جنرل ضیاء کے 11سال،1ماہ اور 12دن/حیدر جاوید سیّد

آج سترہ (17) اگست ہے آج ہی کے دن سپہر سے کچھ دیر بعد بستی لال کمال ضلع لودھراں کے علاقے میں پاک فضائیہ کا طیارہ سی ون تھرٹی فضا میں پھٹ کر ملبے کی صورت میں زمین پر گرا اور پاکستان کے تیسرے فوجی آمر جنرل محمد ضیاء الحق کے گیارہ برس ایک ماہ اور بارہ دن پر پھیلے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔

سی ون تھرٹی میں فوجی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن سمیت متعدد اعلیٰ فوجی افسران، ان میں جناب صدیق سالک) بھی تھے جو اس حادثے میں راہی ملک عدم ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں امریکی سفیر رافیل کے علاوہ بریگیڈیئر واسم بھی تھے۔

جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کو منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ بظاہر اقتدار پر قبضہ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ قومی اتحاد کی حکومت مخالف تحریک کے احتجاج کے جواب میں پیپلزپارٹی نے لاہور سمیت چند شہروں میں”مسلح کارکنوں” کے جو جلوس نکالے ان سے ملک میں خانہ جنگی کے خطرات پیدا ہوگئے تھے۔

5 جولائی کو نافذ ہوئے مارشل لاء کے ابتدائی دنوں میں یہ چورن خوب بیچا گیا حالانکہ انہی دنوں قومی اتحاد میں شامل ایک مذہبی سیاسی جماعت کی طلبہ تنظیم نے ملتان، لاہور، کراچی، پشاور اور راولپنڈی سمیت متعدد شہروں میں لٹھ بردار جلوس نکالے اور بعض مقامات پر پیپلزپارٹی کے حامیوں اور ان کی نجی و کاروباری املاک کو نقصان بھی پہنچایا۔

صالح لڑکوں کا یہ احتجاج چونکہ اسلامی انقلاب کا مختصر ٹریلر تھا اس لئے مارشل لاء حکام نے اس سے چشم پوشی برتی۔ برتنی بھی چاہیے تھی کیونکہ آگے چل کر صالح لڑکے اور نیم بوڑھے صالحین مارشل لاء حکومت کی بی ٹیم ثابت ہوئے۔

عسکری حلقوں میں جنرل محمد ضیاء الحق کی دو باتوں سے شہرت تھی اولاً اردن میں ملٹری اتاشی کے طور پر تعیناتی کے عرصہ میں فلسطینیوں کے خلاف اردن حکومت کے آپریشن (اسے فلسطینی آج بھی بلیک ستمبر کے نام سے یاد کرتے ہیں) کی قیادت فرمائی اس معرکے میں ان کے ساتھ ونگ کمانڈر خاقان عباسی بھی شامل تھے جو بعدازاں ان کے دور حکومت میں اوجڑی کیمپ والے واقعہ میں ایک میزائل کی زد میں آکر وفات پاگئے۔

جنرل ضیاء الحق کی شہرت کی دوسری وجہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ہوئی ناکام فوجی بغاوت کے ملزمان (ان میں میجر (ر) راجہ نادر پرویز بھی شامل تھے راجہ صاحب بعدازاں قومی اسمبلی کے رکن اور وفاقی وزیر بھی بنے) کے خلاف سماعت کرنے والی فوجی عدالت کی سربراہی اس درخواست کے ساتھ حاصل کرنا ہے کہ “جناب وزیراعظم میں عالم اسلام کے قائد کے خلاف بغاوت کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچاکر فرض ادا کرنا چاہتا ہوں”۔

اٹک قلعہ میں لگنے والی اس فوجی عدالت نے میجر جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں باغیوں کو سخت سزائیں سنائیں۔ یہ اور بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو کچھ عرصہ بعد ان باغیوں کی سزائیں معاف کرکے انہیں رہا کردیا۔

عالم اسلام اور پاکستان بلکہ امریکہ اور یورپ تک کے لئے ان کی عظیم خدمات “ہمیشہ” یاد رکھی جائیں گی۔ 5 جولائی کا مارشل لاء ہی نہیں بلکہ اس کی راہ ہموار کرنے والی پاکستان قومی اتحاد کی بھٹو مخالف تحریک امریکہ سپانسرڈ تھی۔

امریکی بھٹو کو اقتدار سے نکلوانے میں کیوں دلچسپی رکھتے تھے، اس کی وجہ خطے میں اگلے برسوں میں در آنے والی تبدیلیاں تھیں۔

اگست اور پھر ستمبر 1976ء میں امریکی سفیر نے بھٹو صاحب سے تین ملاقتیں کیں ان 3 ملاقاتوں کے حوالے سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں جو رپورٹ ہوا وہ یہ تھا کہ “امریکی سفیر نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے دو پڑوسی ملکوں افغانستان اور ایران کے حوالے سے ان معلومات پر اعتماد میں لیا جنہیں سی آئی اے نے وائٹ وہائوس کو رپورٹ کیا تھا۔

نیز یہ کہ پاکستانی وزیراعظم نے ان دونوں ملکوں کے لئے امریکی ترجیحات اور مستقبل کی پالیسی کا حصہ بننے سے دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

امریکی سفیر اور بھٹو کی ان تین ملاقاتوں کے بعد پاکستان میں بھٹو مخالف قوتوں کو ایک وسیع اتحاد کی صورت میں منظم کرنے کا آغاز ہوا ان کوششوں کے لئے سنہری موقع بھٹو کی طرف سے قبل از وقت انتخابات کا اعلان تھا۔

تین ماہ کی کوششوں کے نتیجے میں جنوری 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد معرض وجود میں آیا یہ اتحاد اصل میں پہلے سے موجود یو ڈی ایف (یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) کی توسیع تھی۔

انتخابات ہوئے ان میں بلامقابلہ انتخاب اور پولنگ والے دن کی دھاندلیوں کی شکایات پر قومی اتحاد نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا اور احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ مسلح افواج کے ذیلی محکمے شہر شہر اس تحریک کے پشت بان ہوئے۔

بالآخر 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگ گیا۔ جنرل ضیاء الحق اس ملک پر گیارہ برس ایک ماہ اور بارہ دن حکمران رہے حالانکہ انہوں نے آیات قرآنی پڑھ کر 90 دن میں انتخابات کراکے بیرکوں میں واپس جانے کا اعلان کیا تھا۔

اسی عرصہ میں افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب ثور اور ایران میں آیت اللہ سید روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق امریکیوں اور یورپی ممالک کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔

پاکستان لادین سوویت یونن کے خلاف اہل کتاب کے مشترکہ جہاد کا اڈا بن گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے غیرجماعتی بنیادوں پر 2 بلدیاتی اور ایک عدد قومی انتخابات کرائے ان تین غیرجماعتی انتخابات نے سیاسی کارکنوں کی جگہ انویسٹروں اور نالی موری کے ٹھیکیداروں کو پہلی صف کے ساتھ نمائندگی کی نشستوں پر لابٹھایا۔

اہل کتاب کا مشترکہ جہادی اڈا پاکستان کو بنانے کے “فیض” سے اہل پاکستان آج بھی “لطف اندوز” ہورہے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے دستور کیا ہے چند کاغذوں کا پلندہ جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ ان کے دور اقتدار میں ذوالفقار علی بھٹو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھائے گئے۔

ان کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کی پاکستان بچائو تحریک کے دوران ہزارہا سیاسی کارکن گرفتار ہوئے اور انہیں فوجی عدالتوں سے قید بامشقت و کوڑوں کی سزائیں ہوئیں۔ اس تحریک کے دوران سب سے زیادہ مظالم سندھ میں ڈھائے گئے۔

یوں تو فوجی حکومت پورے ملک کو ہی مفتوحہ علاقہ ہی سمجھتی تھی لیکن صوبہ سندھ کو ایسا مفتوحہ علاقہ سمجھ لیا گیا جہاں محمود غزنوی کے ملتان میں توڑے گئے مظالم کی یادیں تازہ ہوگئیں۔

ان کے دور اقتدار میں مذہبی قوانین کے بعض آرڈیننس جاری ہوئے ان سخت گیر آرڈیننسوں کی وجہ سے معاشرے میں جو انتہا پسندی پھلی پھولی اس کے نتائج ہم آج بھی بھگت رے ہیں اسی طرح فوجی حکومت کی جہادی پالیسیوں سے فرقہ پرست جماعتوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔

جہادی تجارت نے سینکڑوں ککھ پتیوں کو کروڑ و ارب پتی بنا دیا ان میں جرنیل، ملا اور جھولی چُک سیاستدان سبھی شامل تھے۔ اسی دور میں ٹائم میگزین نے دنیا کے ساتھ امیر جرنیلوں کی جو فہرست شائع کی اس میں جنرل فضل الحق کا نام بھی شامل تھا۔ سرکاری کارندے ملک بھر کی اخباری مارکیٹوں اور بک سٹالوں پر ٹائم میگزین خریدے پھرے۔

ان کے کروائے گئے تین غیرجماعتی انتخابات نے ذات برادری علاقے فرقے کے تعصبات کو بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ اپنے ہی لگائے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی طرف سے افغان تنازع پر ہونے والے جنیوا مذاکرات پر ناخوش تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اہل کتاب کے مجاہدین اسلام سوویت یونین کو فتح کرکے آگے بڑھیں گے۔

ان کی پالیسیوں جہاد نوازی اور مذہبی آرڈیننسوں نے جو کانٹے بوئے یہ پچھلے 36سال سے چنے جارہے ہیں مگر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔

17اگست 1988ء کی سپہر کے کچھ بعد وہ طیارہ پھٹنے سے راہی ملک عدم ہوئے لیکن نفرتوں، تعصبات، برادری ازم، جہادیت وغیرہ وغیرہ کے جو بیج وہ بوگئے ان کی فصلیں کاٹتے جارہے ہیں لیکن خودرو جھاڑیوں کی طرح پھر سے فصل اُگ آتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے گیارہ برس ایک ماہ بارہ دن پر پھیلے اقتدار کا ایک کالم میں احاطہ بہت مشکل ہے۔ 5 جولائی 1977ء سے جو سماجی اخلاقی اور سیاسی زوال شروع ہوا وہ کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ یہ زوال مکمل تباہی سے دوچار کرکے رہے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply