فلم ریویو:سوارنگی۔۔مرزا شہباز حسنین بیگ

یقین کریں سوارنگی کا معنی کیا ہے میں نہیں جانتا۔ سوارنگی کیا ہے؟ جواب میں اتنا بتا سکتا ہوں یہ اک پاکستانی فلم کانام ہے۔ اچانک سکرولنگ کرتے ہوئے سوارنگی نام کی فلم نظر آئی۔ سوچا ایسے ہی کوئی فضول سی فلم ہو گی مگر سوارنگی لفظ غیر مانوس سا محسوس ہوا جس کی وجہ سے تجسس ہوا کہ ایک بار پلے کا بٹن پریس کر کے دیکھتے ہیں۔ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں۔ اگر اچھی ہوئی تو دیکھ لیں گے ورنہ دو چار منٹ کے بعد کھلی ولی کر دی جائے گی۔
یہ سوچ کرفلم شروع کی ۔
دل تھام کر سنیں ،فلم کے پہلے ہی سین نے حیران کُن تاثر پیدا کیا۔ اور منظر نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ پلکیں جھپکنا بھول چکی تھیں۔
لگ رہا تھا کہ کسی عالمی شہرت یافتہ ایرانی ڈائریکٹر کی ڈائریکشن میں بنی کوئی شاہکار فلم چل پڑی ہے۔ دو منٹ کے سین نے اس قدر حیران کیا۔ فلم ادھر ہی سٹاپ کی۔ اور بنا سوچے سمجھے پاکستان میں عامر کاکازئی  بھائی کو میسنجر پہ سلام عرض کیا اور پوچھا عامر بھائی۔ سوارنگی نام کی پاکستانی فلم دیکھی ہے۔ اس وقت پاکستان میں رات کا ایک بج رہا تھا لیکن عامر بھائی شاید جاگ رہے تھے انہوں نے جواب میں اک آرٹیکل کا لنک سکینڈز کے اندر ہمارے منہ پہ دے مارا کہ پہلے ذرا اسے پڑھ لیں۔ ایک انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون میں سوارنگی فلم کے متعلق مضمون تھا۔ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ فلم کو سنسر بورڈ نے سینما میں نمائش کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور پاکستان کے سینماؤں میں فلم سوارنگی banned کر دی گئی ہے۔

جس کے بعد مجھے یقین ہو چکا تھا کہ سوارنگی اک مکمل شاہکار ہے اور اب بلا تاخیر فلم دیکھنی چاہیے۔ فلم دوبارہ سے پلے کی اور پھر سوارنگی نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ فلم کی لوکیشن سینماٹوگرافی اور ڈائریکشن، بیک گراؤنڈ میوزک سب ہی بہترین۔ اک اک منظر متاثر کُن۔ ایوب کھوسو اور ریشم کی شاندار اداکاری اور وسیم منظور نے بھی شاندار اداکاری سے دل موہ لیا۔
فلم کے دوران کئی مواقع پر جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سوارنگی منشیات کی تباہ کاریوں سے آگاہی فراہم کرتی اک بہت ہی عمدہ اور با مقصد فلم ہے۔
سنسر بورڈ نے نجانے کیا سوچ کر اتنی معیاری فلم کی نمائش  نہیں ہونے دی ۔

انتہائی افسوس کی بات ہے ایک طرف فلم انڈسٹری کے زوال کا رونا رویا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اک اچھی معیاری اور با مقصد فلم کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ فدا حسین اس فلم کے ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے انتہائی اعلی ٰ پائے کی ہداتیکاری دی ہے۔ اور معاشرے کو اک بامقصد پیغام عمدگی سے فلم بینوں تک  پہنچایا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ نشہ اک لعنت ہے۔ اور اس فلم میں کہانی ہے ہیروئین کے نشے کے عادی شخص کی، جس کے دو بیٹے ہوتےہیں۔ اک خوبصورت بیوی اور بوڑھی ماں مگر نشے کی لت کا شکار ہوکر کس طرح یہ شخص اپنے گھر کو برباد کر دیتا ہے اور بچوں بیوی اور اک نو مولود بیٹی اور ضعیف ماں کو کن مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انتہائی المناک اور چونکا دینے والے مناظر سے بھرپور فلم ہے جسے دیکھ کر آپ تعریف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ باقی ریویو لکھنے کا مطلب یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ پوری فلم کی سٹوری بتا دی جائے۔ اور سارا تجسس تھرل ختم ہو کر رہ جائے۔ ایک انڈین فلم ماتر بھومی کا ریویو پہلے لکھا۔ ماتر بھومی بھی انتہائی چونکا دینے والی فلم تھی۔ مگر سوارنگی بھی اپنی مثال آپ ہے۔

فلم سوارنگی کا اختتام انتہائی المناک ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ منشیات فروشوں اور منشیات کا کاروبار کرنے والوں کی سفاکیت کو عمدگی سے دکھایا گیا ہے۔
میرے خیال میں فلم اک ایسا میڈیم ہے جو ہزار صفحات کی کتاب میں پیش کیے گئے پیغام کو دو گھنٹے کے اندر زیادہ موثر طریقے سے معاشرے تک پہنچا سکتا ہے۔ فلم کی شوٹنگ بلوچستان میں کی گئی ہے۔ سنسر بورڈ کا فلم پر سب سے بڑا اعتراض تھا کہ فلم میں پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچایاگیا ہے جو کہ میرے خیال میں انتہائی بوگس اور واہیات قسم کا اعتراض ہے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں معیاری فلم نہیں بن سکتی تو سوارنگی دیکھ کر اپنا مغالطہ دور کر لیں۔ اور پہلی فرصت میں سوارنگی دیکھ لیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply