملہ ایک مثال کے طور پر سماج کی نفسیات اور تجارتی سرگرمیوں کی سیاست کو مد نظر رکھ کر سامنے رکھیں،میں نے معاملہ کے شروع میں جبکہ معاملہ واضح نہیں ہوا تھا ،عائشہ اور ریمبو کو دروغ گو قرار دیا تھا،یہ کسی کشف اور روحانی قوت کے دم پر نہیں کہا تھا بلکہ  جامعات سے تعلق کی نفسیات اور سوشل سائنس کے تناظر میں کہا تھا۔آپکی تحقیق مطالعہ،زاویہ نگاہ کی وسعت ،نفسِ  مضمون کی پرکھ اور جستجو آپکو سچ تک لے جاتی ہے،مشہور واقعات کو ادب کی نگاہ سے  فکشنل  اور ایموشنل ہوکر مت دیکھیں بلکہ اسے تاریخ،نفسیات اور روز مرہ کی معمول عقل(کامن سینس) کی عام چھلنی سے جانچیں تو منزل تک پہنچ سکتے ہیں( ہر دفعہ منزل ِ مقصود پر پہنچ جائیں اسکی کوئی ضمانت نہیں ہے)، دیکھا گیا ہے کہ تعصب اور گروہی وابستگیاں فرد کی عقل کو جذبات و وابستگی کی سیاست کا غلام کردیتی ہیں اہل علم جب اس بیماری کا شکار ہوجائیں تو علم فوت ہوجاتا ہے،جبھی اس موضوع کو صرف مرچ مسالہ کی لذت کے تناظر میں  مت دیکھیں بلکہ  اسکو  فکری  و جوہری تناظر میں موضوع اور بحث کی  علت و معمول کو مد نظر رکھ کر  دیکھیں،اور جبھی  ہماری تحریروں میں  بحث کی سابقہ بحثوں میں بات سے بات نکلتی ملتی ہے  اور بحث الگ الگ جگہوں پر الگ الگ رنگ ڈھنگ میں لپکتی جھپکتی  نظر آتی ہے ممکن ہے اس سے شاید تسلسل متاثر ہورہا ہو ،مگر شروع سے آخر تک ملا کر ایک بحث کو دیکھا جائے تو قیا س ہے کہ (یقیناً کہنا زیادتی ہوگی) بات سمجھ آجائیگی۔

ہم جنس پرستی ،پنج نسلی حربیت(ففتھ جنریشن وار) اور میڈیائی یلغاریں:

ہم جنس پرستی کی بابت کئی  موقف ملتے ہیں،کچھ اسے خاص ماحول کی پیداوار قرار دیتے ہیں تو کچھ اسے  غلط صحبت سے پیدا شدہ جنسی ندرت طبع گردانتے ہیں تو کچھ کے نزدیک یہ جنس ِ متضاد تک رسائی میں ناکامی کے سبب ایک متبادل طریقہ ہوتا ہے،کچھ کا کہنا ہے کہ یہ آزادی کے فلسفہ کی لذت آمیز وہ جنسی انتہا ہوتی ہے جس میں سماج و معاشرہ کی بقا کو انفرادی ارادہ اُدھیڑنے کی کوشش کرتا  دکھتا ہے ۔یہاں لذت و اشتہا ایک متاثرہ فرد میں  خاص انا کی تعمیر میں متبدل ہوجاتی ہیں، جہاں انسان کو جنس مخالف کے سامنے سربسجود کرنے  اور اسکے آگے اپنی انا قربان کرنے کی جگہ ایسی صلبی حالت کو جنم دیتی ہے جہاں اپنی ہی جنس و نوع سے جنسی تعلقات و روابط قائم  کرنے کو سستا متبادل اور خفیہ طریقہ جانا  جانےلگتا ہے لہذا   ان یک جنسی روابط و  تعلقات تک عموماً قیاس ہے کہ   ناظرین و مشاہدین کی نگاہ کم ہی جاپاتی ہے،یوں نہ  یہاں اولاد کا   جھنجھٹ  پیدا ہوتا  ہے اور نہ  کسی  مشاہد کا  عموماً  اس قسم کے تعلقات تک دماغ جاپاتا ہے،مزید براں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بائی سیکثول افراد ہم جنس پرستی اور غیر ہم جنس پرستی دونوں طریقے جنسی ذائقہ بدلنے کے لئے تبدیل کرتے رہتے ہیں،اسی طرح بعض جنسی لذت پسندوں کا یہ رجحان ہے کہ کچھ نیا کرنا چاہیے اور یہ نیا طریقہ  انھیں کوئی حادثہ یا پنج نسلی حربیت سکھاتی  ہے۔

پنج نسلوی حربیت درحقیقت ایک ملائم پروپیگنڈہ،بیانیہ سازی،شخصیت سازی یا فکر سازی کا ایسا ابلاغی فروغی طریقہ  ہوتا ہے جس کا منشا و مقصد بلواسطہ ملائم طریقہ سے بتدریج ذہن سازی کرنا یا ذہن بدلنا ہوتا ہے،اس طریقہ میں حقیقت کو معکوس طور پر پیش کیا جاتا ہے،مبالغہ میڈیا کے ذریعہ انتہا پر پہنچایا جاتا ہے،فلم،ٹی۔وی۔ڈرامہ سیریز،ڈاکیومنٹری،پبلک ریلشنز  پروڈکشن،تحریریں اسکے خاص الخاص  ذرائع ہیں ۔

ہم جنس پرستی کی بابت ماضی   قریب  میں  نفسیات دانوں کا ایک طبقہ یہ  کہا کرتا تھا کہ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں جنسی رجحان  رکھنے والے مخالف جنس کی طرف میلانات و رجحانات رکھنے کی جگہ اپنی ہی جنسی نوع کی طرف رجحان رکھنے لگتے ہیں، غالب تاریخ و مذہب یہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں کبھی کسی معاشرت و تمدن نے اسے ماسوائےاہل سدوم یا کچھ قولوں کے مطابق اہل پومپئی کے ماسوا کسی نے اسے اجتماعی طور پر پسند نہیں کیا تھا ۔مگر علم بشریت،جمہوریت،حریت پسندی،اور سرمایہ داریت نے اس رجحان کو  حریتی و تجارتی طور پر بہت زیادہ بڑہوتری اور تحفظ فراہم کیا  چنانچہ ،پورن کلچر کے ہم جنس پرست پہلو اور قسم نے اسے عامتہ الناس میں  عام کردیا اس پر سونے پر سہاگہ اسی میڈیا انڈسٹری  نے ہم جنس پرستی کو پنج نسلوی حربیت کے ذریعہ عام عوام کے اذہان میں   جان بوجھ کر منظم طور پر فکشن سازی کے نام پر راسخ کیا ،اور جن لوگوں کو خاندان و سماج کی ظالمانہ جبلت نے محدود و مقید کردیا تھا انکو اس کے ذریعے اپنی جنسی اشتہا کو بجھانے اور لذت کے حصول کا ایک نادر و نایاب آسان طریقہ سجھا دیا گیا ۔

چنانچہ انہی فلموں اور ڈرامہ سیریز نے جن کے ہم سب   آن لائن ڈرامہ پلیٹ فارم کے ذریعہ اسیر ہوچکے ہیں ، ان میڈیائی پلیٹ فارمز نے جیسے ایچ۔بی۔او۔ نیٹ فلکس  ،ایمیزون،بالاجی  وغیرہ نے جنسی میل ملاپ کی دنیا کے مختلف رخ مختلف صارفین و ناظرین کی خواہش کے تناظر میں دکھانے شروع کئے  ہیں جیسے،مردوں کے مردوں سے روابط کی منظر کشی کو گے سیکس ویڈیوز  کی قسم میں ڈال دیا گیا،عورتوں کے باہمی جنسی روابط کو لیزبین نوع میں شامل کردیایا گیا،کم عمر بچوں کو جنسی طور پر تربیت دیکر انکی منظر کشی کو چایلڈ پورن یا ٹین سیکس کہلوایا گیا،کم عمر مرد اور بڑی عمر کی عورتوں کے جنسی تعلقات کو مِلف کہا گیا،خاندانی محرمات کے باہمی جنسی تعلقات و روابط کو انسیسٹ  یا ٹیبوز کہا گیا،یہ تو خیر ایک ایسی انڈسٹری کا ماجرا ہے جو پورن کلچر کو ڈیویلپ  کرتی نظر آتی ہے،اور یہ کلچر اربوں  ڈالر کی کمائی کا ایسا ذریعہ بن چکا  ہے جہاں عورت فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگتی ہے،جسکی ایک فلم اسے عموماً مرد اداکار سے زیادہ معاوضہ دلواتی ہے،بلکہ وہ کمائی میں کسی جج اور جامعہ کے پروفیسر سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دعوؤں کے مطابق پورن انڈسٹری کی تجارتی سرگرمیاں بعض تناظر میں ایمیزون،علی بابا،گوگل اور مائیکرو سافٹ جیسے اداروں کی آمدنی سے بڑھ جاتی ہیں بعض دعوؤں کے مطابق اس وقت کروڑوں پورن ویب سائیٹس آن لائن موجود ہیں۔

چنانچہ کرس ہیجز کہتا ہے کہ:

“ world wide porn revenues topped 97 billion dollars, in 2006. that is more than the revenues of Microsoft, Google, Amazon,e-bay, Yahoo, Apple, Netflix,&earth like combined.”

[hedge, Chris.The empire of illusion: the End of literacy& the triumph of spectacle.Nation books.USA.2006.pp”58]

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply