نگران وزیراعظم کا پریشان حال تفتان/نذر حافی

13 اگست کی شب کی بات ہے۔ گوادر پورٹ پراجیکٹ کے قریب چینی انجینئرز کے قافلے پر بموں سے حملہ ہوا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یہ تو ایک بچہ بھی سمجھتا ہے کہ ایسے حملے سہولتکاری اور مخبری کے بغیر نہیں ہوسکتے۔

 

 

 

بہرحال خوش قسمتی سے 13 اگست کے روز ہی بلوچستان سے انوار الحق کاکڑ پاکستان کے نگران وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ یہ وقت ان کی صلاحیتوں کے امتحان کا ہے، خصوصاً اُن کا اپنا صوبہ اسمگلنگ، منشیات، پسماندگی، لاقانونیت اور دہشت گردی خصوصاً مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے اُن کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔

مذہبی شدّت پسندی کے حوالے سے تفتان بارڈر کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ اس روٹ سے سال بھر اہم شخصیات جیسے علمائے کرام، تاجر حضرات، وکلا، پروفیسرز، ڈاکٹرز اور انجینئرز سفر کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد عام زائرین کی بھی آتی جاتی رہتی ہے۔ اتنے اہم بارڈر پر ایک لمبے عرصے سے سکیورٹی عملے کے نام پر مذہبی جنونی اور تکفیری افراد کو تعینات کیا جانا کسی طور بھی مصلحت نہیں۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق سکیورٹی عملے کے لبادے میں سول کپڑوں میں ملبوس تکفیری عناصر گذشتہ کئی مہینوں سے اس روٹ پر عوام کو ہراساں کر رہے ہیں۔ ایک سرکاری “صوفی صاحب” اور ان کی ٹیم اپنی ڈیوٹی کے نام پر مسافروں کو ذہنی ٹارچر کر رہی ہے۔

یہ تکفیری ٹیم لوگوں سے کلمے، ایمان کے ارکان، پہلے کلمے کا نام، وغیرہ سب کچھ پوچھتی ہے، پھر کافی دیر تک انہیں بارڈر پر پکا مسلمان بنانے کے بعد ایران میں انٹر ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ اس متعصب ٹیم کے ہاتھوں لوگوں کے دین کا پوسٹ مارٹم کیا جانا قانوناً و اخلاقاً درست نہیں۔ ہمارے خیال میں لوگوں کو زیارات پر جانے سے روکنے کیلئے دلائل دینا اور اور بھرپور طریقے سے اپنا مذہبی بغض نکالنا یہ سب سرکاری ڈیوٹی کے دائرے میں بھی نہیں آتا۔ نگران وزیراعظم صاحب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ تفتان روٹ پر اور بارڈر پر لوگوں کی مدد اور شکایت کیلئے کوئی سرکاری موبائل نمبر، کسی افیسر کا کنٹیکٹ نمبر یا کسی ادارے کا کوئی شکایت باکس نہیں، جہاں لوگ اپنے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کے خلاف تحقیقات، انکوائری یا نوٹس لینے کی درخواست کریں۔

ہم عزت ماب نگران وزیراعظم صاحب! بلوچستان حکومت! وفاق کے اعلیٰ حکام! اور سکیورٹی حکام کی توجہ اس انتہائی اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اس روٹ پر سفر کرنے والے تمام افراد کا ڈیٹا یہی تکفیری و مذہبی جنونی ٹیم اکٹھا کرتی ہے۔ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کیلئے یہ ڈیٹا ایندھن کا کام دے گا۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان میں مذہبی دہشت گردوں کے کئی فعال نیٹ ورکس ہیں، جنہیں صوفی صاحب اینڈ کمپنی کی طرف سے ڈیٹا فراہم کیا جانا بعید از قیاس نہیں۔ 8 جون 2014ء میں 300 پاکستانی زائرین ایران سے زیارت کے بعد تفتان پہنچے، جہاں دو الگ الگ ہوٹلوں پر کھانا کھانے کیلئے رکے۔ اس دوران دہشت گردوں نے زائرین پر ہوٹلوں کے اندر گھس کر دو خودکش حملے کیے۔ دہشت گرد ڈیڑھ گھنٹے تک مسافروں پر گولیاں برساتے رہے۔

اس کے علاوہ ہزارہ ٹارگٹ کلنگ اور آئے روز کوئٹہ میں زائرین کی بسوں پر حملوں کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح تفتان سے ملحق ایران کے سرحدی علاقے میں بھی یہی مذہبی جنونی اور تکفیری حضرات دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں “صوفی اینڈ کمپنی” کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی بارڈر پر ماموریت، تبلیغ کا معاندانہ انداز اور کھلا ڈھلا مذہبی بغض و عناد خود بخود گواہ ہے کہ ان پر کسی قسم کا چیک اینڈ کنٹرول نہیں۔ اگر یہ بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا مذہبی بغض نکال سکتے ہیں تو پھر یہ جمع شدہ ڈیٹا بھی اپنے کسی ہم مسلک دہشت گرد ٹولے کے ساتھ شئیر کرسکتے ہیں اور آنے والے وقت میں بارڈر پر یا پاکستان کے اندر تسلسل سے بدترین دہشت گردانہ کارروائیاں ہوسکتی ہیں۔

اگر اس ملک میں کوئی درد رکھنے والا سیاستدان، سوچنے و سمجھنے والا سکیورٹی افیسر اور احساس ذمہ داری رکھنے والا قانونی ادارہ موجود ہے تو اُس کیلئے ہماری چند گزارشات ہیں:
1۔ سکیورٹی فورسز کو شدت پسندوں سے پاک ہونا چاہیئے۔ سرکاری ملازمین چاہے سول کپڑوں میں ہی ہوں، ان پر ڈیوٹی کی دوران سیاسی یا مذہبی گفتگو اور تبلیغ پر پابندی ہونی چاہیئے۔
2۔ تفتان روٹ پر اہم شخصیات سفر کرتی ہیں، ان سب کا ڈیٹا “صوفی صاحب اینڈ کمپنی” کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ سارا ڈیٹا فوری طور پر محفوظ ہاتھوں میں منتقل کیا جانا چاہیئے، صوفی صاحب جیسے تبلیغی و تکفیری عناصر یہ ڈیٹا با آسانی اپنے ہم مذہب و ہم مسلک دہشت گردوں کو فراہم کرسکتے ہیں۔

3۔ سفری مشکلات سے بچنے اور بارڈر پر سکیورٹی عملے کی بدعنوانی کی صورت میں جگہ جگہ موبائل نمبرز لکھے ہونے چاہیئے، تاکہ لوگ فوری مدد طلب کرسکیں۔
4۔ انٹری گیٹس پر مامور تکفیری “صوفی صاحب اینڈ کمپنی” اور ان کے ہمنواوں سے عوام کو فوری طور پر نجات دلائی جائے۔ نئے اسٹاف کو عام پبلک کی طرح بغیر پنکھے اور بغیر چھت کے روڈ پر بٹھایا جائے۔ اس طرح وہ سخت گرمی میں لوگوں کو زیادہ لمبی تبلیغ نہیں کریں گے۔ نیز انہیں بھی گرمی اور پیاس کا احساس ہوگا۔
5۔ انٹری فارم پُر کرانے والے شخص کی بھی پروفیشنل تربیت کی ضرورت ہے۔ صرف فارم کا ہونا کافی نہیں بلکہ رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب [Right Person for the Right Job] بھی ضروری ہے۔ اس کیلئے کسی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت نہیں، صرف اسے یہ سمجھایا جائے کہ وہ داعشی تبلیغی جماعت کا کوئی مبلغ نہیں بلکہ ایک سرکاری ملازم ہے۔ ایک سرکاری ملازم ہونے کے ناطے وہ اپنی ڈیوٹی دیانتداری سے انجام دے، بصورت دیگر عوام اس کی شکایت لگانے کے مجاز ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

6۔ مسافروں و زائرین کے مطابق ویزہ ہونے کے باوجود بارڈر پر زائرین کو روک کر تین، چار ہزار روپے انیٹھ لئے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال کیلئے بھی شکایات درج کرانے اور شکایت کنندہ کا نام مخفی رکھنے کا بندوبست کیا جانا چاہیئے۔
آخر میں محترم نگران وزیراعظم کی خدمت میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اس مذہبی جنونیت اور جتھوں کی وجہ سے ہم کشمیر کو بھی ہار چکے ہیں۔ اب مقبوضہ کشمیر کو چھوڑئیے، آزاد کشمیر میں ہی ریفرنڈم کروا کر دیکھ لیجئے۔ بلاشبہ سانحہ بنگلہ دیش کے بعد ہمیں یہ بچا کھچا ملک بچانے کیلئے ہر طرح کی شدت پسندی سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ تفتان بارڈر پر اس وقت خاص طور پر مذہبی جنونیت عروج پر ہے اور عوام پریشان ہیں۔ عوام کی پریشانی دور کیجئے، خدا آپ کی پریشانیاں دور کرے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply