نصف صدی بعد گاؤں واپسی۔۔عبید اللہ چوہدری

ابا کو جب احساس ہوا کہ ترکے  میں ان کے حصہ میں اب مربعے نہیں صرف چند ایکٹر ہی آئیں گے تو وہ گاؤں چھوڑکر شہر ہجرت کر گئے۔ یتیمی اور مسکینی نے ان کی واپسی کا راستہ بھی نہ  چھوڑا تھا۔ انہوں نے نا صرف اپنے بلکہ خاندان کے سارے بچوں کو پڑھانے کا عزم کیا۔ ہمارے خاندان میں ابا ہی سب سے زیادہ پڑھے لکھے تھے۔ مڈل پاس ۔۔۔ اور گاؤں والے انہیں منشی کہتے تھے۔
روزگار نے پاکستان کے سارے بڑھے شہروں کی یاترا کروائی ۔ اپنے منفرد فن خطاطی کی وجہ سے آخری ٹھکانہ لہور ٹھہرا۔ شادی کی، گھر بنایا اور پھر آہستہ آہستہ ہمارا گھر ہوسٹل بن گیا۔ لڑکے اور لڑکیوں کا ہوسٹل جس میں ہر عمر کے طلبا موجود تھے۔

خاندان کے کئی افراد باوقار روزگار کا وسیلہ بننے اور اپنی  ذاتی زندگی کی مصروفیات سے فارغ ہو کر گاؤں  واپس چلے گئے اور وہاں مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے کوشش سکول کی بنیاد رکھی۔ اب علاقے میں ابا کی ترقی کچھ ایسے ہوئی کہ لوگ اب انہیں منشی نہیں   بلکہ ماسٹر جی کہہ کر پکارتے۔ رشتہ داروں سے زمین واپس لینا ۔۔۔ ایک جہاد سے کم نہ  تھا۔۔ لیکن ڈٹے رہے اور اسی زمین کے بل بوتے پر مفت تعلیم اور باقی فلاحی کاموں پر خرچ کرنا شروع کر دیا۔ ہمیں صاف صاف کہہ دیا گاؤں کی طرف “دیکھنا” بھی نہیں۔۔۔ مطلب مجھے روکنا یا کوئی تجویز دینے کی کوشش بھی نہ  کرنا۔

مسجد، جنازگاہ، اور دینی مدرسے کی تعمیر، غریب بچیوں کی شادیاں، راشن کی تقسیم اور اس سب سے زیادہ ہر وقت سکول کی فکر۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ میں ابا کے بیشتر فلاحی منصوبوں سے متفق نہ  تھا۔ میں نے ایک دو بار اپنے دلائل سے انہیں قائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن بات حد سے نہ  بڑھ جائے، شکست تسلیم کرنے میں ہی عافیت جانی۔

اب میں تعلیم یافتہ ، ترقی پسند، پائیدار ترقی کا چیمپئن ، صنفی برابری، انسانی حقوق اور پسے ہوئے لوگوں کی موثر آواز تھا۔ لکھنے لکھانے کا بھی جنون تھا۔ ابا کو دکھ تھا کہ میں نے صحافت چھوڑ کر غلطی کی۔
“اگر یہ “چول” اتنے کامیاب صحافی ہو سکتے ہیں تو تم تو ان سے بہت اچھے تھے” لیکن میرا دل صحافت سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ واپسی نا ممکن تھی”
ابا کی علالت اور پھر وفات کے بعد گاوں واپسی بہت غیر متوقع اور آنکھیں کھولنے والا تجربہ تھا۔ میرے کئی نظریے اور سوچ کے زاویے شدید دباؤ میں آ گئے تھے!
مثلاً۔۔
1- جب تک لوگوں کا اعتماد حاصل نہ ہو آپ کی علمیت ٹکے کی بھی نہیں۔
2- جب تک لوگوں کے پیٹ میں روٹی نہیں وہ خدا کی بھی نہیں سنتے، ہماری کیا سنیں گے۔
3- لوگوں کا اعتماد صرف روایتی طریقہ کار اور تسلسل کے ساتھ ان کے ساتھ جڑ کر اور ان کے کام آ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کوئی شاٹ کٹ نہیں۔
۴- آپ جو بھی سوچتے ہیں ، جو بھی جانتے ہیں ، جتنی بڑی توپ ہیں اس سے زیادہ اہم ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ۔۔

لوگ کیا سوچتے ہیں! ان کا نظریہ کیا ہے! ( ابا نے پورے گاؤں میں میری کامیابی ، خوشحالی اور علمیت  کی دھاک بیٹھا رکھی تھی۔ گھر ، گاڑیاں اور بچوں کی تعلیم کے قصے مجھے بہت غصہ دلاتے تھے مگر ابا اس سب کو بڑی مہارت سے اپنے فلاحی پراجیکٹ کی حمایت میں استعمال کرتے، گاؤں میں بجلی، سڑک، اور گیس کی فراہمی میں میرا کردار صرف فون کرنے تک محدود تھا مگر ابا ۔۔۔ سارا کریڈٹ مجھے دیتے۔ جب کسی دفتر جاتے تو وہاں میرے نام سے ملنے والے “ کرسی” پر گاؤں والوں کے سامنے فخر سے بیٹھتے۔ حالانکہ میں منت سماجت کر کے ان کی ملاقات کا اہتمام کرواتا تھا اور ملنے والے سے پیشگی معذرت بھی کر لیتا کہ ابا بات کچھ ٹھوک کر کرتے ہیں۔ برا نہ  منائیے گا۔ ( کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن اس کی یہاں ضرورت نہیں)۔

اس سب کا مقصد وہ حالات بتانا تھا جس میں مَیں گاؤں میں اپنی ذاتی پہچان بنا رہا تھا۔ اس میں سے زیادہ تر باتیں درست مگر ان کا لیول حقیقت سے کہیں زیادہ تھا۔ اب میں کیا کرتا ہوں اس کا جواب گاؤں والوں کو میں نے خود دینا تھ

ا۔سب سے پہلا سبق یہ تھا کہ ۔۔۔ باری اپنی اپنی۔۔۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گاؤں کی زندگی کتنی بدل  چکی تھی۔
جو کچھ کبھی گاؤں میں ترقی اور خوشحالی  کی مثالیں تھیں اب وہ نظر نہیں آتیں۔ میرا چاچا یوسف ( مرحوم) عرف دوبئی والا یوسف ۔۔۔ علاقے کا واحد آدمی تھا جس کے گھر تمام جدید سہولتیں اور کیش موجود ہوتا تھا۔ 70 کے عشرے میں دوبئی جانا کئی نوجوانوں کی آخری خواہش تھی۔ اب گاؤں  میں ایک یوسف نہیں تقریباً  ۵۰ جوان امارات، سعودیہ ، یونان، فرانس، ایران ۔۔۔ اور نجانے کس کس ملک میں کام کر رہے تھے ۔ لیکن ان گھروں کی زندگی میں وہ خوشحالی نہ  تھی جو کبھی چاچا یوسف کا مقدر تھی۔ دو تین یورپی ممالک کے مزدوروں یا پھر دو تین کے بیرون ملک کاروبار والوں کو چھوڑ کر باقی صرف سفید پوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔ گاوں میں جہاں پہلے ابا کی کوششوں سے تعلیم پہلی ترجیع تھی اب تعلیم پہلی ترجیح انہ  رہی تھی۔ جس جوان سے پوچھوں ۔۔۔ کالج کیوں نہیں گئے؟
“جانا تو بیرون ملک ہی ہے۔ وہاں کرنی مزدوری ہی ہے تو پھر کالج کیوں جائیں؟”

جس گاؤں سے سات آٹھ سال پہلے بچے ایم ایس سی فزکس، ایم ایس سی میتھ کر رہے تھے کو سرکاری ملازمت  نہ  ملنے اور پھر ماسٹر بننے کی آخری آپشن کے بعد اب تعلیم لڑکوں کی پہلی ترجیح نہیں رہی تھی۔

گاؤں  میں جہاں کبھی کبڈی، کشتی، اور سہاگہ اٹھانا عام تھا۔۔۔ اب درجنوں گھروں کی  چھتوں پر کبوتروں کے “ پنجرے ” تھے۔ جس نوجوان ، جوان، بڑے اور بوڑھے کو دیکھو۔۔۔ آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب کبھی کوئی باہر کا کبوتر گاوں آ جائے تو پورا گاوں ۔۔۔ اتنے انہماک سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے جتنا کبھی رویت ہلال نے عید کا چاند بھی نہ دیکھا ہو۔

باؤنڈڈ لیبر!
میرے لیے یہ خبر کسی طوفان سے کم نہیں تھی۔ ابا بات کرتے تھے تو کبھی اس بات کو درست نہ  جانا۔ ہمارے گاؤں میں کوئی بہت بڑا جاگیر دار نہیں۔ ۲۵سے ۵۰ ایکٹر والے اب چھوٹے نہیں بڑے چودھری بن چکے تھے۔ اس بات کا احساس اس وقت ہوا جب میں نے علاقے میں ۷ باونڈڈ لیبر گھرانوں کا ڈیٹا دیکھا۔ ۶۔ لاکھ ، ۷۔ لاکھ قرضہ ۔۔۔ اور پاپند زرعی مزدوری۔ لیکن یہاں جب باونڈڈ لیبر والی فیملیز سے سیر حاصل بحث ہوئی تو کئی انکشافات ہوئے۔
باؤنڈڈ لیبر کی اکثریت  اپنی برادری میں شادی بیاہ یا دیگر تقریبات پر اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے اس لعنت کا شکار ہوئی تھی۔
ماہانہ ۱۲- ہزار، ایک سیر دودھ، ایک من گندم ماہانہ ۔۔۔ اور کچھ تھوڑا بہت اور بھی۔۔۔ لیکن باونڈڈ رقم وہیں کی وہیں۔۔۔ یہ غلامی مجھے دو طرفہ بھی لگی۔ پیسے دینے والا بھی باونڈ ہو گیا؟ لیکن اس غلامی کی کوئی بھی شکل قابل قبول نہیں۔۔۔ لیکن اس کا شکار اس کے حق میں بہت دلائل دے رہے تھے۔
مزدوری ملتی نہیں۔ پکی نوکری لگی ہوئی ہے۔
مالک اچھا ہو تو یہ بہترین طریقہ ہے۔
گھر کے پاس ہی رہتے ہیں۔۔ پورا گھر آزاد ہے۔۔۔ باقی لوگوں کو مزدوری نہ  بھی ملے تو ہم بھوکے نہیں مرتے!
اودھر پیسے دینے والوں کا کہنا ہے کہ ہم مجبور ہیں ۔ خوشی سے پیسے نہیں دیتے۔ ایڈوانس اور باونڈڈ رقم ادا کئے بغیر کوئی کھیت مزدور ملتا ہی نہیں۔

کم عمری کی شادی!
ہمارے گاؤں میں کم عمری کی شادی کا عام رواج رہا ہے۔ آج بھی یہ رواج ہے لیکن زمیندار گھرانوں میں بالکل بھی ایسا نہیں۔ مزدور اور “کمی” گھرانوں اور بظاہر معاشرے میں کم  درجہ رکھنے والی بردار یوں میں آج بھی کم عمری کی شادی عام ہے۔ ہمارے سکول سے دو بہنیں پڑھ کر ایف اے کے بعد ٹیچرز لگ گئیں۔ ایک بی اے کی تیاری کر رہی ہے۔ ان کے باپ سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا ۶ لاکھ کا باؤنڈڈ لیبر ہے۔ ۱۱ بچے ہیں۔ لڑکے ابھی چھوٹے ہیں۔ ان کی شادی تین سال سے طریقے سلیقے سے روکی ہوئی ہے۔ اب ان دو بہنوں اور ایک تیری ٹیچر جو ۲۰ سال کی ہو چلیں کی شادی طے ہے۔ ان تین بچیوں کو کم عمری کی شادی سے چھٹکارا ابا کے اس وعدے سے ملا کہ وہ ان کی شادی کرائیں گے۔ جاتے جاتے وہ یہ اہم فریضہ بھی میرے سپرد کر گئے۔ یہاں یہ بات سب سے اہم ہے کہ اگر کسی ایک خاندان میں ۔۔۔ یا برادری میں کم عمری کی شادی کا رواج ختم کرنا ہے تو پہرہ دینا ہو گا۔ خرچ کرنا ہو گا۔ ان بچیوں کو مصرف اور کارآمد رکھنا ہو گا۔ اور پھر ان کی شادی بھی کروانی ہو گی۔ اسی طرح سے رواج بدلے گا۔ یہ سب جان کر ابا کی فلاحی منصوبہ بندی کا درست طریقے سے علم ہوا۔ باپ اور بیٹا کے درمیان گفتگو کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔ اب جب میں خود پانی میں اترا ہوں تو ۔۔۔ پانی کی گہرائی کا اندازہ ہو رہا ہے۔ اب سوچتا ہوں ابا کتنے حوصلے سے میری لایعنی تقریریں سنتے تھے۔ جو  اب مجھے دوستوں سے سننے کو مل رہی ہیں۔

ہنر مند نوجوان!
گاوں میں مسیح برادری کے ۷ گھر ہیں ۔ وقت بدلا اور ان گھر والوں نے روایتی مزدوری چھوڑ کر راج مستری کا کام شروع کر دیا۔ ان میں سے ایک دوبئی میں ہے اور دو گھروں میں اللہ کا خاص کرم ہے۔۔۔ کئی مسلم زمیندار گھرانوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن جو محنت نہیں کرتا اس کا حال باقی گاوں والوں جیسا ہی ہے! لیکن گاوں کے باقی جاٹ گھرانے آج بھی کسی ہنر کو سیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ جٹ ہونے کا ایسا غرور سر پر سوار ہے کہ پوچھیں مت ۔ گھر کھانے کو کچھ نہ ہو شملہ اونچا ہی ہے۔ لیکن یہی لوگ مڈل ایسٹ میں کیا کیا مزدوری نہیں کرتے۔۔۔ اس کا تو آپ پوچھیں بھی نہ ۔ سب کام کرتے ہیں ۔۔۔” کوئی دیکھتا تو نہیں۔

نشہ کی لت!
گاؤں میں نوجوانوں کی اکثریت کسی نا کسی نشہ کی لت میں مبتلا ہے۔ غرور، تکبر ، پدر شاہی کی لت اپنی جگہ پر۔۔ دیسی شراب، چرس، افیون، شیشہ اور گٹکا کا نشہ عام ہے۔ چھوٹے بچے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ایک ۱۲ سالہ بچے کا سنا دو دن نشے میں سوتا رہا۔ بزرگوں اور بچوں کے درمیان دوری بہت بڑھ گئی ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک ہے۔ کوئی دوسرے کو ٹوکنے کی کوشش بھی نہیں کرتا ۔۔۔کرے بھی تو کیسے؟ اس کے اپنے گھر میں یہی مسئلہ ہے۔

“پتر ہن تیرے کولوں کی پردہ۔۔۔ ایہہ منڈے میرے کہن وچ نہیں۔ میں تے آپ ایہناں کولوں اپنی عزت بچا کے بیٹھا آں”

آگے بڑھتی عورتیں!
کمزور معاشی صورتحال ، نشہ اور مسلسل کمزور ہوتی جسامت کی وجہ سے شادی کے ۶-۸ سال بعد ہی گھر میں عورت راج شروع ہو جاتا ہے۔ چند گھرانے ضرور ایسے تھے جہاں عورتوں پر تشدد عام تھا لیکن مسلسل معاشی کمزوری سے مردانہ معاشرہ اب بدل رہا ہے۔ گاوں میں آمدن کا سب سے بڑا عام  ذریعہ دودھ کی فروخت ہے! اس کاروبار پر عورت کا پلہ بھاری ہے۔ زیادہ تر گھروں میں مڈل مین سے پیسے بھی عورتیں ہی وصول کر رہی ہیں۔ معاش پر کنٹرول سے فیصلہ سازی میں بھی عورت آگے بڑھ رہی ہے۔

دیہاتی زندگی میں شہریت!
بجلی، سڑک، سوئی گیس، موبائل فون، موٹر سایئکلُ، ٹیوٹا ، انٹرنیٹ ، واٹس ایپ ، ایزی پیسہ ، تقریبا کپڑے کے ہر زنانہ برینڈ کی نقل، کاسمیٹک کی عام دستیابی، شیشہ ، سنفنگ اور چرس کی عامُ دستیابی۔۔۔۔ شائد ہی اب کچھ بچ گیا ہو جو وسطی پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں میسر نا ہو۔ اب تو سیوریج کا گندہ پانی اور کوڑا کرکٹ کی بھرمار اور اس سب کا کوئی انتظام نہ  ہونا وسطی پنجاب کی دیہات کو وسطی پنجاب صنعتی شہروں کے مضافاتی علاقوں کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لوگوں کی معاشرت بھی شہری ہی ہو گئی ہے۔۔۔ رویے بھی ایسے ہی ہو گئے ہیں! جیسا کہ ہر صنعتی شہر کا مضافاتی علاقہ ہو۔۔۔ بغیر کسی منصوبے کے، جس کی اب تک نا تو کوئی سمت طے ہوئی ہے اور نہ  ہی کسی کو یہ سوچنے کی فرصت ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ایسے میں گاؤں والوں کے لئے کوئی نئی مثال قائم کرنا ہو گی؟ لیکن کیسے؟ تجاویز درکار ہیں۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply